Pages

Monday 19 September 2016

اذان سے پہلے اور بعد صلوة و سلام

اگر زید کی مراد یہ ہے کہ اذان سے متصل پہلے یا بعد صلوٰۃ و سلام کسی طرح بھی جائز نہیں تو اس کا قول باطل مخالف قرآن و سنت و تصریحاتِ ائمہ کرام ہے اور اگر یہ مراد ہے کہ صلوٰۃ و سلام بجمیع صیغ صلوۃ و سلام اذان سے متصل پہلے بعد جائز ہے مگر اس طرح نہ پڑھا جائے کہ موجب شبہ زیادت و توہم جزئیت ہو اور یہ اس صورت میں ہو گا صلوٰۃ و سلام متصل بالاذان جہراً پڑھا جائے) تو زید کا یہ قول موافق قواعد شرع ہے اور واقعی لاؤڈ اسپیکر میں اذان و صلوٰۃ جبکہ ان میں اتصال ہو پڑھنا موجب شبہ زیادت اور مورث کراہت تنزیہی ہے تو جس طرح حقیقتاً زیادت سے بچنا لازم ہے شبہ زیادت کی صورت سے بھی اجتناب چاہیے اور شرع میں اس کی متعدد نظیریں موجود ہیں کہ جہاں شبہ جزئیت ہوتا ہو اس سے رُک جانے کا حکم دیا گیا ہے۔

یہاں صرف دو پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ پہلی نظیر دُعا بعد صلوٰۃ الجنازہ ہے کہ دُعا کے جواز و ثبوت پر صلوٰۃ و سلام کی طرح نصوص کثیرہ شاہد ہیں اس کے باوجود ہمارے فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ اگر دُعا مانگنا مطلوب ہو تو صفیں توڑ کر مانگی جائے کہ عدم کسر صفوف کی صورت میں شبہ زیادت لازم آئے گا کہ شاید یہ دُعا جز و صلوٰۃ جنازہ ہے حالانکہ اس سے فراغت ہو چکی ہے پھر جزئیت کیسی تو اس شبہ زیادت سے بچنے کے لیے نقض صفوف چاہیے۔

یونہی صورتِ مستفسرہ میں بھی شبہ زیادت کا ازالہ چاہیے جو آگے مذکور ہو گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ مرقاۃ میں ہے: (فلا تصلھا لصلوۃ) ای نافلۃ او قضاء (حتی تکلم) ای احدا من الناس فان بہ یحصل الفصل لا بالتکلم بذکر اللّٰہ تعالی (او تخرج) ای حقیقہ او حکما بان تتاخر عن ذالک المکان (فان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم امرنا بذالک ان لا نوصل) ای الجمعۃ او صلاۃ ای صلوۃ من المکتوبات (بصلوۃ حتی نتکلم او نخرج) والمقصود بھما الفصل بین الصلاتین لئلا یوھم الوصل فالامر للاستحباب والنھی للتنزیہ۔(مرقاۃ ج۲ص۸۱۱) اعلیٰ حضرت قبلہ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:

ہاں دفع احتمالِ زیادت کو نقص صفوف کر لیں۔(فتاوی رضویہ ج۴ص۱۲) پھر ص 28 پر فرمایا: لاجرم معنی یہ ہیں کہ نمازِ جنازہ کے بعد اسی ہئیات پر بدستور صفیں باندھے وہیں کھڑے دُعا نہ کریں کہ زیادۃ فی الصلوۃ سے مشابہہ نہ ہو تو جس طرح زیادت فی الصلوۃ سے مشابہہ نہیں ہونی چاہیے زیادت فی الاذان سے بھی مشابہت نہیں ہونی چاہیے۔

دوسری نظیر یہ ہے کہ اقامت سے قبل صلوٰۃ و سلام متصلاً جہراً پڑھنے سے احتراز و اجتناب کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت t فتاویٰ رضویہ ص 476 ج 2 میں ارشاد فرماتے ہیں۔: درود شریف قبل اقامت پڑھنے میں حرج نہیں مگر اقامت سے فصل چاہیے یا درود شریف کی آواز، آواز اقامت سے ایسی جداہوکہ امتیاز رہے اور عوام کودرود شریف جز و اقامت نہ معلوم ہو رہا ہو۔ اھ(فتاوی رضویہ ج۲ص۶۷۴) یہاں اعلیٰ حضرت نے وجہ احتراز و علت اجتناب شبہ زیادت و جزئیت کو قرار دیا ہے جو اذان کی صورت میں موجود ہے جب اقامت میں احتراز چاہیے تو اذان میں بطریق اولیٰ چاہیے کہ اقامت صرف مسجد میں موجود نمازی سنتے ہیں اور اذانیں سارا شہر سنتا ہے گویا اقامت کی صورت میں توہم میں مبتلا چند افراد ہوں گے اور صورت اذان میں سارا شہر گرفتار توہم ہو گا تو اذان میں احتیاط زیادہ چاہیے۔ رہا کراہت تنزیہی کا مسئلہ تو جب صفت مذکورہ پر صلوٰۃ پڑھنا موہم زیادت و جزئیت ہے تو اس پر عمل کم از کم خلافِ اولیٰ ہونا چاہیے اور خلافِ اولیٰ کو مکروہِ تنزیہی کہناعلماء میں شائع ہے۔

اگرچہ تحقیق یہ ہے کہ ان دونوں میں عام خاص مطلق کی نسبت ہے۔ کراہت تنزیہہ خاص ہے اور خلافِ اولیٰ عام ہے۔ ردِ المحتار میں ہے: و ظاھر التعلیل ان الدعاء لغیر العربیۃ خلاف الاولٰی و ان الکراھۃ تنزیھیۃ۔ (ردالمحتارج۱ ص۶۸۴) ترجمہ:ظاہر التعلیل یہ ہے کہ غیر عربی میں دعا خلاف اولی اور مکروہ تنزیہ ہے۔ درِ مختار میں ہے: (و کرہ) ھذہ تعم التنزیھیۃ التی مرجعھا خلاف الاولٰی۔(درمختار ص۷۹۵ ج۱) ترجمہ::یہ مکروہ تنزیہ جس کا مرجع خلاف اولی کو عام ہے۔ اور اس لیے بھی مکروہِ تنزیہی کہہ سکتے ہیں کہ علماء نے خاص ابہام زیادت کو موجب کراہت تنزیہہ قرار دیا ہے چنانچہ مرقاۃ سے گزرا۔ یحتمل ان ذکر الجمعۃ للتاکید الزائد فی حقھا لا سیمایوھم انہ یصلی اربعا و انہ الظھر و ھذا فی مجتمع العام سبب للابھام۔ پھر فرمایا: فالامر للاستحباب والنھی تنزیہ۔ اعلیٰ حضرت قبلہ نے جلد 4 ص 28 میں فرمایا۔

ابھی مرقاۃ سے گزرا کہ ایہام زیادت مورثِ کراہت تنزیہہ ہے وبس جس کا حاصل خلافِ اولیٰ یعنی بہتر نہیں نہ یہ کہ ممنوع و ناجائز۔ الحاصل: ایہام زیادت کی صورت سے بچنا چاہیے اور اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اتصال کی صورت میں صلوٰۃ و سلام سرّا پڑھا جائے (اور اگر معمولی سا جہر ہو کہ عوام کے عرف میں اسے جہر نہ کہا جاتا ہو تو کوئی حرج نہیں کہ علت یعنی شبہ زیادت مفقود ہے اور ُسر بدلنا رافع ابہام نہیں ہو سکتا کہ عوام کی نظر ادھر نہیں جاتی۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ساتھ پڑھا جا رہا ہے اور آواز میں فرق نہیں اور ظاہر ہے کہ مؤذن کے فہم کا اعتبار نہیں بلکہ فہم عوام کا اعتبار ہے اور عوام کو شبہ زیادت ہو سکتا ہے) اور دوسری صورت یہ ہے کہ صلوٰۃ جہراً پڑھا جائے مگر فاصلہ سے خواہ اذان سے قبل پڑھا جائے یا بعد میں۔ اور بعد میں بالفصل پڑھنا بہت بہتر کہ اس صورت میں صلوٰۃ و سلام کی برکات بھی حاصل ہوں گی اور تثویب پر عمل بھی جس کو علماء متاخرین نے مستحسن قرار دیا ہے۔

درِ مختار میں ہے: (و یثوب) بین الاذان والاقامۃ فی الکل للکل بما تعارفوہ۔ (درمختار ج۱ص۱۶۳) اور اذان و صلوٰۃ و سلام میں بیس آیات کی قرأت کی مقدار فاصلہ کیا جائے یعنی تقریباً 4-3 منٹ کا فاصلہ کیا جائے۔ ردِ المحتار میں ہے: فسرہ فی روایۃ بان یمکث بعد الاذان قدر عشرین آیۃ ثم یثوب ثم یمکث کذالک ثم یقیم بحر۔ اھ۔ ترجمہ:اس کی ایک روایت میں تفسیر یوں کی ہے کہ اذان کے بعد بیس آیتوں کی مقدار ٹھہرے پھر تثویب کہے پھر اتنی دیر رکے۔ خلاصہ یہ ہے کہ شبہ زیادت یا تو فصل سے مرتفع ہو گا یا سر سے یا اتنی خفیف آواز سے کہ عوام کو امتیاز بین رہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔