Pages

Sunday 25 September 2016

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کب سے نبی ہیں اور آپ کو اپنی نبوت کا علم تھا

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کب سے نبی ہیں اور آپ کو اپنی نبوت کا علم  تھا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنْ عُمَرَ رضي اﷲ عنه قاَلَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی جُعِلْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ : وَآدَمُ مُنْجَدِلٌ فِي الطِّيْنِ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ کَمَا ذَکَرَ السَّيُوْطِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ.

ایک اور روایت میں حضرت عمر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کو کب نبی بنایا گیا؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب حضرت آدم عليہ السلام (کا جسم ابھی) مٹی میں گندھا ہوا تھا۔

امام سیوطی اور ابن کثير نے فرمایا کہ اسے امام ابونعيم نے روایت کیا ہے۔

عَنْ عَامِرٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَتَی اسْتُنْبِئْتَ؟ فَقَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ حِيْنَ أُخِذَ مِنِّيَ الْمِيْثَاقُ.

رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.

اور ایک روایت میں حضرت عامر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ کب شرفِ نبوت سے سرفراز کیے گئے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب مجھ سے میثاقِ نبوت لیا گیا تھا اس وقت حضرت آدم عليہ السلام روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھے۔

اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

عَنْ أَبِي مَرْيَمَ (سَنَانَ)، قَالَ : أَقْبَلَ أَعْرَابِيٌّ حَتَّی أَتَی رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ قَاعِدٌ وَعِنْدَهُ خَلْقٌ مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ : أَلاَ تُعْطِيْنِي شَيْئًا أَتَعَلَّمُهُ وَأَحْمِلُهُ وَيَنْفَعُنِي وَلَا يَضُرُّکَ؟ فَقَالَ النَّاسُ : مَهْ، اِجْلِسْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : دَعَوْهُ، فَإِنَّمَا يَسْأَلُ الرَّجُلُ لِيَعْلَمَ، قَالَ : فَأَفْرَجُوْا لَهُ، حَتَّی جَلَسَ، قَالَ : أَيُّ شَيئٍ کَانَ أَوَّلَ أَمْرِ نُبُوَّتِکَ؟ قَالَ : أَخَذَ اﷲُ مِنِّي الْمِيْثَاقَ، کَمَا أَخَذَ مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ. ثُمَّ تَلاَ : {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوْحٍ وَإِبْرَاهِيْمَ وَمُوْسَی وَعِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيْثَاقًا غَلِيْظًا} الأحزاب، 33 : 7 وَبَشَّرَ بِيَ الْمَسِيْحُ بْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَتْ أُمُّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَنَامِهَا أَنَّهُ خَرَجَ مِنْ بَيْنَ رِجْلَيْهَا سِرَاجٌ أَضَاءَ تْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالشَّيْبَانِيُّ.

طبراني في المعجم الکبير، 22 / 333، الرقم : 835، وفي مسند الشاميين، 2 / 98، الرقم : 984، والشيباني في الأحاد والمثاني، 4 / 397، الرقم : 2446، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 8، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 224، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 323.

حضرت ابو مریم (سنان) رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ کے پاس بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ تو اس نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) کیا آپ مجھے کوئی ایسی شے نہیں دیں گے کہ میں جس سے سیکھوں اور اسے سنبھالے رکھوں اور جو مجھے فائدہ پہنچائے اور آپ کو کوئی نقصان نہ دے؟ تو لوگوں نے کہا : رک جاؤ، بیٹھ جاؤ، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے چھوڑ دو، بے شک جب کوئی شخص کسی شے کے بارے میں سوال کرتا ہے تو اس لئے کرتا ہے کہ اسے اس شے کا علم ہو جائے، فرمایا : اس کے لئے (بیٹھنے کی) جگہ بناؤ، یہاں تک کہ وہ بیٹھ گیا۔ اس نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کی علاماتِ نبوت میں سے پہلی چیز کیا تھی؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میثاق (عہد) لیا جیسا کہ دیگر انبیاء کرام عليہم السلام سے ان کا میثاق لیا۔ پھر آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’ اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور عیسی بن مریم (عليہ السلام ) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا۔‘‘ اور عیسیٰ بن مریم عليہ السلام نے میری بشارت دی اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی والدہ محترمہ نے اپنے خواب میں دیکھا (کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے وقت) اُن کے بدن اطہر سے ایک ایسا چراغ روشن ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔

اسے امام طبرانی اور شیبانی نے روایت کیا ہے۔

عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِيْلِ ذَلِکَ، دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، وَبِشَارَةُ عِيْسَی قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَ تْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ، وَکَذَلِکَ تَرَی أُمَّهَاتُ النَّبِيِّيْنَ صلوات اﷲ عليهم أجمعين.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 127.128، الرقم : 17190، 17203، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4175، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 90، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1 / 168، والطبری في جامع البيان، 28 / 87، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، 4 / 361، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 7، وفي الدر المنثور، 1 / 334.

حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں، لوحِ محفوظ میں ہی خاتم الانبیاء ہوں، درآں حالیکہ حضرت آدم عليہ السلام اس وقت مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں عنقریب تمھیں اس کی تاویل بتاؤں گا، میں اپنے والد حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا، حضرت عیسیٰ عليہ السلام کی اپنی قوم کو دی گئی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کا وہ خواب ہوں جس میں انہوں نے دیکھا کہ ان کے بدن سے ایک ایسا نور نکلا ہے جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے اور اسی طرح انبیائے کرام کی مائیں (مبارک خواب) دیکھا کرتی ہیں۔

اس حديث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حديث صحيح الاسناد ہے۔

عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عِنْدَ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَأْوِيْلَ ذَلِکَ : دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، دَعَا : {وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} ]البقرة، 2 : 129[، وَبِشَارَةُ عِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ قَوْلُهُ : {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ}، الصف، 61 : 6. وَرُؤْيَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيَُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ.

ابن حبان فی الصحيح، 14 / 312، الرقم : 6404، والطبرانی في المعجم الکبير، 18 / 253، الرقم : 631، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 40، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 149، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 583، والطبري في جامع البيان، 6 / 583، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، وفي البداية والنهاية، 2 / 321، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 512، الرقم : 2093، وفي مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال : واحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح غير سعيد بن سويد وقد وثّقه ابن حبان.

حضرت عرباض بن ساریہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جبکہ حضرت آدم عليہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ جب میرے جدِ امجد حضرت ابراہیم عليہ السلام نے دعا کی : ’’اے ہمارے رب! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) مبعوث فرما۔‘‘ اور حضرت عیسی بن مریم عليہ السلام کی بشارت کے بارے میں بھی جبکہ انہوں نے کہا : ’’اور اُس رسولِ (معظم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کی (آمد آمد کی) بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘ اور میری والدہ محترمہ کے خواب کے بارے میں جبکہ انھوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔