Pages

Wednesday 21 September 2016

نورِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیشانی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ میں ظہور

نورِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیشانی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ میں ظہور
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آقا علیہ السلام کی شان، مقام، ولادت اور نسب ہر ایک کو شان فردیت حاصل ہے۔ یعنی کسی بھی حوالے سے کوئی حضور علیہ السلام کا مثل نہیں۔ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل عظام کو نبوت و رسالت ملی مگر ان تمام میں بھی آقا علیہ السلام کو ہر حوالے سے فردیت عطا فرمائی۔

آقا علیہ السلام کے پورے نسب پاک میں، آپ کے آباؤ امہات میں کبھی بھی کسی کو دور جاہلیت کی آلودگی نے مس نہیں کیا۔ اس باب میں ایک ایمان افروز واقعہ جسے امام ابو نعیم، امام ابن عساکر، امام حلبی اور کثیر آئمہ حدیث نے بیان کیا کہ:

حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ کی شادی کی غرض سے کسی ایسی خاتون کی تلاش میں نکلے جو مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ بننے کی اہل ہوں اور جن کی گود میں نورِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم آ سکے۔ حضرت عبدالمطلب وہ بشارتیں سنتے رہتے تھے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا وقت بہت قریب آگیا ہے اور علامات ظاہر ہو رہی تھیں لہٰذا آپ اس خوش نصیبی سے اپنا دامن معمور کرنے کے لئے ایسے خاندان کی تلاش میں نکلے جہاں تقویٰ و طہارت موجود ہو۔ اس تلاش کے دوران آپ اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کے ساتھ ایک دفعہ ایک بہت بڑی نامور کاہنہ کے قریب سے گزرے جو تورات اور سابقہ کتب انبیاء کی عالمہ تھی اور بہت خوبصورت تھی۔ اُسے اپنی خوبصورتی، اپنے علم اور اپنی شہرت پر بھی ناز تھا۔ اُس کاہنہ نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے چمکتے ہوئے چہرے میں نورِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کی شکل دیکھی تو درخواست کی کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کچھ وقت میرے پاس قیام کر لیں۔

حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اُس خاتون نے کہا: اگر آپ میرے پاس ایک دن رات قیام کر لیں تو میں آپ کو ایک سو قیمتی اونٹ تحفے میں دوں گی۔ اُس کی خواہش تھی کہ میں ان سے تعلقات قائم کروں تا کہ اُس نور کی تجلی کو وہ مجھ سے حاصل کرلے۔ حضرت عبد اللہg نے انکار کر دیا اور فرمایا: یہ رشتہ حرام ہے، میں اس سے مر جانے کو ترجیح دوں گا مگر میں یہاں قیام نہیں کروں گا۔

یہ نور مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدہ آمنہ j کا مقدر تھا، لہذا اُن کا انتخاب ہو گیا۔ حج کے ایام کے دوران منیٰ کے مقام پر حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کا نکاح ہوا۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت آمنہ j نے منیٰ میں قیام فرمایا اور آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور اقدس حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے حج کے دوران قربانی کے ایام میں منیٰ کے مقام پر حضرت آمنہ کے بطن میں منتقل ہوا۔

سوال یہ ہے کہ حضرت عبداللہ کا گھر تو مکہ میں تھا، سیدھا لے کر مکہ میں آ جاتے اور اپنے گھر میں قیام ہوتا۔ قربانی کے دنوں میں منیٰ میں قیام فرمانے کی وجہ کیا تھی؟

اس کی جو وجہ میرے ذہن میں اللہ رب العزت نے ڈال دی وہ یہ ہے کہ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر کعبہ کے وقت حضور علیہ السلام کے میلاد کے لئے کی گئی دعا کی قبولیت کی طرف اشارہ تھا۔ نیز یہی وہ مقام تھا جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کے لئے لائے تھے۔ مگر رب کائنات نے جنت کا دنبہ بھیج کر اسماعیل علیہ السلام کو سلامت رکھا، کیونکہ انکی نسل سے تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنا تھا۔ حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ دونوں کو منیٰ میں ٹھہرانے کی اللہ رب العزت کی حکمت اور مشیت یہ تھی کہ وہ جگہ جہاں حضرت اسماعیل کو بقاء ملی وہی جگہ نور مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال (منتقل) کے لئے منتخب فرمائی۔

جب نور مبارک حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی پشت سے بطن آمنہ j کی طرف منتقل ہوا اور یہ امانت حضرت آمنہ j نے سنبھال لی تو اس کے بعد ایک دفعہ آپ اُسی کاہنہ خاتون کے پاس سے گزرے جس سے قریش کے لوگ علامات اور پرانی خبروں کے بارے پوچھتے تھے، حضور علیہ السلام کے تذکرے اس نے پرانی کتابوں میں پڑھ رکھے تھے۔ حضرت آمنہ سے حضرت عبداللہ کے نکاح کے بعد اب اس کاہنہ نے حضرت عبداللہ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ امام ابن عساکر روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اس کاہنہ سے پوچھا: پہلے تو مجھے تو سو اونٹ دینا چاہتی تھی مگر آج میری طرف تکتی بھی نہیں ہو۔ وجہ کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا: آج اس لیے نہیں تکتی کہ

فارق النور وجه عبداﷲ انتقل إلی وجه آمنة.

وہ نور جو آپ کی پیشانی میں چمک رہا تھا، جس کی خاطر میں نے دعوت دی تھی کہ میرے زوج/ شوہر بن جاؤ اور آپ نے قبول نہیں کیا تھا، اب وہ نور آپ سے جدا ہو گیا اور قسمت و بخت والی آمنہ j اس نور کو لے گئی۔ اب مجھے آپ کی حاجت نہیں۔

(حلبي، السيرة الحلبية، 1: 76)

یہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کا پاکیزہ پشتوں سے پاکیزہ بطون کی طرف منتقل ہونے کے الوہی التزام کی ایک جھلک ہے جس سے آپ کے نسب کی فردیت و شان کا اظہار ہوتا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔