Pages

Wednesday 21 September 2016

طہارتِ نسب پاک مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اظہار

طہارتِ نسب پاک مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا اظہار
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی متعدد مواقع پر اپنے نسب کی طہارت کی اس فردیت کو بیان فرمایا۔

حضرت عباس ابن عبد المطلب حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں آئے اور کوئی بات جو انہوں نے لوگوں سے سنی تھی (وہ خود اس پر بڑے رنجیدہ تھے) اس بات کی خبر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی وقت منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا:

مَنْ اَنَا؟ فَقَالُوا: اَنْتَ رَسُولُ اﷲِ عَلَيْکَ السَّلَامُ. قَالَ: اَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنَّ اﷲَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيلَةً ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا وَخَيْرِهِمْ نَسَبًا.

’’میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین مخلوق (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس بہترین مخلوق کے دو حصے (عرب و عجم) کئے اور ان دونوں میں سے بہترین حصہ (عرب) میں مجھے رکھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس حصے کے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے رکھا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں رکھا‘‘۔

(ترمذی، السنن، 5: 543، رقم: 3532)

اس حدیث میں آقا علیہ السلام نے اپنی نبوت و رسالت اور احکام شریعت کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ صرف اپنی ذات، اپنی ولادت، اپنے نسب، اپنے گھرانے، اپنے آبا و اجداد اور اپنے قبیلہ کا تذکرہ کیا۔ یہ سارا بیان میلاد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشتمل ہے۔

حضرت واثلہ بن اسقع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اﷲَ اصْطَفَی کِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ وَاصْطَفَی قُرَيْشًا مِنْ کِنَانَةَ وَاصْطَفَی مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ.

(مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، بَابُ فَضْلِ نَسَبِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم 4:1782، رقم: 2276)

’’اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں کنانہ کو فضیلت دی، اور کنانہ میں سے قریش کو فضیلت دی اور قریش میں سے بنوہاشم کو فضیلت دی اور بنوہاشم میں سے مجھ کو فضیلت دی‘‘۔

یہ بیان بھی میلاد مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے۔

سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نسب کی طہارت پر ارشاد فرمایا:

خرجت من نکاح ولم اخرج من سفاح من لدن آدم إلی أن ولدنی ابی وأمی.

(طبرانی، الأوسط، 5: 80، رقم: 4728)

میرا تولد نکاح سے رہا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اپنے والدین کریمین تک جتنی پشتیں گزری ہیں، ہر پشت اور ہر نسل میں جو میرے آباء و امہات تھے ان کا سلسلہ تولد نکاح سے رہا ہے۔

سفاح یعنی میرے پورے سلسلہ نسب میں کہیں بھی بدکاری نہیں رہی اور یہ رشتہ نکاح کی طہارت آدم علیہ السلام سے لے کر میرے والد حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ اور میری والدہ حضرت آمنہ کے رشتہ ازدواج تک قائم رہی۔ پورے نسب کو اللہ پاک نے نکاح کے مقدس تعلق میں پرویا ہے اور دور سفاح اور دور جاہلیت کی خرابی سے پاک رکھا ہے۔

قرآن مجید میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی شان فردیت (انفرادیت) کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِيْنَo

اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے۔

(الشعراء، 26: 219)

یعنی ہم آپ کو سجدہ گزاروں میں نسلاً بعد نسلٍ منتقل کرتے لائے ہیں ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

من صلب نبی إلی صلب نبی حتی أخرجه نبيا.

(ابن کثير، تفسير، 3: 353)

نبی سے نبی کی صلب تک (پاک سے پاک صلب تک) آپ کا پورا سلسلہ نسب رہا۔ حتیٰ کہ آپ کی شان نبوت کے ساتھ ولادت ہوئی۔

طبرانی نے اس قول کو یوں روایت کیا کہ

نبي إلی نبي حتی أخرجت نبيا.

(طبرانی، المعجم الکبیر، 11: 362)

امام ہیثمی نے کہا کہ رجالھما رجال الصحیح۔ ان دونوں روایتوں کے جو رجال ہیں وہ صحیح ہیں۔

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

ما ولدنی من سفاح أهل الجاهلية شيئ. ما ولدني إلا نکاح کنکاح الإسلام.

میرے والدین سے لے کر حضرت آدم علیہ السلام تک میرے پورے نسب میں کسی ایک جگہ بھی دور جاہلیت کی آلودگی نے نہیں چھوا۔ میرے والدین اسلام کے نکاح کے رشتے میں جڑتے رہے (اور اس میں کوئی ناجائز رشتہ ہزاروں سال کی تاریخ میں نہ ہوا۔)

(بغوی، تفسير، 2: 341)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔