Pages

Saturday 24 September 2016

لفظِ جہاد کا ترجمہ ’جنگ‘ یا ’holy war‘ کرنا درست نہیں لفظ جہاد کا غلط انطباق اور انگریزی لغات

لفظِ جہاد کا ترجمہ ’جنگ‘ یا ’holy war‘ کرنا درست نہیں لفظ جہاد کا غلط انطباق اور انگریزی لغات
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قرآن و حدیث کی روشنی میں لفظِ جہاد کے معنی ومفہوم اور اس کے اِطلاقات (applications) کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظِ جہاد کا ترجمہ محض جنگ و جدال اور war یا holy war کرنا درست نہیں ہے۔ لفظِ جہاد کا اطلاق مسیحی اور بعض مسلمان محققین نے کفار کے ساتھ خصومت، لڑائی یا جنگ و جدل پر کیا ہے۔ حالانکہ لڑائی، قتال، خصومت یا جنگ کے یہ معنی نہ تو قدیم عربی زبان میں پائے جاتے ہیں اور نہ علماءِ لغت کے نزدیک درست ہیں اور نہ ہی قرآن میں کبھی اس مفہوم پر اس کا اطلاق ہوا ہے۔ کیونکہ عربی لغت میں جنگ و جدال کے لیے حرب(1) اور قتال(2) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔

البقرة، 2 : 279
المائدة، 5 : 64
الأنفال، 8 : 57
محمد، 47 : 4
البقرة، 2 : 217
النساء، 4 : 77
التوبة، 9 : 5
4۔ لفظِ جہاد کا غلط اِنطباق اور انگریزی لغات

جہاد کے اس غلط مفہوم کو عام کرنے میں انگریزی لغات کا بہت دخل ہے۔ لفظِ جہاد کے لغوی معنی میں، اس کے اصطلاحی مفہوم میں اور قرآن و حدیث میں کہیں بھی اس لفظ کے اندر war یا holy war کا معنی نہیں پایا جاتا۔ تاریخی حقائق البتہ اِس اَمر پر شاہد ہیں کہ خود یورپ کے بادشاہوں نے عوام کے مذہبی جذبات کو اشتعال دینے اور چرچ کو جنگ میں شریک کرنے کے لیے holy war کی اِصطلاح اِستعمال کرنا شروع کی اور بعد کے لٹریچر میں یہی معنی بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے جہاد کے ترجمہ کے طور پر مروج ہوگیا۔ اِس اِصطلاح کو اِختراع کرنے کا مقصد مسیحی مذہبی طبقات کے جذبات کو اُبھار کر انہیں القدس (یروشلم) کی جنگ میں شریک کرنا تھا۔ اس طرح جہاں ایک طرف غیر مسلم مفکرین اور ذرائع ابلاغ نے جہاد کا ترجمہ holy war کرکے اِسلامی تصورِ جہاد کو بری طرح مجروح کیا، وہاں دوسری طرف بعض دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں نے بھی لفظِ جہاد کو اپنی دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا عنوان بنا کر اِسلام کو دنیا بھر میں بد نام کرنے اور اِسلامی تعلیمات کے پُراَمن چہرے کو مسخ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی ۔

مسیحی مذہب کی رُو سے ظلم و جور کے خلاف قوت و طاقت کا اِستعمال ناجائز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی صدیوں تک اکثر مسیحی علماء دفاعِ شخصی کے حق (right of self defence) کا بھی اِنکار کرتے رہے۔ اس سلسلے میں بالعموم حضرت عیسٰی  علیہ السلام  کے مشہور پہاڑی وعظ کے اِس اِقتباس کا حوالہ دیا جاتا ہے:

But I say unto you, That ye resist not evil: but whosoever shall smite thee on thy right cheek, turn to him the other also.

Matthew 5:39

میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔

چوتھی صدی عیسوی میں جب رومی بادشاہ قسطنطین (Constantine) نے عیسائیت قبول کی اور مسیحیت کو رومی سلطنت کے سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہوگئی تو پھر جنگ کے جواز کے لیے ایک نئے نظریے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ جنگ کے جواز کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اتنی بڑی سلطنت کے نظم و نسق اور اَمن اَمان کو طاقت کے اِستعمال کے بغیر قائم رکھا جا سکے۔ اس نظریے کے تحت قرار دیا گیا کہ جو جنگ مذہبی بنیادوں پر بت پرستوں اور نئے فرقوں کے خلاف لڑی جائے وہ منصفانہ جنگ ہوگی۔ جنگ کی اس نوعیت کو قرونِ وُسطیٰ میں ’مقدس جنگ (holy war)‘ کا نام دیا گیا۔

اکثر مغربی مصنفین اور ہندو ناقدین نے جہاد کو بھی ’مقدس جنگ (holy war)‘ قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے درج ذیل کتب ملاحظہ کی جا سکتی ہیں:

John Laffin, Holy War: Islam Fights (London, Graffton Books, 1988).

Suhas Majumdar, JIHAD: The Islamic Doctrine of Permanent War (New Delhi: The Voice of India, 1994).
Karen Armstrong, Holy War: The Crusades and Their Impact on Today’s World (New York: Anchor Books, 2001).
Reuven Firestone, Jihad: The Origin of Holy War in Islam (New York: Oxford University Press, 1999).
علمی دیانت، اِنصاف اور تحقیق کا تقاضا ہے کہ یہ غلط معانی لغت کی کتابوں سے نکال دیے جائیں ۔ یہ اِسلام کی ایک اَہم اِصطلاح اور دینی تصور کے خلاف گھناؤنی سازش ہے جس سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ قرآن میں کہیں بھی جَھد جُھد یا جہاد میں Holy war کا کوئی تصور یا خیال موجود نہیں۔ جہاد ایک سعی ہے، ایک کوشش، محنت اور مشقت ہے جو کسی بھی نیک مقصد کے لیے کی جاتی ہے۔ مقصد روحانی بھی ہو سکتا ہے، معاشرتی بھی، ثقافتی یا سیاسی بھی۔ یہ خیرات بھی ہو سکتی ہے، فروغِ تعلیم کی جد و جہد بھی اور یہ کوئی بھی نیک مقصد ہو سکتا ہے جس کے لیے محنت اور مشقت کو جہاد کہا جائے گا۔ اِسلام میں لڑنے یا جنگ کرنے کے لیے قِتَال کی اِصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کا معنی ہے ’لڑنا‘ جب کہ لفظِ جہاد کے معنی میں لڑنا شامل ہی نہیں ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔