Pages

Wednesday, 21 September 2016

اِیصالِ ثواب جائز ہے

اِیصالِ ثواب جائز ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ قَالَ یَارَسُوْلَ اللہِ! الصَّدَقَۃِ أَفْضَلُ قَالَ الْمَآء فَحَفَرَ بِئْرًا وَقَالَ ھٰذِہٖ
لِاُمِّ سَعْدٍ ۔

ترجمہ: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ اُمّ سعد(یعنی میری ماں) کا انتقال ہو گیا ہے ان کیلئے کونسا صدقہ افضل ہے؟ اللہ کے رسول عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پانی(بہترین صدقہ ہے تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے کہنے کے مطابق) حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے کنواں کھدوایا اور (اسے اپنی ماں کیطرف منسوب کرتے ہوئے) کہا یہ کنواں سعد کی ماں کیلئے ہے۔(یعنی اس کا ثوا ب ان کو پہنچے۔)(سنن ابی داود،کتاب الزکاۃ،باب فی فضل سقی المائ،الحدیث۱۶۸۱،ج۲،ص۱۸۰)

مختصر شرح حدیث : حضرت سیدنا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس سوال'' کونسا صدقہ افضل ہے؟''کا مطلب یہ ہے کہ میں کونسا صدقہ دے کر ان کی روح کو اس کا ثواب بخشوں۔ اس سے معلوم ہواکہ بعدِ وفات میت کو نیک اعمال خصوصاً مالی صدقہ کا ثواب بخشنا سنّت ہے۔ قرآن کریم سے تو یہاں تک ثابت ہے کہ نیکو ں کی برکت سے بروں کی آفتیں بھی ٹل جاتی ہیں،ر(پ۱۶،سورۃ الکہف:۸۲)

نبیِ کریم صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم نے جواباً پانی کی خیرات کا حکم دیا ۔کیونکہ پانی سے دینی دنیوی منافع حاصل ہوتے ہیں۔بعض لوگ سبیلیں لگاتے ہیں عام مسلمان ختم فاتحہ وغیرہ میں دوسری چیزوں کے ساتھ پانی بھی رکھ دیتے ہیں ان سب کا ماخذ یہ حدیث ہے۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ ایصالِ ثواب کے الفاظ زبان سے ادا کر نا سنّتِ صحابہ ہے کہ خدایا اس کا ثواب فلاں کو پہنچے۔(ماخوذ از مراٰۃ المناجیح، ج ۳،ص۱۰۴ ،۱۰۵)

( 1)فرض،واجب،سنت،نفل،نماز،روزہ،زکوۃ،حج وغیرہ ہر عبادت (نیک کام)کا ایصالِ ثواب کرسکتے ہے۔

(2)میت کا تیجا،دسواں،چالیسواں،برسی کرنا اچھا ہے کہ یہ ایصالِ ثواب کے ذرائع ہیں۔شریعت میں تیجے وغیرہ کے عدَمِ جواز کی دلیل نہ ہونا خود دلیلِ جواز ہے اور میت کیلئے زندوں کا دعا کرنا خود قرآن پاک سے ثابت ہے جو کہ ایصالِ ثواب کی اصل ہے۔

چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَالَّذِیْنَ جَآءُ وْا مِنْم بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَاوَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ جوان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب! عزوجل ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔             (پ۲۸،الحشر:۱۰)

(3)تیجے وغیرہ میں کھانے کا انتظام صرف اسی صورت میں میت کے چھوڑے ہوئے مال سے کر سکتے ہیں جبکہ سارے وُرثاء بالغ ہوں اور سب کے سب اجازت بھی دیں۔اگر ایک بھی وارث نابالغ ہے تو نہیں کرسکتے(نابالغ اجازت دے تب بھی نہیں کرسکتے)۔ہاں بالغ اپنے حصے سے کرسکتا ہے۔

(4)میت کے گھر والے اگر تیجے کا کھانا پکائیں تو صرف فُقراء کو کھلائیں۔

(5)نابالغ بچے کو بھی ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں جو زندہ ہیں ان کو بھی،بلکہ جو مسلمان ابھی پیدا نہیں ہوئے ان کو بھی پیشگی(ایڈوانس میں)ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔

(6)مسلمان جنّات کو بھی ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔

( 7)گیارہویں شریف،رَجَب شریف(یعنی ۲۲ رجب کو سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ کے کونڈے کرنا)وغیرہ جائز ہیں۔کھیر کونڈے ہی میں کھلانا ضروری نہیں دوسرے برتن میں بھی کھلاسکتے ہیں۔اس کو گھر سے باہر بھی لے جاسکتے ہیں۔

(8)بزرگوں کے فاتحہ کے کھانے کو تعظیماً نذر ونیاز کہتے ہیں اور یہ نیاز تبرُّ ک ہے اسے امیر و غریب سب کھا سکتے ہیں۔

(9)داستانِ عجیب،شہزادے کا سر،دس بیبیوں کی کہانی اور جنابِ سیدہ کی کہانی وغیرہ سب مَن گھڑت قصے ہیں انہیں ہر گز نہ پڑھا کریں۔اسی طرح ایک پمفلٹ بنام وصیت نامہ لوگ تقسیم کرتے ہیں جس میں شیخ احمد کا خواب درج ہے یہ بھی جعلی ہے اس کے نیچے مخصوص تعداد میں چھپوا کر بانٹنے کی فضیلت اور نہ تقسیم کرنے کے نقصانات وغیرہ لکھے ہیں یہ بھی سب غلط ہیں۔

(10)جتنوں کو بھی ایصالِ ثواب کریں اللہ عزوجل کی رحمت سے امید ہے کہ سب کو پورا ملیگا یہ نہیں کہ ثواب تقسیم ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ملے۔

(11)ایصالِ ثواب کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ یہ امید ہے کہ اس نے جتنوں کو ایصالِ ثواب کیا ان سب کے مجموعہ کے برابر ملیگا مثلاً کوئی نیک کام کیا جس پر اس کو دس نیکیاں ملیں اب اس نے دس مُردوں کو ایصالِ ثواب کیا تو ہر ایک کو دس دس نیکیاں پہنچیں گی جبکہ ایصالِ ثواب کرنے والے کو ایک سو دس اور اگر ایک ہزار کو ایصالِ ثواب کیا تو اس کو دس ہزار دس۔وَعَلٰی ھٰذَا الْقِیَاس

(12)ایصالِ ثواب صرف مسلمان کو کرسکتے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔