Pages

Monday 19 September 2016

شرک کی کیا تعریف ہے ؟؟؟

شرک کی کیا تعریف ہے ؟...
کسی کو شریک ٹھہرانے سے مراد یہ ہے کہ مجوسیوں کی طرح کسی کو الہٰ(خُدا) اورواجب الوجود سمجھا جائے یا بُت پرستوں کی طرح کسی کو عبادت کے لائق سمجھا جائے ۔‘‘ شرک کی تعریف سے معلوم ہوا کہ دوخداؤں کے ماننے والے جیسے مجوسی (آگ پرست) مشرک ہیں اسی طرح کسی کو خدا کے سوا عبادت کے لائق سمجھنے والا مشرک ہوگا جیسے بُت پرست جو بتوں کو مستحقِ عبادت سمجھتے ہیں ۔ شرک کی تین اقسام ہیں: (1)۔۔۔شرک فی العباده (2)۔۔۔شرک فی الذات (3)۔۔۔شرک فی الصفّات (1) شرک فی العبادة سے مُراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو مستحقِ عبادت سمجھا جائے ۔ (2) شرک فی الذات سے مُراد ہے کہ کسی ذات کو اللہ تعالیٰ جیسا ماننا، جیسا کہ مجوسی دوخداؤں کو مانتے تھے۔ (3) شرک فی الصفّات سے مراد کسی ذات وشخصیت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ جیسی صفات ماننا شرک فی الصفّات کہلاتاہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ جیسی صفات کسی نبی علیہ السلام میں مانی جائیں ...یا ...کسی ولی علیہ الرحمہ میں تسلیم کی جائیں ، کسی زندہ میں مانی جائیں ...یا... فوت شدہ میں ، کسی قریب والے میں تسلیم کی جائیں ...یا... دور والے میں ، شرک ہر صورت میں شرک ہی رہے گاجو ناقابلِ معافی جرم اورظلمِ عظیم ہے ۔ شیطان شرک فی الصفّات کی حقیقت کو سمجھنے سے روکتاہے اور یہاں اُمّت میں وسوسے پیدا کرتاہے لہٰذا قرآن مجید کی آیات سے اس کو سمجھتے ہیں۔ 1)۔۔۔اللہ تعالیٰ رؤف اور رحیم ہے : القرآن: اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ۔ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر رؤ ف اور رحیم ہے ۔ (سورۂ بقرہ ،آیت143پارہ 2 ) سرکار صلی اللہ علیہ وسلم بھی رؤف اور رحیم ہیں جیساکہ قرآن کریم میں ذکرہے،کہ ۔ لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ م بِالْمُؤْ مِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّ حِیْمٌ o ترجمہ: بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں (بھاری) ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مومنوں پر ’’رؤف اور رحیم‘‘ ہیں۔(سورۂ توبہ، آیت128پارہ 11) پہلی آیت پر غور کریں تو سوال پیدا ہوتاہے کہ رؤف اور رحیم اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں پھر دوسری آیت میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤف اوررحیم فرمایا گیا، تو کیا یہ شرک ہوگیا؟..... اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر رؤف اوررحیم ہے جب کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے رؤف اوررحیم ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اورعطائی کا فرق واضح ہوجائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا۔ (2)۔۔۔ علمِ غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں : اللہ تعالیٰ فرماتاہے،کہ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ۔ تم فرماؤ اللہ کے سوا غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ (سورۂ نمل ،آیت 65پارہ 20) جبکہ قرآن کریم ہی میں ذکر ہے کہ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ : غیب کاجاننے والا اپنے غیب پر صرف اپنے پسندیدہ رسولوں ہی کو آگاہ فرماتاہے ہر کسی کو (یہ علم) نہیں دیتا۔(سورۂ جن ،آیت 26/27پارہ 29) علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پہلی آیت سے یہ ثابت ہوا مگر دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ رسولوں کو بھی عطا کیا ہے تو کیا یہ شرک ہوگیا؟..... اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر عالم الغیب ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اللہ تعالیٰ کی عطا سے علم غیب جانتے ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اورعطائی کا فرق واضح ہوجائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا۔ 3)۔۔۔ مدد گار صرف اللہ تعالیٰ ہے : جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن عظیم میں فرماتاہے،کہ القرآن : ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔: یہ اس لئے کہ مسلمانوں کا مددگار اللہ ہے ۔(سورۂ محمد ،آیت 11پارہ 26) جبکہ قرآن کریم ہی میں ذکرہے،کہ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْ مِنِیْنَ : بے شک اللہ ان کا مددگار ہے اورجبریل اورنیک مومنین مددگارہیں۔ (سورۂ تحریم ،آیت4پارہ28) پہلی آیت پر غور کریں تویہ سوال پیدا ہوتاہے کہ مدد کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پھر دوسری آیت میں جبریل اوراولیاء اللہ کو مددگار فرمایا گیا،تو کیا یہ شرک ہوگیا؟.... اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طو ر پر مددگار ہے اورحضرت جبریل علیہ السلام وراولیاء کرام ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے مددگار ہیں۔ جو ذات باری تعالیٰ عطا فرمارہی ہے اس میں اور جس کو عطا کیا جارہاہے ان حضراتِ قدسیہ میں برابری کا تصور محال ہے اورجب برابری ہی نہیں تو شرک کہاں رہا؟..... خوب یاد رکھیں !کہ جہاں باذنِ اللہ اورعطائی کا فرق آجائے وہاں شرک کا تصوّر محال اورناممکن ہوجاتاہے ۔ سنی وہابی دیوبندی جھگڑا سے پہلے تینوں مکاتب فکر کے علماء شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں. شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ اپنی تفسیر عزیزی میں " ایاک نستعین " کی تفسیر میں فرماتے ہیں. " سمجھنا چاہیے کہ کسی غیر سے مدد مانگنا بھروسہ کے طریقہ پر کہ اس کی مدد کو, مدد الہی نہ سمجھے حرام ہے. اور اگر توجہ حق تعالی کی طرف ہے اس کو اللہ کی مدد کا ایک مظہر جان کر اور اللہ کی حکمت اور کارخانہ اسباب جان کر اس سے ظاہری مدد مانگی تو عرفان سے دور نہیں ہے اور شریعت میں جائز ہے. اس کو انبیاء و اولیاء کی مدد کہتے ہیں. لیکن حقیقت میں حق تعالی کے غیر کی مدد مانگنا نہیں ہے اسی کی مدد سے ہے." اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم شرک پر متفق نہیں ہوگی۔جیسا کہ. حضرت عقبہ بن عامر رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ایک دن مدینہ سے باہرتشریف لے گئے. آپ نے شہداء احد کی قبور پر صلوۃ پڑھی جیسے میت کی صلوۃ پڑھی جاتی ہے. پھر منبر کی طرف تشریف لے آئے. پھر آپ نے فرمایا " میں تمھارا پیشرو ہوں میں تم پر گواہ ہوں خدا کی قسم میں اپنے خوض کی طرف مسلسل دیکھ رہا ہوں. مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور مجھے خدا کی قسم بعد میں تمھارے مشرک ہونے کا کوئ خوف نہیں, لیکن مجھے تمھاری خزائن ارض میں رغبت کا خطرہ ہے. ". بخاری شریف حدیث نمبر 1344، مسلم شریف حدیث نمبر 2296). حضرت عبادہ بن نسی رضی اللّٰہ عنہ حضرت شداد رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا آپ کی امت شرک کرے گی؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا خبردار میری امت کے لوگ نہ سورج کی عبادت کریں گے, نہ چاند کی نہ کسی بت کی عبادت کریں گے نہ ہی کسی پتھر کی لیکن اپنے اعمال میں لوگوں کی وجہ سے دکھاوا کریں گے. میں نے عرض کی کیا دکھاوا شرک ہے ؟ رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا ہاں ریا کاری (دکھاوا) شرک ہے.". (ابن ماجہ کتاب الزہد باب الریا والسمعہ, مسند احمد حدیث نمبر 4205). حضرت جابر رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے. رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا " شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی اس کی بندگی کریں. ". (البدایہ , ابن کثیر جلد 1 صفحہ 66.) ان ساری وضاحتوں کے باوجود کچھ بدنصیب امت کی اکثریت کو مشرک قرار دینے کہ لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اور قرآن کریم سے بتوں اور مشرکین والی آیات اٹھا کر مسلمانوں پر چسپاں کر دیتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ اپنی اس توحید کو قرآن و حدیث سے ثابت کیجیے کہ شرک کے لیے مافوق الاسباب یا ماتحت الاسباب, زندہ, مردہ, یا دور نزدیک کا فرق کسی جگہ بیان ہوا ہو تو سوائے ہٹ دھرمی کے ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا اور جن لوگوں نے مسلمانوں کو مشرک بنانے کہ لیے اپنے مولویوں کی من گھڑت باتوں کو عقیدہ بنا لیا وہ ہر بات پہ مسلمانوں کو بدعتی کہتے پھرتے ہیں حتی کہ ان کا بنیادی عقیدہ بدعت خالص اور قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہے. اللہ کے علاوہ کسی کو پکارنا اگر معبود سمجھ کر ہو تو ہی وہ شرک ہو گا ورنہ ہر گز نہیں, قرآن پاک نے عقیدہ توحید کو واضح بیان کیا ہے کیونکہ یہی اسلام کی بنیاد ہے چنانچہ قرآن کریم ارشاد باری تعالیٰ ہے. وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ . (سورہ مؤمنون آیت 117 ترجمہ: اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے, جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں, تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے, ایسے کافر کبھی فلاح نہیں پائیں گے. پکارنا بمعنی عبادت: تمام آیاتِ مبارکہ کے ایسے مقامات میں جہاں دُعا (پکارنا)کا معنی عبادت ہے وہاں اس سے مراد بتوں کی عبادت لی گئی ہے۔ عبادت کے معنی میں دعا (پکارنا)سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کے لئے جائز نہیں جیسا کہ کفار و مشرکین بتوں کی عبادت کرتے تھے لیکن اس مفہوم کو انبیاء اور اولیاء عظام کو توسلاً پکارنے پر منطبق کرنا صریحاً منشاء قرآن کی خلاف ورزی ہے۔ ایسے مقامات پر جمہور مفسرینِ کرام نے پکارنا یدعو سے عبادت مراد لیا ہے محض پکارنا نہیں، رئیس المفسرین سیدنا عبد اﷲ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی تفسیر ’’تنوير المقباس من تفسير ابن عباس‘‘ میں آیاتِ قرآنی میں دعا یدعو سے مشتق الفاظ جب مِنْ دُوْنِ اﷲِ کے ساتھ ہوں تو ان کے معانی ’’عبادت و پرستش‘‘ اور مِنْ دُوْنِ اﷲِ سے مراد ’’کفار و مشرکین کے بت اور طواغیت ہیں."........یہی معنی بدعتی فرقہ وہابیہ کے ظہور سے پہلے تک کے سب مفسرین مراد لیتے تھے, جسے بدبختوں نے اپنے جاہل مولویوں کے فاسدانہ خیالات سے بدل دیا اور مسلمانوں کو شرک کا الزام دینے لگ گئے. اللہ پاک ہمیں سواد اعظم کے راستہ سے ہٹ جانے والے ہر گمراہ کے شر اور وسوسوں سے بچائے اور ہمارا حشر انبیاء علیہم السلام صدیقین, شہداء اور صالحین رحمہم اللہ کے ساتھ فرمائے. آمین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔