Pages

Thursday 22 September 2016

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر غیر مقلدین کی طرف سے ارجاء کا بے جا اعتراض اور اس کا جواب

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر غیر مقلدین کی طرف سے ارجاء کا بے جا اعتراض اور اس کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
غیر مقلدین کا مشہور اعتراض = امام ابوحنیفہ ؒ " عقیده اِرجاء " رکهتے تھے اور شیخ عبدالقادر جیلانی نے اپنی کتاب ( غنية الطالبين ) میں تہترفرقوں کی تفصیل میں " مرجئہ فرقہ " کا ذکر بهی کیا ، اور " مرجئہ فرقہ " میں اصحاب ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ؒ کو بهی شمار کیا ہے ۰

اس اعتراض کا جواب = فرقہ غیر مقلدین نام نہاد اہل حدیث کے بعض متعصب لوگوں نے ( غنية الطالبين ) کی اس عبارت کو لے کر امام ابوحنیفہؒ اور احناف کے خلاف بہت شور مچایا اور آج تک اس وسوسہ کو گردانتے چلے جارہے ہیں ،انہی لوگوں میں پیش پیش کتاب " حقیقت الفقہ " کے مولف نام نہاد اہل حدیث غیر مقلد عالم یوسف جے پوری بھی ہے ، لہذا اس نے اپنی کتاب " حقیقت الفقہ " میں گمراه فرقوں کا عنوان قائم کرکے اس کے تحت فرقہ کا نام " الحنفیہ " اور پیشوا کا نام ابو حنيفہ نعمان بن ثابت لکھا ، اور "حنفیہ " کو دیگر فرقہ ضالہ کی طرح ایک گمراه فرقہ قرار دیا اوراسی غرض سے شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب ( غنیۃ الطالبين ) کی عبارت نقل کی ۔
امام ابوحنیفہؒ کی طرف منسوب اس اعتراض کا جواب دینے سے قبل یوسف جے پوری کی امانت و دیانت ملاحظہ کریں ، اس نے اصل عبارت پیش کرنے بجائے صرف ترجمہ پر اکتفاء کیا اور وه بھی اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ذکر کیا ،(غنية الطالبين ) کی اصل عبارت اس طرح ہے ۔
أما الحنفية فهم بعض أصحاب أبي حنيفة النعمان بن ثابت زعموا ان الإيمان هوالمعرفة والإقرار بالله ورسوله وبما جاء من عنده جملة على ماذكره البرهوتي فى كتاب الشجرة ٠ (291 )
اب ( غنية الطالبين ) کی اس عبارت کی بنیاد ایک مجہو ل شخص " برہوتی " کی مجہول کتاب " كتاب الشجرة " پر ہے ، لیکن یوسف جے پوری نے اس عبارت کا ترجمہ کرتے وقت " كتاب الشجرة " کا نام اڑا دیا جو کہ ( غنية الطالبين ) کا مآخذ ہے ، اب سوال یہ ہے کہ
یہ " برہوتی " کون شخص ہے ؟ اور اس کی " كتاب الشجرة " کوئی مستند کتاب ہے ؟ حقیقت میں یہ دونوں مجہول ہیں ، لیکن یوسف جے پوری چونکہ فرقہ جديد نام نہاد اہل حدیث سے تعلق رکھتے ہیں جن کا یہ اصول ہے کہ ہم ہر بات صحیح و ثابت سند کے ساتھ قبول کرتے ہے ضعیف اور مجہول بات کا ہمارے نزدیک کوئی اعتبار نہیں ہے ، لیکن امام ابوحنیفہ ؒ اور احناف کے خلاف جو بات جہاں سے جس کسی سے بھی مل جائے تو وه سر آنکھوں پر ہے ، اس کے لئے کسی دلیل ثبوت صحت سند غرض کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں ،اگر " كتاب الشجرة " اور اس کا مصنف " برہوتی " واقعی ایک معروف و معتمد آدمی ہے تو یوسف جے پوری نے اصل کتاب " كتاب الشجرة " کی عبارت مع سند کیوں ذکر نہیں کی ؟
جب ایسا نہیں کیا تو اہل عقل پر واضح ہوگیا کہ یوسف جے پوری نے محض تعصب و عناد کی بنا پر جاہل عوام کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی ہے۔
دوسری اہم بات ( غنیۃ الطالبین ) کی مذکوره بالا عبارت کو دیکھیں اس میں ( بعض أصحاب أبی حنیفۃ ) کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے کہ کچھ حنفی اس عقیده کے حامل تھے ، لیکن یوسف جے پوری کی امانت ودیانت کو داد دیں کہ اس نے " بعض " کا لفظ اڑا کر تمام احناف کو اس میں شامل کردیا اور اس کو امام ابوحنیفہ ؒ کا مذہب بنا دیا ۔
یوسف جے پوری لکھتا ہے کہ
ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی مقتدا ہیں فرقہ حنفیہ کے اکثر اہل علم نے ان کو " مرجئہ فرقہ " میں شمار کیا ہے الخ (حاشیہ حقیقت الفقہ ص 27)
جے پوری کی یہ بات کہ ( اکثر اہل علم نے ان کو " مرجئہ فرقہ " میں شمار کیا ہے ) یہ محض دھوکہ اور کذب و وسوسہ ہے ، اس لئے کہ اگر اکثر اہل علم نے امام ابوحنیفہ ؒ کو مرجئہ کہا ہے تو جے پوری نے ان اکثر اہل علم کی فہرست اور ان کے نام ذکرکرنے کی تکلیف کیوں نہیں کی ؟
جو شخص امام ابوحنیفہ ؒسے اس درجہ بغض وعناد رکھتا ہے کہ سب رطب ویابس غلط جھوٹ بغیر جانچ پڑتال کے اپنی کتاب میں درج کرتا ہے ، تعجب ہے کہ اس نے یہ تو کہہ دیا کہ اکثر اہل علم نے امام ابوحنیفہؒ کو مرجئہ کہا ہے ، لیکن اکثر اہل علم میں سے کسی ایک کا نام ذکر کرنے کی تکلیف نہیں کی ۔
حافظ ابن عبدالبر المالکی ؒ فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے امام ابوحنیفہؒ پر " ارجاء " کا الزام لگایا ہے ، حالانکہ اہل علم میں تو ایسے لوگ کثرت سے موجود ہیں جن کو مرجئہ کہا گیا ہے ، لیکن جس طرح امام ابوحنیفہ ؒ کی امامت کی وجہ سے اس میں برا پہلو نمایاں کیا گیا ہے دوسروں کے بارے میں ایسا نہیں کیا گیا ، اس کے علاوه یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض لوگ امام ابوحنیفہ ؒ سے حسد و بغض رکھتے تھے اور ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے تھے جن سے امام ابوحنیفہ ؒ کا دامن بالکل پاک تھا ، اور ان کے بارے نامناسب اور بے بنیاد باتیں گھڑی جاتی تھیں حالانکہ علماء کی ایک بڑی جماعت نے امام ابوحنیفہ ؒ کی تعریف کی اور ان کی فضیلت کا اقرار کیا ہے ۔
(دیکھیے " جامع بیان العلم وفضله لابن عبدالبر ص 431 )

ارجاء کا معنی اور حقیقت
ارجاء کا لغت عرب میں معنی ہے " الأمل والخوف والتأخير وإعطاء الرجاء والإمهال " تاخیر اور مہلت دینا اور خوف اور امید ۔ علامہ عبد الکریم شہرستانی اپنی کتاب ( الملل والنحل ) میں فرماتے ہیں کہ ارجاء کے دو معنی ہیں
1. تاخیر کرنا جیسا کہ قول باری تعالی " قالوا أرجه وأخاه " ( انہوں نے کہا کہ موسی اور ان کے بهائی کو مہلت دے ) یعنی ان کے بارے میں فیصلہ کرنے میں تاخیر سے کام لینا چاہیئے اور ان کو مہلت دینا چاہیئے ۔

2. والثانی: إعطاء الرجاء. دوسرا معنی ہے امید دلانا ( یعنی محض ایمان پر کلی نجات کی امید دلانا اور یہ کہنا کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناه و معاصی کچھ مضر نہیں ہیں۔

3. ) اوربعض کے نزدیک ارجاء یہ بھی ہے کہ کبیره گناه کے مرتکب کا فیصلہ قیامت پر چھوڑ دیا جائے اور دنیا میں اس پر جنتی یا جہنمی ہونے کا حکم نہ لگایا جائے ۔
4. اور بعض کے نزدیک ارجاء یہ ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ کو پہلے خلیفہ کے بجائے چوتھا خلیفہ قرار دیا جائے. ( الملل والنحل ، الفصل الخامس ألمرجئة )

ارجاء " کے معنی و مفہوم میں چونکہ " التأخير " بھی شامل ہے ، اس لئے جو حضرات ائمہ‘ گناہگار کے بارے میں توقف اور خاموشی سے کام لیتے ہیں ، اور دنیا میں اس کے جنتی اور جہنمی هونے کا کوئی فیصلہ نہیں کرتے ، بلکہ اس کا معاملہ آخرت پرچھوڑتے ہیں کہ حق تعالیٰ شانہ اس کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کرے خواه اس کو معاف کرے اور جنت میں داخل کردے ، یا سزا بھگتنے کے لئے جہنم میں ڈال دے ، یہ سب " مرجئہ " ہیں اور اسی معنی کے اعتبار سے امام اعظمؒ اور دیگر ائمہ و محدثین کو " مرجئہ " کہا گیا ۔
علامہ ملا علی قاری نے ( شرح فقہ اکبر ) میں یہی بات لکھی ہے ثم اعلم أن القونوِيَّ ذَكرَ أنَّ أبا حنيفة كان يسمى مرجئاً لتأخيره أمرَ صاحبِ الكبيرة إلى مشيئة الله، والإرجاء التأخير. انتهى

جاننا چائیے کہ علامہ قونوی نے ذکر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ کو بھی مرجئہ کہا جاتا تھا کیونکہ امام ابوحنیفہ مرتکب کبیره کا معاملہ الله تعالی کی مشیت پر موقوف رکھتے تھے ، اور " ارجاء " کے معنی و مفہوم موخر کرنے کے ہیں ۔
( منح الروض الأزهر فی شرح الفقه الأكبر ) ص67 للعلامۃ علی القاری )
اب سوال یہ ہے کہ کیا امام ابوحنیفہ کا یہ عقیده قرآن وحدیث کی تصریحات وتعلیمات کےخلاف ہے ؟؟ یا صریح نصوص آیات و احادیث سے امام ابوحنیفہ کے اس عقیده کی تائید وتصدیق ہوتی ہے ، اور تمام اہل سنت کا بھی یہی مذہب ہے ۔

مرجئہ فرقہ كا عقيده

علامہ ملا علی قاری (شرح فقہ الاکبر ص 104 ) پرفرماتے ہیں کہ
پھر " مرجئہ مذمومہ بدعتی فرقہ " قدریہ سے جدا ایک فرقہ ہے جن کا عقیده ہے کہ ایمان کے آنے کے بعد انسان کے لیئے کوئی گناه مضر نہیں ہے جیسا کہ کفرکے بعد کوئی نیکی مفید نہیں ہے اور ان ( مرجئہ ) کا نظریہ ہے کہ مسلمان جیسا بھی ہو کسی کبیره گناه پر اس کو کوئی عذاب نہیں دیا جائے گا ،پس اس ارجاء( یعنی مرجئہ اہل بدعت کا ارجاء ) اور اُس ارجاء ( یعنی امام اعظم اوردیگرائمہ کا ارجاء) میں کیا نسبت ؟؟؟
یوسف جے پوری لکھتا ہے کہ
چنانچہ ایمان کی تعریف اور اس کی کمی و زیادتی کے بارے میں جو عقیده مرجئہ کا ہے انہوں ( امام ابوحنیفہ ) نے بھی بعینہ وہی اپنا عقیده اپنی تصنیف فقہ اکبر میں درج فرمایا ہے ۔ ( حاشيہ حقيقت الفقہ ص 72 )
یوسف جے پوری کی یہ بات بالکل غلط اور جھوٹ ہے

فقہ اكبركى عبارت ملاحظہ کریں

ولانقول ان المؤمن لايضره الذنوب ولانقول انه لايدخل النارفيها ولانقول انه يخلد فيها وان كان فاسقا بعد ان يخرج من الدنيا مؤمنا ولا نقول حسناتنا مقبولة وسيئاتنا مغفورة كقول المرجئة ( شرح كتاب الفقہ الاكبر ص 108)
اور ہم یہ نہیں کہتے کہ مومن کے لئے گناه مضر نہیں ، اور نہ ہم اس کے قائل ہیں کہ مومن جہنم میں بالکل داخل نہیں ہوگا ، اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وه ہمیشہ جہنم میں رہے گا اگرچہ فاسق ہو جب کہ وه دنیا سے ایمان کی حالت میں نکلا ،اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری تمام نیکیاں مقبول ہیں اور تمام گناه معاف ہیں جیسا مرجئہ کا عقیده ہے ۔
اب یوسف جے پوری کی بات (( جوعقیده مرجئہ کا ہے انہو ں ( امام ابوحنیفہ ) نے بھی بعینہ وہی اپناعقیده اپنی تصنیف فقہ اکبر میں درج فرمایا ہے )) کو دیکھیں اور " شرح فقہ اکبر " کی مذکوره بالاعبارت پڑھیں ، اس میں مرجئہ کا رد و مخالفت ہے یا موافقت ؟؟
یوسف جے پوری لکھتا ہے کہ
علامہ شہرستانی نے ( کتاب الملل والنحل ) میں بھی رجال المرجئہ میں حماد بن ابی سلیمان اور ابوحنیفہ اور ابو یوسف اور محمد بن حسن وغیرھم کو درج کیا ہے ،اسی طرح غسان ( جوفرقہ غسانیہ کا پیشوا ہے ) بھی امام صاحب کو مرجئہ میں شمارکرتا ہے ۔ ( حاشيہ حقيقت الفقہ ص 72)
یوسف جے پوری کی یہ بات بھی دھوکہ وخیانت پر مبنی ہے یا پھر ( کتاب الملل والنحل ) کی عبارت پڑھنے میں ان کو غلط فہمی ہوئی ہے
علامہ شہرستانی سے سنیے
ومن العجيب ان غسان كان يحكى عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى مثل مذهبه ويعده من المرجئة ولعله كذب كذالك عليه ولعمرى كان يقال لأبى حنيفة وأصحابه مرجئة السنة ( ألملل والنحل، الفصل الخامس الغسانية)
تعجب کی بات ہے کہ غسان ( جوفرقہ غسانیہ کا پیشوا ہے ) بھی اپنے مذہب کو امام ابوحنیفہؒ کی طرح ظاہر کرتا اور شمار کرتا تھا ، اور امام ابوحنیفہ ؒ کو بھی مرجئہ میں شمارکرتا تھا غالبا یہ جھوٹ ہے ، مجھے زندگی عطا کرنے والےکی قسم کہ ابوحنیفہؒ اور اس کے اصحاب کو تو " مرجئة السنة " کہا جاتا تھا ۔
اب آپ یوسف جے پوری کی عبارت پڑهیں اور علامہ شہرستانی کی اصل عبارت اور ترجمہ دیکھ لیں ،یہ نام نہاد اہل حدیث امام صاحب پر اس طرح جھوٹ و خیانت ، دھوکہ و فریب کے ساتھ طعن و تشنیع کرتے ہیں ،حاصل یہ کہ ( غنیۃ الطالبین ) میں جو کچھ لکھا ہے اس کی حقیقت بھی واضح ہوگئی اور جو کچھ ہاتھ کی صفائی سے یوسف جے پوری نے دکھائی وه بھی آپ نے ملاحظہ کرلی ،
ایک دوسری اہم بات بھی ملاحظہ کریں وه یہ کہ ( غنیۃ الطالبین ) میں شیخ عبدالقادر جیلانی نے کئی جگہ امام ابوحنیفہؒ کے اقوال بھی نقل کئے اور ان کو امام کے لقب سے یاد کیا ، مثلا ایک مقام پر شیخ عبدالقادر جیلانی نے تارک صلوة کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
وقال الإمام أبوحيفة لايقتل
امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا ۔
اب اگر شیخ عبدالقادر جیلانی کے نزدیک امام ابوحنیفہ " مرجئہ مبتدعہ ضالہ " میں سے ہوتے تو پھر ان کو " الإمام " کے لقب سے کیوں ذکر کرتے ہیں ؟؟؟
اور مسائل شرعیہ میں امام ابوحنیفہ کے اقوال کیوں ذکرکرتے ہیں ؟؟؟
((ميزان الاعتدال )) و (( تهذيب الكمال ) و (( تهذيب التهذيب )) اور (( تقريب التهذيب )) وغیره رجال کی کتابوں میں ایسے بہت سے روات کے حق میں " ارجاء" کا طعن و الزام لگایا گیا ، مثلا اس طرح کے الفاظ استعمال کئے گئے
" رُميَ بالإرجاء، كان مرجئاً ، " وغیره
امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب " تدریبُ الراوی " میں بخاری و مسلم کے ان روایوں کے اسماء کی پوری فہرست پیش کی ہے جن کو " مرجئہ " کہا گیا ۔
امام الحافظ الذہیو رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
قلتُ: الإرجاءُ مذهبٌ لعدةٍ من جلة العلماء، ولا ينبغي التحاملُ على قائله ۰
( الميزان ج3ص163 في ترجمة " مِسْعَر بن كِدَام)
میں ( امام ذہبی ) کہتا ہوں کہ " ارجاء " تو بڑے بڑے علماء کی ایک جماعت کا مذہب ہے اور اس مذہب کے قائل پر کوئی مواخذه نہیں کرنا چاہیئے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایک " ارجاء " فرقہ مبتدعہ ضالہ مرجئہ کا ہے اور ایک " ارجاء " ائمہ اہل سنت کا قول ہے ، جس کی تفصیل گذشتہ سطور میں گذر گئی ہے ۔
آخری بات فرقہ اہل حدیث کے مستند عالم مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی بات نقل کرکے بات ختم کرتا ہوں ، فرماتے ہیں کہ
اس موقع پر اس شبہ کا حل نہایت ضروری ہے کہ بعض مصنفین نے سیدنا امام ابوحنیفہؒ کو بھی رجال مرجئہ میں شمار کیا ہے حالانکہ آپ اہل سنت کے بزرگ امام ہیں اورآپ کی زندگی اعلی تقوی اورتورع پر گذری جس سے کسی کوبھی انکار نہیں ، بے شک بعض مصنفین نے ( الله ان پر رحم کرے ) امام ابوحنیفہ ؒ اورآپ کے شاگردوں امام ابو یوسف ؒ، امام محمد ؒ، امام زفرؒ ، اور امام حسن بن زیادؒ کو رجال مرجئہ میں شمار کیا ہے ، جس کی حقیقت کو نہ سمجھ کر اور حضرت امام صاحب ممدوح کی طرز زندگی پر نظر نہ رکھتے ہوئے بعض لوگوں نے اسے خوب اچھالا ہے لیکن حقیقت رس علماء نے اس کا جواب کئی طریق پردیا ہے ۔ (( تاريخ اہل حديث ، ارجاء اور امام ابوحنيفہ ، ص 77 ))
اسی کتاب میں ( ص 93) پر لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کو حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمہ الله کے حوالے سے بھی ٹھوکر لگی ہے آپ نے حضرت امام صاحب رحمہ الله علیہ کو مرجیئوں میں شمار کیا ہے ، سو اس کا جواب ہم اپنے الفاظ میں نہیں بلکہ اپنے شیخ الشیخ حضرت سید نواب صاحب مرحوم کے حوالے سے دیتے ہیں ۔
اس کے بعد مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی نے بانی فرقہ اہل حدیث نواب صدیق حسن صاحب کا کلام ان کی کتاب ( دلیل الطالب ) سے ذکر کیا ، اور پھر اس ساری بحث کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ
حاصل کلام یہ کہ لوگوں کے لکھنے سے آپ کس کس کو ائمہ اہل سنت کی فہرست سے خارج کریں گے ؟؟

2

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ الله پر ارجاء کا بے جا اعتراض اور اس کا جواب

قولہ : امام صاحب اس کے علاوہ کہ ضعیف تھے مرجئہ بھی تھے

اقول
دیکھتے ہی تجھ کو اے قاصد سمجھ جائیں گے وہ
ان کے دل پر حال دل میرا ہے یکسر آئینہ
ہم تو پہلے ہی سمجھ رہے ہیں کہ عوام کو گمراہ کرنا آپ حضرات کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، حق پوشی آپ کا شعار اور ناانصافی آپ کا وطیرہ ہے
خیر !! ناظرین کو یہ معلوم ہوچکا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمه الله نہ تو ضعیف تھے نہ مرجئہ - یہ بات نامہ برکی بنائی ہوئی سی ہے - امام صاحب رحمہ الله پر یہ اتہام اور افتراء ہے - سنیئے مرجئہ ارجاء سے مشتق ہے - جو باب افعال کا مصدر ہے ، لغت میں اس کے معنی تاخیر کرنا ہیں ، اصطلاح میں ارجاء کے معنی اعمال کو ایمان سے علیحدہ رکھنے کے ہیں - مرجئہ ضالہ اس فرقہ کو کہتے ہیں جو صرف اقرار لسانی اور معرفت کا نام ایمان رکھتا ہےاور ساتھ اس کے اس فرقہ کا یہ بھی اعتقاد ہے کہ معصیت اور گناہ ایمان کوکچھ ضرر نہیں پہنچا سکتے اور گنہگار کو گناہ پر سزا نہیں دی جائے گی ،بلکہ معاصی پر سزا ہو ہی نہیں سکتی اور عذاب و ثواب گناہوں اور نیکیوں پرمترتب ہی نہیں ہوتا اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ فرقہ گمراہ ہے - ان کے عقائد اس کے خلاف ہیں ، چناچہ امام ابو حنیفہ رحمہ الله خود "ففہ اکبر" میں تصریح فرماتے ہیں اور فرقہ مرجئہ کا رد کررہے ہیں "لا نقول حسناتنا مقبولة و سیئاتنا مغفورۃ کقول المرجئة ولکن نقول من عمل عملا حسنا بجمیع شرائطها خالیة عن العیوب المفسدة ولم یبطهلا حتی یخرج من الدنیا مومنا فان الله تعالی لا یضیعها بل یقبلاه منه ویثیبه علیها اھ" [فقہ اکبر] ہمارا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ ہماری نیکیاں مقبول اور گناہ بخشے ہوئے ہیں جیسا کہ مرجئہ کا اعتقاد ہے کہ ایمان کے ساتھ کسی قسم کی برائی نقصان دہ نہیں اور نافرمان کی نافرمانی پر سزا نہیں ، اس کی خطائیں سب معاف ہیں ، بلکہ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ جو شخص کوئی نیک کام اس کی شرطوں کے ساتھ کرے اور وہ کاتمام مفاسد سے خالی ہو اور اس کو باطل نہ کیا ہو اور دنیا سے ایمان کی حالت میں رخصت ہوا ہوا تو الله تعالی اس عمل کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اسکو قبول کرکے اس پر ثواب عطا فرمائے گا
ناظرین ! اس عبارت نے تمام بہتانوں کو دفع کردیا - امام ابو حنیفہ رحمه الله کا رد فرماتے ہیں اگر خود مرجئی ہوتے تو ان کے عقیدہ کا رد کیسا اور اپنے عقیدہ کا اظہار کیوں کرتے جو مرجئہ کے خلاف اور اہل سنت کے موافق ہے- افسوس ہے ان حضرات پر جو عداوت اور عناد کو اپنا پیشوا اور امام بناکراس کی اقتداء کرتے اور حق کو پس پشت ڈالتے ہیں "ومن العجب ان غسان کان یحکی عن ابی حنیفة مثل مذهبه ويعده من المرجئة اھ" [ملل نحل عبد الکریم شہرستانی] تعجب خیز یہ بات ہے کہ "غسان ابن ابان مرجئی" ہے - اس نے اپنےمذہب کو رواج دینے کے لئے امام صاحب رحمہ الله کی طرف ارجاء کی نسبت کی اور مرجئہ کے مسائل امام صاحب رحمه الله کی طرف منسوب کردیا کرتا تھا ،حالانکہ امام صاحب رحمه الله کا دامن اس سے بری تھا - اسی بناء پر "علامہ ابن اثیر جزری" نے اس کی تردید کی وہ فرماتے ہیں "وقد نسب الیه و قیل عنه من الاقاویل المختلفة التی یجل قدرہ عنها ویتنزہ منها القول بخلق القران و القول بلقدر و القول بالاجاء وغیر ذلك مما نسب الیه ولا حاجة الی ذکرھاولا الی ذکر قائلها و الظاھر انه کا منزھا عنها اھ" [جامع الاصول] بہت سےاقوال مختلفہ ان کی طرف منسوب کئے گئے ہیں جن سے ان کا مرتبہ بالاتر ہےاور وہ ان سے بالکل منزہ اور پاک ہیں ، چناچہ خلق قرآن ، تقدیر ، ارجاءوغیرہ کا قول جو ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اس کی ضرورت نہیں کہ ان اقوال کا اور ان کے قائلین کا ذکر کیا جائے ، کیونکہ بدیہی بات یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمه الله ان تمام امور سے بری اور پاک تھے - جب علماء اور ائمہ نے اس کی تردید کردی کہ یہ جملہ امور امام ابو حنیفہ رحمہ الله پر بہتان و جھوٹ اور افتراء پردازی ہے اور امام صاحب رحمہ الله کا دامن اس سے بالکل پاک و صاف تھا تو ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے کہ جو اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے اور حق کا متبع سمجھتے ہیں ، پھر ایسے غلط اور باطل امور کو کتابوں ؟ رسالوں میں لکھ کر شائع کرتے اور عوام کو بہکاتے ہیں
اے ہنر نہادہ برکف دست
عیب ہارا گرفتہ زیر بغل
محترم قارئین : ان عبارتوں پر غور فرمائیں اور مؤلف رسالہ [الجرح علی ابی حنہام] کو داد دین ، ایمان کے متعلق امام صاحب رحمہ الله کا عقیدہ ان کے اقوال سے معلوم کریئے "اخبرنی الامام الحفاظ ابو حفص عمر بن محمد البارع النسفی فی کتابه الی من سمرقند - اخبرنا الحافظ ابو علی الحسن بن عبدالملک النسفی انا الحافظ جعفر بن محمد المستغفری النسفی انا ابو عمر و محمد بن احمد النسفی انا لامام الاستاذ ابو محمد الحارثی ابناء محمد بن یزید ابناء الحسن بن صالح عن ابی مقاتل عن ابی حنیفة رحمه الله انه قال الایمان ھو المعرفة و التصدیق و الاقرار والاسلام قال والناس فی التصدیق علی ثلاثة منازل فمنهم من صدق الله تعالی وبما جاء منه بقلبه و لسانه و منهم من یقر بلسانه فاما من صدق الله وبما جاء من عندہ بقلبه و لسانه فهو عند الله کافرا و عند الناس مومنا لان الناس لایعلمون مافی قلبه و علیهم ان یسموہ مومنا بما ظهر لهم من الاقرار بهذہ الشهادۃ و لیس لهم ان یتکلفوا علم القلوب و منهم من یکون عند الله مومنا و عند الناس کافرا و ذلك بان یکون الرجل مومنا عند الله یظهر الکفر بلسانه فی حال التقیة فیسمیه من لایعرفه متقیا کافرآ وھو عند الله مومنا اھ" [کتاب المناقب للموقق بن احمد المکی جلد اول ص 84 و ص 85] امام صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں کہ معرفت اور تصدیق قلبی اور اقرار لسانی اور اسلام کے مجموعہ کا نام ایمان ہے . لیکن تصدیق قلبی میں لوگ تین [3] قسم کے ہیں
ایک تو وہ جنہوں نے الله تعالی کی اور جو امور اس کی طرف سے آئے ہیں دونوں کی تصدیق قلب و زبان سے کی ہے ، دوسرے وہ لوگ ہیں جو زبان سے اقرار کرتے ہیں لیکن قلب سے تکذیب کرتے ہیں ، تیسرے وہ ہیں جو قلب سے تصدیق کرتے اور تکذیب لسانی کا ارتکاب کرتے ہیں
پہلی قسم کے حضرات عند الله اور عند الناس مومن ہیں اور دوسری قسم کے لوگ عند الله کافر اور عند الناس مومن شمار ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں کو باطن کاحال معلوم نہیں وہ تو صرف ظاہری حال دیکھ کر حکم لگاتے ہیں اور وہ ظاہر میں تصدیق کرتا ہے ، لہذا ان کے نزدیک مومن ہے اور چونکہ تکذیب قلبی ہے اس لئے خدا کے نزدیک کافر ہے ، تیسری قسم کے لوگ خدا کے نزدیک مومن اور دنیا والوں کے نزدیک کافر شمار ہوتے ہیں ، چونکہ کسی خوف و مصیبت کی وجہ سے انہوں نے کلمہ کفر نکالا ہے لیکن دل میں تصدیق و ایمان باقی ہے اس لئے خدا کے نزدیک مومن ہے اور ظاہری حالت تکذیب کی ہے ، اس لئے دنیا والوں کے نزدیک کافر ہے کیونکہ ان کو ان کی باطنی حالت کا علم نہیں - اس لئے ان پر حکم کفر عائد کرتے ہیں
محترم قارئین : اب تو آپ کو معلوم ہوگیا کہ ایمان میں امام صاحب رحہل الله کا قول فرقہ مرجئہ کے بالکل خلاف ہے - امام صاحب رحمہ الله کو مرجئہ میں شمار کرنا جاہلوں اور مفسدوں کا کام ہے - اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ اعمال ظاہریہ تصدیق قلبی کے اجزاء نہیں ہیں ، ہاں ایمان کامل کے اجزاء ہیں مطلق ایمان کے متمم اور مکمل ہیں - اعمال ظاہریہ حسنہ سے ایمان میں کمال ، نور ، روشنی پیدا ہوتی ہے - یہی امام ابو حنیفہ رحمہ الله کا عقیدہ اور جملہ حنفیہ کا اعتقاد ہے ، خارجیوں اور رافضیوں کا عقیدہ ہے کہ اعمال ایمان کے اجزاء ہیں ، اگر کوئی عمل فرض مثلا ایک وقت کی نماز کسی نے ترک کردی تو ان کے نزدیک وہ کافر ہوجاتا ہے - اہل سنت والجماعت کے نزدیک وہ فاسق ہے کافر نہیں ، یہی حنفیوں کا عقیدہ ہے - یہ ارجاء کے معنی ہیں کہ اعمال ایمان سے جس کو تصدیق قلبی کہا جاتا ہے ، علیحدہ ہیں اس کی حقیقت اور ماہیت میں داخل نہیں - ہاں اس کے متممات ہیں ، اسی بناء پر عقائد میں مرجئہ کی دو [2] قسمیں ہیں "ثم المرجئة علی نو عین مرجئة مرحوم و ھم اصحاب النبی صلی الله علیه وسلم و مرجئة ملعون و ھم الذین یقولون بان المعصیة لاتضرو العاصی لایعاقب اھ" [تمہید ابو الشکور] پھر مرجئہ کی دونوں عین ایک مرجئہ مرحومہ جو صحابہ کرام رضی الله عنهم اجمعین کی جماعت ہے اور دوسری نوع مرجئہ ملعونہ کی ہے جو اس کے قائل ہیں کہ معصیت ایمان کو کسی قسم کا ضرر نہیں پہنچاتی اور عاصی کو عتاب و عذاب نہیں ہوگا
محترم قارئین : صحابہ کرام رضی الله عنهم اجمعین بھی مرجئہ کہلاتے ہیں لیکن وہ اس گمراہ فرقہ سے علیحدہ ہیں ، اگر بالفرض کسی نے امام ابو حنیفہ رحمہ الله کو مرجئہ لکھا ہے تو اس کا مطلب وہی ہے جو صحابہ کرام رضی الله عنهم اجمعین پر اس لفظ کو اطلاق کرنے میں لیا جاتا اور سمجھا جاتا ہے ، ورنہ وجہ فرق کے واسطے ثبوت کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے کہ امام صاحب رحمہ الله کے اقوال و اعمال اور ان کا عقیدہ مذہب مرجئہ ضالہ کے خلاف ہے تو پھر کس طرح ان پر اسکو منطبق کیا جاتا ہے - حافظ ذہبی مسعر بن کدام کے ترجمہ میں لکھتے ہیں " اما مسعر بن کذام فحجة امام ولا عبرۃ بقول السليمانی كان من المرجئة مسعر و حماد بن ابی سليمان والنعمان و عمرو مرۃ بن و عبد العزیزبن ابی رواد و ابو معاویة و عمرو بن ذر و سرد جماعة قلت الارجاء مذھب لعدۃ من جملة العلماء لاینبغی التحامل علی قائله اھ" [میزان الاعتدال جلد ثالث صفحہ 163] قول سلیمان کا اعتبار نہیں کہ مسعر اور حماد اور نعمان اور عمرو بن مرہ اور عبد العزیز اور ابو معاویہ اور عمرو بن ذر وغیرہ مرجئی تھے ، ان کی طرف اس کی نسبت کرنا غلط ہے ، اس سے وہی ارجاء مراد ہےجو ملعون فرقہ کا اعتقاد ہے - امام ذہبی فرماتے ہیں ارجاء بڑے بڑے علماءکی ایک جماعت کا مذہب ہے ، لہذا اس کے قائل پر تحامل مناسب نہیں اس سےوہی ارجاء مراد ہے جو صحابہ کرام رضی الله عنهم اجمعین کا طریق تھا - صدراول میں فرقہ معتزلہ اہل سنت والجماعت کو مرجئہ کہتا تھا ، پس اگر کسی نےامام صاحب رحمہ الله کو مرجئہ کہا تو اس سے کوئی نقصان نہیں کیونکہ یہ اقوال معتزلہ کے ہیں جو اہل سنت والجماعت کے بارے میں استعمال کرتے تھے نواب صدیق حسن خان نے "کشف الالتباس" میں تصریح کی ہے کہ ائمہ اربعہ کےمقلدین ہی اہل سنت والجماعت میں منحصر ہیں اور اہل سنت کا انحصار مقلدین ائمہ اربعہ میں ہے - پس وہ حدیث جو مؤلف رسالہ [الجرح علی ابی حنیفہ] نےترمذی سے نقل کی ہے جو ابن عباس سے مرفوعآ مروی ہے وہ امام صاحب اورحنفیہ پر کسی طرح منطبق نہیں ہوسکتی ورنہ صحابہ کرام رضی الله عنهم اجمعین اور اجلہ علماء بھی اس سے بعبارات بالا بچ نہیں سکتے اور پھر اس کا جو کچھ نتیجہ ہے ظاہر ہے
قولہ : اب سنیئے ثبوت
اقول : اب ثبوت کی ضرورت نہیں کیونکہ ان اقوال کا اعتبار نہیں
قولہ : ابن قیتبہ دینوری نے کتاب "المعارف" میں فہرست اسمائے مرجئہ یوں گنائی ہے
اقول : جس کا جواب امام ذہبی "میزان الاعتدال" میں دے چکے ہیں ، اس کو ملاحظہ فرمائیں جو ابھی میں نقل کرچکا ہوں - اس کے بعد "جامع الاصول" کی عبارت کوملاحظہ فرمائیں جو منقول ہوچکی ، اس کے بعد "تمہید" کی عبارت غور سےدیکھیں - پھر "فقہ اکبر" کی عبارت کو آنکھیں کھول کر دیکھیں اور کتاب "المناقب" پر سرسری ہی نظر ڈالیں تو تمام مرحلے طے ہوجائیں گے – ابن قتیبہ دینوری کی اگر فہرست گنانے سے یہ منشا ہے کہ یہ حضرات فرقہ ضالہ گمراہ میں داخل ہیں تو عقل و نقل دونوں کے اعتبار سے غلط ہے اور اگر مراد یہ ہے کہ مرجئہ مرحومہ میں داخل ہیں جو اصحاب رسول کریم ﷺ اور اہل سنت والجماعت کا فرقہ ہےتو کوئی عیب نہیں ورنہ اس کی دلیل ہونی چاہیئے - علاوہ ازیں ایک اور مصیبت یہ ہے کہ اگر ابراہیم تیمی ، عمرو بن مرہ ، مسعر بن کدام ، خارجۃ بن معصب ابو ہوسف وغیرہ بقول مؤلف رسالہ [الجرح علی ابی حنیفہ] مرجئی ہیں اور مرجئی بزعم مؤلف [الجرح علی ابی حنیفہ] مسلمان نہیں ، چناچہ تصریح کی ہے کہ [مطلب یہ کہ مسلمان نہیں] تو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ان حضرات کی جرح جو بزعم مؤلف [الجرح علی ابی حنیفہ] کافر ہیں کیونکر قابل قبول ہوگی کیونکہ ان ہی حضرات کو جارحین امام میں بھی مؤلف [الجرح علی ابی حنیفہ] نے شمار کیا ہے اس کا جواب مؤلف صاحب [الجرح علی ابی حنیفہ] ذرا سوچ سمجھ کر دیں
اے چشم اشکبار ذرا دیکھنے تو دے
ہوتا ہے جو خراب وہ میرا ہی گھر نہ ہو
قولہ : یہ چاروں کے چاروں مرجئہ ہیں اور مرجئہ کی بابت حدیث اوپر سنائی گئی یہ لطف پر لطف ہے
اقول : پہلے ارجاء کے معنی کی لغوی و اصطلاحی تحقیق کیجئے اس کے بعد مرجئہ کی تقسیم دیکھئے اس کے بعد ائمہ رجال اور محقیقین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں اور اپنے فہم شعور اور افتراء و بہتان سے توبہ کریئے تاکہ قیامت میں نجات کی صورت ہو ورنہ مشکل پر مشکل ہے
قولہ : اور یہی وجہ ہے کہ حضرت پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی نے تمام حنفیوں کو مرجئہ لکھا ہے دیکھو "عنیۃ الطالبین" ص227
اقول : اس کے متعلق میں ابتدا میں لکھ چکا ہوں ، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ الله نے کہیں نہیں لکھا کہ تمام حنفیہ مرجئہ ہیں جو اس کا دعوی کرتا ہے اس کی دلیل بیان کرنی ضروری ہے
لیکن |ع| دونوں رستے ہیں کٹھن ایک اس طرف ایک اس طرف
حضرت پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ الله خود تصریح فرماتے ہیں "اما الحنیفة فهم اصحاب ابی حنیفة النعمان بن ثابت زعموا ان الایمان ھو المعرفة ، الخ" لیکن حنفیہ پس اس سے بعض اصحاب ابی حنیفہ مراد ہیں کہ انہوں نے یہ خیال کیا کہ ایمان صرف معرفت الہی کا نام ہے - یہ عبارت صریح اس بارے میں ہے کہ کل حنفیہ مرجئہ نہیں ظاہر میں امام ابو حنیفہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں جب حضرت پیران حضرت غوث الاعظم  شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ الله کی تصریح موجود ہے تو ان کے مجمل قول کو ان کے خلاف منشا پر حمل کرنا جاہلوں اور مؤلف [الجرح علی ابی حنیفہ] جیسے عقلمندوں کا کام ہے
قولہ : اب تمام حنفیوں کی بابت یہ کہنا بے جا نہ ہوگا "لیس لهم فی الاسلام نصیب کما و رد فی الحدیث فافهمو الاتعجلوا"
اقول : جب ناظرین کو پوری کیفیت معلوم ہوچکی کہ حنفی اس سے بری ہیں یہ ان
پر تہمت ہے تو مؤلف رسالہ [الجرح علی ابی حنیفہ] کا قول کیونکر صحیح ہوسکتا ہے کہ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مؤلف رسالہ [الجرح علی ابی حنیفہ] جیسے حضرات کو اسلام میں کچھ حصہ نہیں ہے کیونکہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں "لایتجاز القرآن عن حناجر ھم یمرقون من الدین کما یمرق السهم من الرمیة" صحیح حدیث ہے ، صحاح ستہ میں موجود ہے ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔