انبیاء کرام علیہم السّلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور عبادت کرتے ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے۔ چنانچہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور اپنا رزق مسلسل پا رہے ہیں۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز (صحٰیح اسناد کے ساتھ) (سنن ابو داؤد، کتاب الصلاۃ)( سنن نسائی، کتاب الجمعہ )
انبیاء علیھم السلام کا رتبہ شہداء سے بڑھ کر ہے۔ اور اللہ نے شہداء کے متعلق قران میں واضح کر دیا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور اپنا رزق پا رہے ہیں، مگر ہم اس کا شعور نہیں رکھتے۔
اسی طرح ہم اس بات کا شعور نہیں رکھتے کہ قبر کے مردے کیسے سنتے ہیں۔ مگر قران اور سنت کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ بیشک ہماری بات سنتے ہیں۔
حضرت عیسیؑ جب نزول فرمائیں گے تو رسول ﷺ کو "یا رسول اللہ ﷺ" کہہ کر مخاطب کریں گے
ایک مرتبہ رسول ﷺ نے اپنے ایک صحابی کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بتایا کہ وہ وہ اس دنیا میں دوبارہ نزول فرمائیں گے۔ اور پھر وہ مدینہ آئیں گے۔ اور رسول ﷺ نے مزید فرمایا: "اور جب عیسیٰ علیہ السلام میری قبر کے پاس کھڑے ہوں گے تو مجھے "یا محمد" کہہ کر پکاریں گے۔ اور میں ان کی پکار کا جواب دوں گا۔"
ابن حجر العسقلانی، کتاب مطالب الاولیاء (جلد ۴، حدیث 3953)
منکرین حضرات کو دعوت ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر شرک کا فتویٰ صادر کریں اگر وہ واقعی اپنے عقائد میں سچے ہیں۔
.ایک اعرابی رضی اللہ عنہ کا رسول ﷺ کی قبر انور پر آ کرآپ ﷺکو مخاطب کرنا
قران میں سورہ نساء کی 64 آیت ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا
اور ہم نے کسی رسول کو بھی نہیں بھیجا ہے مگر صرف اس لئے کہ حکِم خدا سے اس کی اطاعت کی جائے اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے
رسول ﷺ کی وفات کے بعد ایک اعرابی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی قبر انور پر آیا اور اس نے یہ آیت پڑھ کر رسول ﷺ کو خطاب کیا اور درخواست کی کہ وہ اُسکے لیے استغفار کریں۔
امام قرطبی اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
حضرت علیؑ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول ﷺ کی وفات کے تین دن کے بعد رسول ﷺ کی قبر پر آیا اور وہاں کی مٹی اپنے سر پر ڈالی اور رسول ﷺ سے مخاطب ہو کر کہا: یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا ہے اور ہم نے آپ سے سنا ہے۔ آپ نے یہ حکم اللہ سے پایا ہے اور ہم نے یہ حکم آپ سے پایا ہے (یعنی قران)۔ اور اس میں ایک حکم یہ ہے کہ "ولو انھم اذ ظلموا انفسھم" یہ سچ ہے کہ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، چنانچہ اب آپ میرے لیے استغفار فرمائیے۔ (یہی واقعہ تفسیر ابن کثیر میں اسی آیت کے تحت موجود ہے)
1 comments:
ماشاء اللہ
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔