Pages

Sunday, 25 September 2016

علم غیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تصرف و اختیار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار بلکہ کفر و شرک کے فتوے اور اپنے مولویوں کےلیئے سب جائز پڑھیئے دیوبند مکتبہ فکر کا دھرا معیار انہیں کی کتابوں کے حوالے سے اور فیصلہ کیجیئے

علم غیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تصرف و اختیار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار بلکہ کفر و شرک کے فتوے اور اپنے مولویوں کےلیئے سب جائز پڑھیئے دیوبند مکتبہ فکر کا دھرا معیار انہیں کی کتابوں کے حوالے سے اور فیصلہ کیجیئے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مولوی مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب سوانح قاسمی میں ارواح ثلاثہ کے حوالے سے ایک نہایت حیرت انگیز واقعہ نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ چھتہ کی مسجد واقع دیوبند میں کچھ لوگ جمع تھے اس مجمع میں ایک دن مولوی یعقوب صاحب نانوتوی مہتمم مدرسہ دیوبند فرمانے لگے بھائی آج صبح کی نماز میں ہم مرجاتے بس کچھ ہی کسر رہ گئی لوگ حیرت سے پوچھنے لگے آخر کیا حادثہ پیش آیا ، سننے کی بات یہی ہے جواب میں فرما رہے تھے آج صبح میں سورۃ مزمل پڑھ رہا تھا کہ اچانک علوم کا اتنا عظیم الشان دریا میرے قلب کے اوپر گذرا کہ میں تحمل نہ کرسکا اور قریب تھا کہ میری روح پرواز کرجائے کہتے تھے کہ وہ تو خیر گزری کہ وہ دریا جیسا کہ ایک دم آیا ویسا ہی نکلتا چلا گیا اس لیے بچ گیا کہتے تھے کہ علوم کا یہ دریا جو اچانک چڑھتا ہوا ان کے قلب پر سے گذر گیا یہ کیا تھا ؟ خود ہی اس کی تشریح بھی انہی سے بایں الفاظ اسی کتاب میں پائی جاتی ہے کہ نماز کے بعد میں نے غور کیا کہ یہ کیا معاملہ تھا تو منکشف ہوا کہ حضرت نانوتوی ان ساعتوں میں میری طرف میرٹھ میں متوجہ ہوئے تھے یہ ان کی توجہ کا اثر ہے کہ علوم کے دریا دوسروں کے قلب میں موجیں مارنے لگے اور تحمل دشوار ہوجائے ۔ ( سوانح قاسمی ج 1 مطبوعہ 344 مکتبہ رحمانیہ لاہور )
خود ہی بتائیے فکر و دماغی علوم والے بھلا اس کا کیا مطلب سمجھ سکتے ہیں ؟ کہاں میرٹھ اور کہاں چھتہ کی مسجد : میرٹھ سے دیوبند کا مکانی فاصلہ درمیان میں حائل نہ ہوا ۔ ( سوانح قاسمی ج 1 ص 345 مکتبہ رحمانیہ لاہور )
لا الہ الا اللہ ::: بتائیے اب اس ان کہی کو کیا کہا جائے یہ معمہ تو گیلانی صاحب اور ان کی جماعت کے علماء حل کرسکتے ہیں جو فاصلہ مکانی ان حضرات کے تئیں انبیاء اور سید الانبیاء علیہم السلام تک پر حائل رہتا ہے وہ نانوتوی صاحب پر حائل کیوں نہ ہوا ؟ اور مولوی یعقوب صاحب کی قوت ادراک کا کیا کہنا کہ انہوں نے دیوبند میں بیٹھے بیٹھے مولوی قاسم صاحب نانوتوی کی وہ غیبی توجہ تک معلوم کرلی جو انہوں نے میرٹھ سے ان کی طرف مبذول کی تھی اور وہ بھی اتنا چھٹ پٹ کہ نماز کے بعد غور کیا اور سارا معاملہ اسی لمحے منکشف ہوگیا ، دنوں ، ہفتوں اور مہینوں کی بات تو الگ رہی گھنٹے آدھ کا بھی وقفہ نہیں گزرا لیکن شرم سے سر جھکا لیجیے کہ گھر کے بزرگوں کا تو یہ حال بیان کیا جاتا ہے اور رسول مجتبٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں پوری جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ ۔ جو کوئی یہ بات کہے کہ پیغمبر خدا یا کوئی امام بزرگ غیب کی بات جانتے تھے اور شریعت کے ادب کی وجہ سے منہ سے نہ کہتے تھے سو وہ بڑا جھوٹا ہے بلکہ غیب کی بات اللہ تعالٰی کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں ۔ ( تقویۃ الایمان ص 47 مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور )
یہ بات کسی عام مولوی نے نہیں بلکہ دیوبندی جماعت کے امام اول مولوی اسماعیل دہلوی نے لکھی ہے اس سے بھی جی نہیں بھرا مزید لکھا پڑھیے اور فیصلہ خود کیجیے ۔ انبیاء اولیا ء یا امام و شہیدوں کی جناب میں ہرگز یہ عقیدہ نہ رکھے کہ وہ غیب کی بات جانتے ہیں بلکہ حضرت پیغمبر کی جناب میں بھی یہ عقیدہ نہ رکھے نہ ان کی تعریف میں*ایسی بات کہے ۔ ( تقویۃ*الایمان ص 47 مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور )
جو کوئی یہ دعوٰی کرے کہ میرے پاس ایسا کچھ ہے کہ جب میں چاہوں اس غیب کی بات معلوم کرلوں*اور آئندہ باتوں کو معلوم کرلینا میرے قابو میں ہے سو وہ بڑا جھوٹا ہے کہ دعوٰی خدائی کرتا ہے اور جو کوئی کسی نبی ، ولی یا جن و فرشتہ کو امام یا امام زادے یا پیر و شہید نجومی و رمال یا جفار کو یا فال دیکھنے والے کو یا برہمن رشی کو یا بھوت و پری کو ایسا جانے اور اس کے حق میں یہ عقیدہ رکھے سو وہ مشرک ہو جاتا ہے ۔ ( تقویۃ الایمان ص 41 مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور )
اور اس بات میں ( یعنی عیب کی بات جانتے ہیں ) اولیاء انبیاء اور جن و شیطان اور بھوت و پری میں کچھ فرق نہیں ۔ (*تقویۃ الایمان ص 21 مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور )
جو کوئی کسی کا نام اٹھتے بیٹھتے لیا کرے اور دور و نزدیک سے پکارا کرے یا اس کی صورت کا خیال باندھے اور یوں سمجھے کہ جب میں*اس کا نام لیتا ہوں زبان سے یا دل سے یا اس کی صورت کا اس کی قبر کا خیال باندھتا ہوں تو وہیں*اس کو خبر ہوجاتی ہے اس سے میری بات چھپی نہیں رہ سکتی اور جو کچھ مجھ پر احوال گزرتے ہیں جیسے بیماری و تندرستی کشائش و تنگی مرنا جینا غم وخوشی سب کی ہر وقت اسے خبر رہتی ہے اور جو بات میرے منہ سے نکلتی ہے وہ سب سن لیتا ہے اور جو خیال و وہم میرے دل سے گزرتا ہے وہ سب سے واقف ہے سو ان باتوں سے مشرک ہوجاتا ہے اور اس قسم کی باتیں سب شرک ہیں*خواہ یہ عقیدہ انبیاء اولیاء سے رکھے خواہ پیر و شہید سے خواہ امام و امام زادے سے خواہ بھوت و پری سے پھر خواہ یوں سمجھے کہ یہ بات ان کو اپنی ذات سے خواہ اللہ کے دیے سے غرض اس عقیدے سے ہر طرح شرک ثابت ہوگا ۔ ( تقویۃ الایمان ص 22 مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور )
کچھ اس بات میں*بھی ان کی بڑائی نہیں ہے کہ اللہ صاحب نے غیب دانی اختیار میں دے دی ہو کہ جس کے دل کو احوال جب چاہیں معلوم کرلیں*یا جس غیب کو جب چاہیں معلوم کرلیں کہ وہ جیتا ہے یا مرگیا یا کس شہر میں ہے یا جس آئندہ بات کو جب ارادہ کرلیں دریافت کرلیں کہ فلاں کے یہاں اولاد ہوگی یا نہ ہوگی یا اس سوداگری میں اس کو فائدہ ہوگا یا نہ ہوگا۔یا اس لڑائی میں فتح پاوے گا یا شکست کہ ان سب باتوں میں*بھی سب بندے بڑے ہوں یا چھوٹے یکساں بے خبر اور ناداں ہیں ۔ ( تقویۃ الایمان ص 42 مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور )
اللہ صاحب نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ لوگوں*سے کہہ دیں*کہ غیب کی بات سوائے اللہ تعالٰی کے کوئی نہیں جانتا نہ فرشتہ نہ آدمی نہ جن نہ کوئی چیز یعنی غیب کی بات سوائے کو جان لینا کسی کے اختیار میں نہیں ۔ ( تقویۃ الایمان ص 41 مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور )
سو انہوں نے (*یعنی رسول خدا نے ) بیان کردیا کہ مجھ کو نہ کچھ قدرت ہے نہ کچھ غیب دانی میری قدرت کا حال تو یہ ہے کہ اپنی جان و مال کے بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں*تو دوسرے کا تو کیا کرسکوں ؟ اور غیب دانی اگر میرے قابو میں ہوتی تو پہلے ہر کام کا انجام معلوم کرلیتا اگر بھلا ہوتا تو اس میں ہاتھ ڈالتا اگر برا معلوم ہوتا تو کاہے اس میں قدم رکھتا غرض کہ قدرت اور غیب دانی مجھ میں*نہیں اور کچھ خدائی دعوٰی نہیں رکھتا فقط پیغمبر کا مجھ کو دعوٰی ہے ۔ ( تقویۃ الایمان ص 45 مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور )
جو اللہ تعالٰی کی شان ہے اس میں کسی مخلوق کو دخل نہیں سو اس میں*اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی مخلوق کو نہ ملاوے چاہے کتنا بڑا ہو اور کیسا ہی مقرب مثلا یوں نہ بولے کہ اللہ و رسول چاہے گا تو فلانا کام ہوجائے گا کہ سارا کاروبار جہاں کا اللہ ہی کے چاہنے سے ہوتا ہے رسول کے چاہنے سے کچھ نہیں*ہوتا یا کوئی شخص کسی سے کہے کہ فلاں*کے شادی کب ہوگی یا فلاں درخت میں کتنے پتے ہیں*یا آسمان میں کتنے ستارے ہیں تو اس کے جواب میں یہ نہ کہے کہ اللہ و رسول ہی جانے کیوں کہ غیب کی بات اللہ ہی جانتا ہے رسول کو کیا خبر؟
( تقویۃ الایمان ص 95،96 مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور )
اف رے منکر یہ جوش تعصب آخر :: بھیڑ میں ہاتھ سے کمبخت کے ایمان گیا

دیوبندی جماعت کے دینی پیشوا مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی لکھتے ہیں جو شخص اللہ جل شانہ کے سوا علم غیب کسی دوسرے کو ثابت کرے وہ بے شک کافر ہیاس کی امامت اور اس سے میل جول محبت و مروت سب حرام ہے ۔
( فتاوٰی رشیدیہ ص 65 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی )
علم غیب خاصہ حق جل شانہ ہے ۔
( فتاوٰی رشیدیہ ص 97 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی )
اور عقیدہ رکھنا کہ آپ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو علم غیب تھا صریح شرک ہے ۔
(فتاوٰی رشیدیہ ص 103مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی )
اثبات علم غیب غیر حق تعالٰی کو شرک صریح ہے ۔
(فتاوٰی رشیدیہ ص 61 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی )
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب ہونے کا معتقد ہے وہ سادات حنفیہ ( یعنی ائمہ احناف ) کے نزدیک قطعا مشرک و کافر ہے ۔
(فتاوٰی رشیدیہ ص 87 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی )
علم غیب خاصہ حق تعالٰی کا ہے اس لفظ کو کسی تاویل سے دوسرے پر اطلاق کرنا ایام شرک سے خالی نہیں ۔
(فتاوٰی رشیدیہ ص 88 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی )
جو شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب جو خاصہ حق تعالٰی ہے ثابت کرے اس کے پیچھے نماز نا درست ( لاتہ کفر کیوں کہ یہ کفر ہے )
(فتاوٰی رشیدیہ ص * مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی )
جب انبیاء علیہ السلام کو بھی علم غیب نہیں ہوتا تو یارسول اللہ کہنا بھی ناجائز ہوگا ۔
(فتاوٰی رشیدیہ ص 6* مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی )
دیوبندی جماعت کے دینی پیشوا مولوی اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں کسی بزرگ یا پیر کے ساتھ عقیدہ رکھنا کہ ہمارے سب حال کی اس کو ہر وقت خبر رہتی ہے ( کفر و شرک ہے)
بہشتی زیور حصہ اول ص 40 مطبوعہ کتب خانہ مجیدیہ ملتان )
رسول مجتبٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور نہ ہی کسی پیر فقیر کو علم غیب ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے یہ تو عقیدہ ہے انبیاء و اولیاء کے لیے مگر اسی عقل کے اندھے مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ارواح ثلاثہ میں اپنے بزرگ کا کشف یوں بیان فرمایا ہے کہ ::
حضرت مولانا مولوی مظفر حسین صاحب کبھی مشتبہ مال نہ کھاتے تھے اور ایک مرتبہ مولوی نور الحسن کے پاس تشریف لے گئے انہوں نے کچھ دام اپنے صاحبزادے مولوی محمد ابراہیم صاحب کو دیے کہ خود جاکر ان کا سامان کھانے کے لیے لادیں تاکہ کچھ گڑبڑ نہ ہو کھانا تیار ہوا اس میں فرینی بھی تھی جس کھاتے ہی قے ہوگئی مولوی نور الحسن صاحب بہت پریشان ہوئے تحقیق کیا تو معلوم ہوا کہ جو دودھ مولوی محمد ابراہیم صاحب لائے تھے گرگیا تھا پھر دودھ باورچی حلوائی کے یہاں سے ادھار میں لایا تھا ۔
( ارواح ثلاثہ ص 195 مکتبہ رحمانیہ لاہور )
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
خود آپ اپنے دام صیاد آگیا
سبحان اللہ ایسا کشف اور علم تو صرف دیوبندی علماء کا ہی خاصہ ہے جیسا علم و کشف انکو نصیب ہے نہ کسی نبی کو ملا نہ کسی ولی کو اور اگر کوئی یہ بات مانے کہ ایسا ہوسکتا ہے تو بقول دیوبندیوں کے وہ کافر و مشرک ہے ۔
شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر ہیں پھینکتے
دیوار آہنی پر حماقت تو دیکھے
اے دیو کی بندیوں یہ بات کان کھول کر سن لو ہم ہرگز تم سے یہ درخواست نہیں کرینگے کہ ہمیں برا مت کہو بلکہ ۔۔
ہم پیروی قیس نہ فرہاد کرینگے
کچھ طرز جنوں اور ہی ایجاد کرینگے
کسی کو دور سے پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کو خبر ہوگئی ( کفر و شرک ہے )
( بہشتی زیور حصہ اول ص 40 مطبوعہ کتب خانہ مجیدیہ ملتان )
یہاں پر اسے نہ تو کوئی قرآنی آیت یاد رہی اور نہ ہی کوئی احادیث اتنی معروف حدیث بھی نظر سے غیب ہوگئی ہے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ یا ساریہ کہہ کر اپنی آواز کو پہنچادیا ۔
الٹی سمجھ کسی کو بھی ایسا خدا نہ دے
دے آدمی کو موت پر یہ بد ادا نہ دے

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔