Pages

Wednesday 21 September 2016

آدم علیہ السلام کے جسم اقدس میں پھونکی جانے والی روح

آدم علیہ السلام کے جسم اقدس میں پھونکی جانے والی روح
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ روح کیا ہے جس کی وجہ سے ایک انسان کی زندگی بھی رواں دواں ہے اور کل کائنات کی زندگی کا دارومدار بھی اسی پر ہے۔ آیئے اس حقیقت کو قرآن مجید سے تلاش کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

فَاِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِیْ.

’’پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں ‘‘۔

(الحجر: 29)

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خالق اور مخلوق کی جنس ایک نہیں ہوسکتی تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ خالق اپنی روح مخلوق کے جسد میں پھونک دے کیونکہ خالق کی جنس اور ہے مخلوق کی جنس اور ہے۔ لہذا جب خالق کی روح کا مخلوق میں پھونک دیا جانا ممکن نہیں تو پھر یہاں پر کس روح کا تذکرہ کیا جارہا ہے؟

اللہ رب العزت نے اس آیت میں فرمایا ’’رُوْحِیْ‘‘ ’’میری روح‘‘، اس نسبت و اضافت کا مطلب یہ نہیں کہ مالک اور ملکیت دونوں کی جنس ایک ہوجائے۔ مالک اور ملکیت میں نسبت تو رہتی ہے مگر مالک اور ملکیت کی جنس ایک نہیں ہوسکتی۔جس طرح قَلَمِیْ ’’میرا قلم‘‘، سَیَارَتِیْ ’’میری گاڑی‘‘۔ یہاں قلم اور گاڑی کے ساتھ نسبت و اضافت تو موجود ہے مگر اس کا قطعاً مطلب یہ نہیں کہ مالک اور ملکیت کی جنس ایک ہے۔ اسی طرح اللہ رب العزت جب ارشاد فرمارہا ہے کہ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِی تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس روح کو نسبت تو مجھ سے ہے مگر یہ روح اصل میں مخلوق کی جنس سے ہے۔

اس روح کی حقیقت کیا ہے؟ وہ روح کیا ہے جسے جسدِ آدم میں پھونکا گیا؟ آیئے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

قلت: يا رسول اﷲ! بأبی أنت و أمی! أخبرنی عن أوّل شئ خلقه اﷲ تعالی قبل الأشياء، قال: يا جابر! إن اﷲ تعالی قد خلق قبل الأشياء نور نبيک من نوره، فجعل ذلک النور يدور بالقدرة حيث شاء اﷲ تعالی، ولم يکن فی ذلک الوقت لوح ولا قلم، ولا جنة ولا نار، ولا ملک، ولا سماء ولا أرض، ولا شمس ولا قمر، ولا جني ولا انسي، فلما أراد اﷲ تعالی أن يخلق الخلق، قسم ذالک النور أربعة أجزاء: فخلق من الجزء الأوّل القلم، و من الثانی اللوح، ومن الثالث العرش، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء، فخلق من الأوّل حملة العرش، و من الثانی الکرسی، و من الثالث باقی الملائکة، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء، فخلق من الأوّل السموت، ومن الثانی الأرضين، و من الثالث الجنة والنار…

’’میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے کیا چیز پیدا فرمائی؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے جابر! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے (نہ بایں معنی کہ نور الٰہی اس کا مادہ تھا بلکہ اس نے نور کے فیض سے) پیدا فرمایا، پھر وہ نور مشیتِ ایزدی کے مطابق جہاں چاہتا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ فرشتہ تھا، نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھا اور نہ انسان۔ جب اللہ تعالی نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا: پہلے حصے سے قلم بنایا، دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش۔ پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصے سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے۔ پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے آسمان بنائے، دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت اور دوزخ۔۔۔۔‘‘

(قسطلانی، المواهب اللدنيه، 1: 71، بروايت امام عبدالرزاق)

اللہ رب العزت تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے ہر شے کو تخلیق فرمانے کی وجہ خود بیان کرتا ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ

لولاه ما خلقتک و لا خلقت سماء و لا ارضا.

’’اگر میں اسے (محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) پیدا نہ کرتا تو نہ تمہیں (آدم علیہ السلام) پیدا کرتا اور نہ زمین و آسمان کو پیدا کرتا۔‘‘

(قسطلانی، المواهب اللدنيه، 1: 9)

کیونکہ اس جسد کا کیا کرنا جس کی روح ہی تخلیق میں نہ آئی ہو۔ جب روح تخلیق میں آجائے تو پھر اس کو پھونکے جانے کے لئے جسد بھی بنایا جاتا ہے۔ پس آدم علیہ السلام کو بھی بنادیا گیا اور نور مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روح بناکر کائنات میں بھیجنے کے لئے کائنات بھی بنادی۔

پس اس روح سے مراد نور محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ جس سے آدم کا جسد یعنی عالم اصغر زندہ ہوگیا۔ اسی طرح عالم اکبر یعنی کل کائنات بھی ایک روح کی تلاش میں تھی تو اللہ رب العزت نے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو اس کائنات کی بھی روح بناکر اس کائنات کو زندگی عطا کی۔ جس طرح آدم کے اندر نور محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم روح بن کر اس کو زندہ رکھے ہوئے ہے، اسی طرح اس کل کائنات کی روح اور جان روح محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ جن کے وسیلہ سے کائنات حرکت میں ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔