جہاد اور حرب میں فرق
عربی زبان مین لفظ ’حرب‘ کے بیسیوں مترادفات ہیں لیکن یہ لفظ مقاصدِ جنگ کو زیادہ بہتر طریقے سے واضح کرتاہے۔ عربوں کی لڑائیاں عام طور پر دو مقاصد کے لیے ہوتی تھیں: ایک لوٹ مار کے لیے اور دوسرے نسلی تفاخر، غیرت و حمیت اور اِنتقامی کارروائیوں کے لیے۔ لفظِ حرب ان دونوں مقاصد کے لیے بپا کی جانے والی لڑائیوں کے محرکات اور مقاصد کا ایک بلیغ استعارہ ہے اور اپنا مفہوم پوری طرح واضح اور روشن کرتا ہے۔
خود عربی زبان میں جنگ کے لیے ’حرب‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ تصورِ حرب،بھی تصور جہاد سے اپنے مفہوم کے اعتبار سے بہت مختلف ہے، اسی لیے جہاد پر حرب کا اطلاق نہیں کیا گیا۔ جنگ یعنی حرب فتنوں کی پرورش کرتی ہے جبکہ جہاد فتنہ و فساد کو ختم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جہاد کے مقاصد دنیا کی جارحانہ یا توسیع پسندانہ جنگوں سے قطعی مختلف ہیں۔ قرآن مجید میں لفظ ’حرب‘ چھ مقامات پر استعمال کیا گیا ہے۔ ایک کے سوا کہیں بھی اس سے جہاد کا مفہوم مترشح نہیں ہوتا۔ ذیل میں ہم لفظ حرب کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے قرآن کی مختلف آیات کا مطالعہ کرتے ہیں:
1۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
يٰـايُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اﷲَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اﷲِ وَرَسُوْلِهِ.
البقرة، 2 : 278-279
اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہوo پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلانِ جنگ پر خبردار ہو جاؤ۔
یہ اَمر قابل ذکر ہے کہ آیت مذکورہ میں مسلمانوں سے خطاب کیا گیا ہے اور جہاد مسلمانوں کے خلاف نہیں کیا جاتا۔ یہاں پر اصل میں سود کی سنگینی کو ظاہر کرنے کے لیے لفظِ حرب استعمال کیا گیا ہے۔ اکثر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ عملی طور پر بھی کبھی اس بنا پر جہاد نہیں کیا گیا۔ لہٰذا یہاں لغوی معنی مراد ہیں اصطلاحی نہیں۔
2۔ ایک اور مقام پر عہد فراموش کفار کے حوالے سے لفظ حرب استعمال کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:
فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّکَّرُوْنَo
الانفال، 8 : 57
سو اگر آپ انہیں (میدانِ) جنگ میں پا لیں تو ان کے عبرت ناک قتل کے ذریعے ان کے پچھلوں کو (بھی) بھگا دیں تاکہ انہیں نصیحت حاصل ہوo
قبائلِ یہود بار بار عہد شکنی کے مرتکب ہوتے تھے۔ یہ آیت انہی کے متعلق نازل ہوئی۔ یہودیوں نے ذاتی بغض و عناد کے باعث لڑائیوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہوا تھا اور قبائلِ عرب کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے میں مصروف تھے۔ قرآن مجید میں اس منفی کارروائی کا ذکر حرب سے کیا گیا ہے۔
3۔ ارشاد خداوندی ہے:
کُلَّمَا اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اﷲُ وَيَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًاط وَاﷲُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَo
المائدة، 5 : 64
جب بھی یہ لوگ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اﷲ اسے بجھا دیتا ہے اور یہ (روئے) زمین میں فساد انگیزی کرتے رہتے ہیں، اور اﷲ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتاo
اس آیت کریمہ کا روئے سخن یہود و نصاریٰ کی طرف ہے۔ یہاں بھی حرب سے مراد ہرگز جہاد نہیں بلکہ منفی مقاصد پر مبنی جنگ و قتال ہے۔ مفہومِ آیت روز روشن کی طرح واضح ہے۔
4۔ سورۃ التوبۃ میں ارشاد باری ہے:
وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِيْقًام بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ مِنْ قَبْلُ.
التوبة، 9 : 107
اور (منافقین میں سے وہ بھی ہیں) جنہوں نے ایک مسجد تیار کی ہے (مسلمانوں کو) نقصان پہنچانے اور کفر (کو تقویت دینے) اور اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے اور اس شخص کی گھات کی جگہ بنانے کی غرض سے جو اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہی سے جنگ کررہا ہے۔
یہاں بھی لفظ ’حرب‘ کلیتاً منفی جنگی کارروائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
عربی لغت کے مطابق عرب میں جنگ کے لیے جو تراکیب، محاورے، علامتیں اور اِستعارے استعمال ہوئے ہیں، ان تمام سے وحشیانہ پن اور دہشت گردی کا تاثر ابھرتاہے۔ اس لیے عسکری لٹریچر کی اصلاح کے لیے اِسلام نے ان تمام جارحانہ الفاظ اور محاوروں کو ترک کرکے اِصلاحِ اَحوال کی مثبت جد و جہد کو ’جہاد‘ کا نام دیا۔ اِس کا اِطلاق اَعلیٰ اور اَرفع مقاصد، قیامِ اَمن، فتنہ و فساد کے خاتمہ اور ظلم و جبر کو مٹانے کے لیے جامع جد و جہد پر ہوتا ہے۔ لفظ جہاد سے لوٹ مار، غیظ و غضب اور قتل و غارت گری کی بُو تک نہیں آتی بلکہ اس کا معنی پاکیزہ، اَعلیٰ اور پُراَمن اِنسانی مقاصد پر دلالت کرتاہے۔ ایک مہذب، شائستہ اور بلند عزائم رکھنے والی اَمن پسند قوم کی اِنقلابی جد و جہد اور مسلسل کاوشوں کے مفہوم کی توضیح و تفہیم کے لیے لفظ جہاد سے بہتر کوئی دوسرا لفظ نہیں ہے۔ جہاد اپنے وسیع تر معنوں میں وقتی یا ہنگامی سعی و کاوش نہیں بلکہ مہد سے لے کر لحد تک مردِ مومن کی پوری زندگی پرمحیط ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔