نبی کریم ﷺ کا مقتولین بدر مردہ کفّار سے خطاب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صحیح بخاری، کتابِ المغازی، باب قتل ابی جہل:
حدثني عبد الله بن محمد سمع روح بن عبادة حدثنا سعيد بن أبي عروبة عن قتادة قال ذكر لنا أنس بن مالك عن أبي طلحة
أن نبي الله صلى الله عليه وسلم أمر يوم بدر بأربعة وعشرين رجلا من صناديد قريش فقذفوا في طوي من أطواء بدر خبيث مخبث وكان إذا ظهر على قوم أقام بالعرصة ثلاث ليال فلما كان ببدر اليوم الثالث أمر براحلته فشد عليها رحلها ثم مشى واتبعه أصحابه وقالوا ما نرى ينطلق إلا لبعض حاجته حتى قام على شفة الركي فجعل يناديهم بأسمائهم وأسماء آبائهم يا فلان بن فلان ويا فلان بن فلان أيسركم أنكم أطعتم الله ورسوله فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا فهل وجدتم ما وعد ربكم حقا قال فقال عمر يا رسول الله ما تكلم من أجساد لا أرواح لها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفس محمد بيده ما أنتم بأسمع لما أقول منهم
قال قتادة أحياهم الله حتى أسمعهم قوله توبيخا وتصغيرا ونقيمة وحسرة وندما
ترجمہ: حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے انس بن مالک نے بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ ابو طلہ نے کہا کہ جنگ بدر کے دن نبیﷺ نے چوبیس سرداران قریش کی لاشوں کو کنویں میں پھینک دئے جانے کا حکم دیا اور ان کی لاشیں بدر کے کنوؤں میں سے ایک گندے کنویں میں پھینک دی گئیں۔ آپﷺ کا قاعدہ تھا کہ جب آپﷺ کسی قوم پر غالب آ جاتے تھے تو وہاں تین دن قیام فرماتے تھے۔ جب بدر کے مقام پر تیسرا دن آیا تو آپ ﷺ نے حکم دیا اور آپ ﷺ کی اونٹنی پر کجاوہ کسا گیا۔ پھر آپ پیدل روانہ ہوئے اور آپ ﷺ کے اصحاب بھی آپ ﷺ کے ساتھ چلے اور انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی کسی ضرورت کے لئے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کنویں کے کنارے کھڑے ہو گئے اور ان مشرکوں کو ان کے اور ان کے باپ داداؤں کے نام سے آواز دینے لگے کہ اے فلاں ابن فلانِ اے فلاں ابن فلاں(صحیح مسلم، کتاب "الجنہ و صفت نعیمھا و اہلھا"، میں ان کے نام یوں آئیں ہیں "یا ابو جہل بن ہشام، یا امیہ بن خلف، یا عتبہ" ) ! کیا تم کو یہ بہتر معلوم نہیں ہوتا کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی ہوتی؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے سچا پایا۔ تو کیا تم نے بھی وہ وعدہ سچا پایا جو تمہارے رب نے تم سے کیا تھا؟ ابو طلحہ نے کہا اس وقت جنابِ عمر رسول ﷺ سے کہا: یا رسول اللہ! آپ ان جسموں سے مخاطب ہیں کہ جن میں روح نہیں ہے۔ اس پر رسول ﷺ نے جواب دیا: اے عمر! اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے کہ تم اتنا بہتر نہیں سن سکتے جتنا کہ یہ سن رہے ہیں۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ ان لوگوں سے مخاطب ہوئے جو کہ کنویں میں (دفنائے) گئے تھے اور کہا::"کیا اب تمہیں پتا چلا کہ اللہ نے تم سے جو وعدہ کیاتھا وہ سچا تھا؟" اس پر کسی نے پوچھا: کیا آپ مردوں کو پکار رہے ہیں!" رسول ﷺ نے جواب دیا: "تم ان سے بہتر نہیں سن سکتے ہو، مگر یہ کہ یہ تمہیں جواب نہیں دے سکتے۔"صحیح بخاری، کتاب الجنائز
ابن شہاب روایت کرتے ہیں:جب کفار کی مردہ جسموں کو کنویں میں پھینکا جا رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں مخاطب ہو کر فرمایا: "کیا اب تمہیں پتا چلا کہ تمہارے رب نے جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ سچا تھا؟" عبدللہ نے کہا: "اس پر کچھ اصحاب نے کہا: "یا رسول اللہ! آپ مردہ لوگوں سے مخاطب ہیں۔" اس پر رسول ﷺ نے جواب دیا: "تم اتنا بہتر نہیں سن سکتے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں جتنا کہ یہ مردے سن رہے ہیں۔۔۔""صحیح بخاری، کتاب المغازی
غور فرمائیے کہ رسول اللہ ﷺ ان کفار سے مخاطب ہیں جو کہ کنویں میں مردہ پڑے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی فرما رہے ہیں کہ یہ مردے اُن کا خطاب صحابہ رضی اللہ عنہم سے بہتر طور پر سن رہے ہیں جو کہ اُسوقت نبی کریم ﷺ کے ہمراہ موجود تھے۔
ذرا تصور کریں کہ آپ زندہ ایک کنویں میں ڈال دیے جائیں، تو کیا آپ کوئی پکار سن سکیں گے؟ اگر نہیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ قریب کی یا دور کی پکار روحوں کے معاملے میں کوئی وقعت نہیں رکھتی اور یہ فاصلے صرف اس وقت فرق ڈالتے ہیں جبکہ انسان زندہ ہوتا ہے۔ مگر ارواح کے لیئے فاصلے بے معنی ہیں کیونکہ ان کے پکار سننے یا جاننے کا ذریہ وہ نہیں جو زندہ انسانوں کا ہے۔
اور اس پر بھی غور فرمائیے کہ جب نبی کریم ﷺ مردہ کفار کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں: "یا ابو جہل۔۔۔، یا امیہ۔۔۔، یا عتبہ۔۔"۔ منکرین حضرات کو اپنے ڈبل سٹینڈرڈز پر غور کرنا چاہیے کہ جب نبی کریم ﷺ یہ کہیں تو جائز، مگر جب ہم "یا رسول اللہ ﷺ" کہیں تو یہ بدترین شرک قرار پائے آخری کیوں ؟
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔