Pages

Saturday 24 September 2016

جہاد اور بغاوت میں فرق

جہاد اور بغاوت میں فرق

اپنی تمام ظاہری و باطنی صلاحیتوں اور اِستعداد کو اَعلی اور پُراَمن مقاصد کے پیشِ نظر اللہ کی راہ میں صرف کرنے کے لیے جو کوشش کی جائے، اسے جہاد کہتے ہیں۔ اگر جہاد کی شرعی شرائط پوری نہ ہوں تو وہ عمل جہاد نہیں بلکہ غدر، بغاوت دہشت گردی اور فساد ہے جس کی اِسلامی تعلیمات میں قطعاً اجازت نہیں ہے۔ جن لوگوں کو مسلح دہشت گردوں کی ملک دشمن کارروائیوں کے پس پردہ ’جہاد‘ کا شائبہ ہوتا ہے، اُنہیں اِطمینانِ قلب ہو جانا چاہیے کہ کلمہ گو اور معصوم شہریوں کی جانیں لینا کوئی جہاد نہیں ہے بلکہ یہ جہاد جیسے اعلیٰ دینی تصور کو بدنام کرنے کی بد ترین اور گھناؤنی کوشش ہے۔ تاریخِ اِسلام میں جس طرح بغاوت کو ایک جرم قرار دیا گیا ہے اسی طرح آج کے مسلح باغیوں کو ملک و قوم کا دشمن سمجھنا ہی دین داری ہے۔

آیات و اَحادیث اور تصریحاتِ اَئمہ دین کی روشنی میں بغاوت کی حرمت و ممانعت واضح ہے۔ اِس سلسلے میں احادیث کے علاوہ صحابہ کرام، تابعین، اَتباع التابعین بالخصوص امامِ اَعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور دیگر جلیل القدر ائمہ دین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فتاویٰ کی روشنی میں یہ اَمر واضح ہے کہ مسلم ریاست کے خلاف بغاوت کی قطعی ممانعت پر اِجماعِ اُمت ہے اور کسی مذہب و مسلک میں بھی اِس پر اختلاف نہیں ہے۔ ایسے مسلح خروج اور بغاوت کو جو نظمِ ریاست کے خلاف ہو اور ہیئتِ اِجتماعی کے باقاعدہ اِذن و اِجازت کے بغیر ہو وہ خانہ جنگی، دہشت گردی اور فتنہ و فساد ہوتا ہے، اسے کسی لحاظ سے بھی جہاد کا نام نہیں دیا جاسکتا۔

اَہلِ لغت نے بغاوت کی کئی تعریفات بیان کی ہیں، وہ سب ایک ہی معنوی اَصل کی طرف لوٹتی ہیں۔ یہ تعریفات ملاحظہ کرنے کے بعد آپ کے سامنے جہاد اور بغاوت کا فرق خودبخود واضح ہو جائے گا۔

1۔ فقہاے اَحناف میں امام ابن ہمام (م861ھ) نے ’فتح القدیر‘ میں بغاوت کی سب سے جامع تعریف کی ہے اور باغیوں کی مختلف اَقسام بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

وَالْبَاغِي فِي عُرْفِ الْفُقَهَاءِ الْخَارِجُ عَنْ طَاعَةِ إِمَامِ الْحَقِّ. وَالْخَارِجُوْنَ عَنْ طَاعَتِهِ أَرْبَعَةُ أَصْنَافٍ: أَحَدُهَا: الْخَارِجُوْنَ بِلاَ تَأَوِيْلٍ بِمَنَعَةٍ وَبـِلَا مَنَعَة،ٍ يَأْخَذُوْنَ أَمْوَالَ النَّاسِ وَيَقْتُلُوْنَهُمْ وَيُخِيْفُوْنَ الطَّرِيْقَ، وَهُمْ قُطَّاعُ الطَّرِيْقِ. وَالثَّانِي: قَوْمٌ کَذَلِکَ إِلاَّ أَنَّهُمْ لاَ مَنَعَةَ لَهُمْ لَکِنْ لَهُمْ تَأْوِيْلٌ. فَحُکْمُهُمْ حُکْمُ قُطَّاعِ الطَّرِيْقِ. إِنْ قَتَلُوْا قُتِلُوْا وَصُلِّبُوْا. وَإِنْ أَخَذُوْا مَالَ الْمُسْلِمِيْنَ قُطِعَتْ أَيْدِيْهُمْ وَأَرْجُلُهُمْ عَلٰی مَا عُرِفَ. وَالثَّالِثُ: قَوْمٌ لَهُمْ مَنَعَةٌ وَحَمِيَةٌ خَرَجُوْا عَلَيْهِ بِتَأْوِيْلٍ يَرَوْنَ أَنَّهُ عَلٰی بَاطِلٍ کُفْرٍ أَوْ مَعْصِيَةٍ. يُوْجِبُ قِتَالَهُ بِتَأْوِيْلِهِمْ. وَهٰؤلاَءِ يُسَمَّوْنَ بِالْخَوَارِجِ يَسْتَحِلُّوْنَ دِمَاءَ الْمُسْلِمِيْنِ وَأَمْوَالَهُمْ وَيَسْبُوْنَ نِسَاءَ هُمْ وَيُکَفِّرُوْنَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم. وَحُکْمُهُمْ عِنْدَ جُمْهُوْرِ الْفُقَهَاءِ وَجُمْهُوْرِ أَهْلِ الْحَدِيْثِ حُکْمُ الْبُغَاةِ.… وَالرَّابِعُ: قَوْمٌ مُسْلِمُوْنَ خَرَجُوْا عَلٰی إِمَامٍ وَلَمْ يَسْتَبِيْحُوْا مَا اسْتَبَاحَهُ الْخَوَارِجُ، مِنْ دِمَاءِ الْمُسْلِمِيْنَ وَسَبْيِ ذَرَارِيْهِمْ وَهُمُ الْبُغَاةُ.

ابن همام، فتح القدير، 5 : 334

فقہاء کے ہاں عرفِ عام میں آئین و قانون کے مطابق قائم ہونے والی حکومت کے نظم اور اتھارٹی کے خلاف مسلح جد و جہد کرنے والے کو باغی (دہشت گرد) کہا جاتا ہے۔ حکومت وقت کے نظم کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی چار قسمیں ہیں:

پہلی قسم ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو طاقت کے بل بوتے یا طاقت کے بغیر بلاتاویل حکومت کی اتھارٹی اور نظم سے خروج کرنے والے ہیں اور لوگوں کا مال لوٹتے ہیں، انہیں قتل کرتے ہیں اور مسافروں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں، یہ لوگ راہ زن ہیں۔

دوسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جن کے پاس غلبہ پانے والی طاقت و قوت تو نہ ہو لیکن مسلح بغاوت کی غلط تاویل ہو، پس ان کا حکم بھی راہ زنوں کی طرح ہے۔ اگر یہ قتل کریں تو بدلہ میں انہیں قتل کیا جائے اور پھانسی چڑھایا جائے اور اگر مسلمانوں کا مال لوٹیں تو ان پر شرعی حد جاری کی جائے۔

تیسری قسم کے باغی وہ لوگ ہیں جن کے پاس طاقت و قوت اور جمعیت بھی ہو اور وہ کسی من مانی تاویل کی بناء پر حکومت کی اتھارٹی اور نظم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں اور ان کا یہ خیال ہو کہ حکومت باطل ہے اور کفر و معصیت کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ان کی اِس تاویل کے باوجود حکومت کا ان کے ساتھ جنگ کرنا واجب ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں پر خوارج کا اطلاق ہوتا ہے جو مسلمانوں کے قتل کو جائز اور ان کے اَموال کو حلال قرار دیتے تھے اور مسلمانوں کی عورتوں کو قیدی بناتے اور اَصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکفیر کرتے تھے۔ ان کا حکم بھی جمہور فقہاء اور اَئمہ حدیث کے ہاں خوارج اور باغیوں کی طرح ہی ہے۔

چوتھی قسم اُن لوگوں کی ہے جنہوں نے حکومت ِوقت کے خلاف مسلح بغاوت تو کی لیکن ان چیزوں کو مباح نہ جانا جنہیں خوارج نے مباح قرار دیا تھا جیسے مسلمان کو قتل کرنا اور ان کی اولادوں کو قیدی بنانا وغیرہ۔ درحقیقت یہی لوگ باغی ہیں۔

2۔ علامہ زین الدین بن نجیم حنفی (م970ھ) ’البحر الرائق‘ میں باغی دہشت گردوں کی تعریف یوں کرتے ہیں:

وَأَمَّا الْبُغَاةُ فَقَوْمٌ مُسْلِمُوْنَ خَرَجُوْا عَلَی الإِْمَامِ الْعَدْلِ، وَلَمْ يَسْتَبِيْحُوْا مَا اسْتَبَاحَهُ الْخَوَارِجُ مِنْ دِمَاءِ الْمُسْلِمِيْنَ وَسَبْيِ ذَرَارِيْهِمْ.

ابن نجيم، البحر الرائق، 5 : 151

جہاں تک باغیوں کا تعلق ہے تو یہ مسلمانوں میں سے وہ لوگ ہیں جو قانونی طریقے سے قائم ہونے والی حکومت کے خلاف مسلح ہو کر مقابلے میں نکل آتے ہیں۔ بے شک جس چیز کو خوارج نے حلال قرار دیا ہے یہ اس کو حلال قرار نہ دیتے ہوں مثلاً مسلمان کا خون بہانا اور ان کی اولادوں کو قید کر کے لونڈی یا غلام بنانا۔ سو یہی لوگ باغی (دہشت گرد) کہلاتے ہیں۔

3۔ علامہ ابن عابدین شامی (م1252ھ)نے ’رد المحتار‘ میں بغاوت کی تعریف اس طرح کی ہے:

أَهْلُ الْبَغْيِ: کُلُّ فِئَةٍ لَهُمْ مَنَعَةٌ. يَتَغَلَّبُوْنَ وَيَجْتَمِعُوْنَ وَيُقَاتِلُوْنَ أَهْلَ الْعَدْلِ بِتَأْوِيْلٍ. يَقُوْلُوْنَ: ’الْحَقُّ مَعَنَا.‘ وَيَدَّعُوْنَ الْوِلَايَةَ.

ابن عابدين شامی، رد المحتار، 4 : 262
دسوقي، الحاشية، 4: 261
عينی، البناية شرح الهداية، 5 : 888

باغیوں سے مراد ہر وہ گروہ ہے جس کے پاس مضبوط ٹھکانے اور طاقت ہو اور وہ غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کو منظم کرکے مسلم ریاستوں کے خلاف (خود ساختہ) تاویل کی بناء پر قتال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں۔ اور پھر وِلایت یعنی حکومت سازی کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اِسلام کسی بھی پُراَمن اِجتماعیت کے خلاف مسلح خروج و بغاوت اور تفرقہ و اِنتشار کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اَمن و سلامتی اور صلح و آشتی کی تلقین کرتا ہے۔ اِسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان وہی شخص ہے جس کے ہاتھوں مسلم و غیر مسلم سب بے گناہ انسانوں کے جان و مال محفوظ رہیں۔ اِنسانی جان کا تقدس اور تحفظ شریعتِ اِسلامی میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ کسی بھی اِنسان کی ناحق جان لینا اور اُسے قتل کرنا فعلِ حرام ہے بلکہ بعض صورتوں میں یہ عمل موجبِ کفر بن جاتا ہے۔ آج کل دہشت گرد ریاستی نظم کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے جس بے دردی سے خودکش حملوں اور بم دھماکوں سے گھروں، بازاروں، عوامی اور حکومتی دفاتر اور مساجد میں بے گناہ مسلمانوں اور پُراَمن غیر مسلموں کی جانیں لے رہے ہیں وہ جہاد نہیں بلکہ صریحاً کفر و فساد ہے۔ بغاوت و دہشت گردی فی نفسہِ کافرانہ فعل ہے اور جب اِس میں خود کشی کا حرام عنصر بھی شامل ہو جائے تو اس کی سنگینی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔