جہاد کا شرعی مفہوم
شرعی اِصطلاح میں جہاد کا معنی اپنی تمام تر جسمانی، ذہنی، مالی اور جانی صلاحیتوں کو اللہ کی رضا کی خاطر نیکی اور بھلائی کے کام میں وقف کر دینا ہے۔ گویا بندے کا اپنی تمام تر ظاہری و باطنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو اَعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے اللہ کی راہ میں صرف کرنے کو جہاد کہا جاتا ہے۔ اگرچہ جہاد کا مذکورہ مفہوم اس کی لغوی بحث میں قدرے تفصیل سے درج کیا جا چکا ہے مگر تصور کی وضاحت کے لیے اِس حوالے سے چند اَئمہ کی مزید تصریحات ملاحظہ ہوں۔
1۔ امام جرجانی (740-816ھ) کے نزدیک جہاد کی تعریف درج ذیل ہے:
هُوَ الدُّعَاءُ إِلَی الدِّيْنِ الْحَقِّ.
جرجانی، کتاب التعريفات: 112
’’جہاد دینِ حق کی طرف دعوت دینے سے عبارت ہے۔‘‘
2۔ سید محمود آلوسی البغدادی (م1270ھ) تفسیر ’روح المعانی‘ میں لفظِ جہاد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:
إِنَّ الْجِهَادَ بَذْلُ الْجُهْدِ فِي دَفْعِ مَا لَا يُرْضٰی.
آلوسی، روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی، 10: 137
کسی ناپسندیدہ اور ضرر رساں شے کو دور کرنے کے لیے کوشش کرنے کا نام جہاد ہے۔
شرعی مفہوم کی مزید تفصیل اَلْبَابُ الثَّانِي میں اَئمہ کے اَقوال و آثار میں ملاحظہ فرمائیں۔
3۔ شیخ علی احمد الجرجاوی اپنی کتاب ’حکمۃ التشریع وفلسفتہ (2 : 330)‘ میں جہاد کے مفہوم اور مقصود کو واضح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
اَلْجِهَادُ فِي الإِْسْلَامِ هُوَ قِتَالُ مَنْ يَسْعَونَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا لِتَقْوِيْضِ دَعَائِمِ الأَمْنِ وَإِقْلَاقِ رَاحَةِ النَّاسِ وَهُمْ اٰمِنُونَ فِي دِيَارِهِمْ أَوِ الَّذِيْنَ يُثِیرُوْنَ الْفِتَنَ مِنْ مَکَامِنِهَا إِمَّا بِإِِلْحَادٍ فِي الدِّيْنِ وَخُرُوْجٍ عَنِ الْجَمَاعَةِ وَشَقِّ عَصَا الطَّاعَةِ أَوِ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ إِطْفَاءَ نُوْرِ اﷲِ وَيَنْاؤَوْنَ الْمُسْلِمِيْنَ الْعَدَاءَ وَيُخْرِجُوْنَهُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ ويَنْقُضُونَ الْعُهُوْدَ ويَخْفِرُوْنَ بِالذِّمَمِ. فَالْجِهَادُ إِذَنْ هُوَ لِدَفْعِ الْأَذَی وَالْمَکْرُوهِ وَرَفْعِ الْمَظَالِمِ وَالذَّوْدِ عَنِ الْمَحَارِمِ.
’’اِسلام میں جہاد کا مفہوم ان لوگوں کی سرکوبی کرنا ہے جو بناء اَمن کو تباہ و برباد کرنے، اِنسانوں کے آرام و سکون کو ختم کرنے اور اﷲ کی زمین میں فساد انگیزی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خصوصاً اُس وقت جب لوگ اپنے گھروں میں انتہائی پُرسکون زندگی بسر کر رہے ہوں (یعنی Civilians اور Non-Combatants ہوں)۔ یا ان لوگوں کے خلاف جد و جہد کرنا جو پوشیدہ جگہوں اور خفیہ طریقوں سے (اَمنِ عالم کو تباہ کرنے کے لیے) فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتے ہیں، خواہ (یہ کاوش) کسی کو دین سے منحرف کرنے کی صورت میں ہو یا جماعت سے باغی کرنے اور اطاعت کی زندگی سے رُوگردانی کرنے کے لیے ہو یا ان لوگوں کے خلاف ہو جو اﷲ کے نور کو (ظلم و جبر سے) بجھانا چاہتے ہوں اور مسلمانوں کو جنہیں وہ اپنا دشمن قرار دیتے ہیں (اپنے وطن سے نکال کر) دور بھگانا چاہتے ہوں اور انہیں اپنے ہی گھروں سے بے گھر کرتے ہوں، عہد شکنی کرتے ہوں اور باہمی اَمن و سلامتی کے معاہدات کی پاس داری نہ کرتے ہوں۔ غرضیکہ جہاد اِنسانیت کے لیے اَذیت و تکلیف دہ ماحول اور ناپسندیدہ، ظالمانہ اور جابرانہ نظام کو ختم کرنے اور محارم کی حفاظت کرنے کا نام ہے۔‘‘
مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں لفظ جہاد کا مفہوم یہ ہوگا کہ کسی بھی نیکی اور بھلائی کے کام کے لیے جد و جہد میں اگر اِنتہائی طاقت اور محنت صرف کی جائے اور حصولِ مقصد کے لیے ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کی جائے، تو اس کوشش کو جہاد کہیں گے۔ جہاد کا مقصد نہ تو مالِ غنیمت سمیٹنا ہے اور نہ ہی اس کا مقصد ملک و سلطنت کی توسیع ہے۔ توسیع پسندانہ عزائم اور ہوسِ ملک گیری (hegemony and expansionism) کا کوئی تعلق اِسلام کے فلسفہ جہاد سے نہیں اور نہ ہی دہشت گردی کا جہاد سے کوئی دور کا واسطہ ہے۔
اِسلامی ریاست پُراَمن شہریوں کے جان، مال اور عزت و آبرو کی محافظ ہے۔ فتنہ و فساد، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے خاتمہ، سرکشی و بغاوت کی سرکوبی، ظلم و بربریت، درندگی، ناانصافی، ناحق اِنسانی خونریزی، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے خلاف راست اقدام کرنا اِنسانی حقوق کے چارٹر (Charter of Human Rights)کے مطابق نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے تاکہ اﷲ کی زمین ہر قسم کے فتنہ و فساد سے پاک ہو، اَمن بحال ہو اور قیامِ عدل (establishment of justice) کے لیے راہ ہموار ہو جائے۔ معاشرے کو اَمن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے لیے جہاد یعنی قیامِ اَمن اور اقامتِ حق کے لیے جہدِ مسلسل اور عمل پیہم بجا لانا ہر مومن پر فرض ہے۔ جہاد محض جنگ یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں بلکہ اِسلام نے تصورِ جہاد کو بڑی وسعت اور جامعیت عطا کی ہے۔ اِنفرادی سطح سے لے کر اِجتماعی سطح تک اور قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اَمن و سلامتی، ترویج و اِقامتِ حق اور رضاء اِلٰہی کے حصول کے لیے مومن کا اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی و تخلیقی صلاحیتیں صرف کر دینا جہاد کہلاتا ہے۔
عربی لغت کے مطابق سرزمینِ عرب میں قبل اَز اِسلام دورِ جاہلیت میں جنگ کے لیے جو تراکیب، محاورے، علامتیں، اِستعارے اور اِصطلاحات استعمال ہوتی تھیں، ان سب سے بلاشبہ وحشیانہ طرزِ عمل اور دہشت گردی کا تاثر اُبھرتاتھا۔ عسکری لٹریچر کی اِصلاح کے لیے اِسلام نے ان تمام الفاظ اور محاوروں کو ترک کرکے اِصلاحِ اَحوال کی جدوجہد کی طرح دفاعی جنگ کو بھی ’جہاد‘ کا عنوان دیا۔ یعنی اِسلامی نکتہِ نظر سے لفظِ جہاد کا اِطلاق اَعلیٰ و اَرفع مقاصد کے حصول، قیامِ اَمن، فتنہ و فساد کے خاتمہ اور ظلم و ستم، جبر و تشدد اور وحشت و بربریت کو مٹانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروے کار لانے پر ہوتا ہے۔ حقیقی مسلمان وہ ہے جو ساری زندگی جھوٹ، منافقت، دجل و فریب اور جہالت کے خاتمہ کے لیے اِبلیسی قوتوں سے مصروفِ جہاد رہتا ہے۔ لفظِ جہاد کے حقیقی معنی سے لوٹ مار، غیظ و غضب اور قتل و غارت گری کی بُو تک نہیں آتی بلکہ اس کا معنی پاکیزہ مقاصد کے حصول کی کاوشوں پر دلالت کرتاہے۔ ایک مہذب، شائستہ اور بلند عزائم رکھنے والی صلح جو اور اَمن پسند قوم کی عظیم جد و جہد کے لیے لفظِ جہاد سے بہتر کوئی دوسرا لفظ نہیں ہو سکتا۔ جہاد اپنے وسیع تر معانی میں وقتی یا ہنگامی عمل نہیں بلکہ مہد سے لے کر لحد تک مردِ مومن کی پوری زندگی پر محیط تصورِ حیات ہے۔ وہ لمحہ جو اِحترامِ آدمیت اور خدمتِ انسانیت کے جذبہ سے خالی ہے، اِسلام کے لیے قابل قبول نہیں اور نہ ہی جہاد کے نام سے موسوم ہو سکتا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔