Pages

Saturday, 10 September 2016

مردہ قدموں کی آہٹ سنتا ہے پہچانتا ہے اور سلام کا جواب بھی دیتا

مردہ قدموں کی آہٹ سنتا ہے پہچانتا ہے اور سلام کا جواب بھی دیتا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صحیح مسلم، کتاب الجنائز:و حدثنا ‏ ‏محمد بن منهال الضرير ‏ ‏حدثنا ‏ ‏يزيد بن زريع ‏ ‏حدثنا ‏ ‏سعيد بن أبي عروبة ‏ ‏عن ‏ ‏قتادة ‏ ‏عن ‏ ‏أنس بن مالك ‏ ‏قال ‏۔ قال رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏إن الميت إذا وضع في قبره إنه ليسمع ‏ ‏خفق ‏ ‏نعالهم إذا انصرفوا

حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:رسول ﷺ نے فرمایا: جب مردہ جسم کو قبر میں دفنایا دیا جاتا ہے، تو وہ ان لوگوں کے قدموں کی آہٹیں سنتا ہے (جو اسے دفنا کر واپس جا رہے ہوتے ہیں)

اور صحیح بخاری میں انس ابن مالک سے یہ روایت ہے:

رسول ﷺ نے فرمایا: رسول ﷺ نے فرمایا: "جب مردے کو قبر میں دفنایا جاتا ہے اور اُسکے اصحاب واپس پلٹتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی چاپ سنتا ہے۔ اور دو فرشتے اسکے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھا دیتے ہیں اور یہ سوال کرتے ہیں: "تم اس آدمی (رسول ﷺ) کے متعلق کیا کہتے ہو؟" وہ کہتا ہے: "میں گواہی دیتا ہوں کو وہ اللہ کے عبد ہیں اور رسول ہیں۔" پھر اس سے کہا جاتا ہے: "دوزخ میں ذرا اپنی جگہ دیکھو، مگر اللہ نے اسکی بجائے تمہیں جنت دی ہے۔" پھر رسول ﷺ نے مزید فرمایا: "مردہ اپنی دونوں جگہیں دیکھتا ہے، مگر کافر یا منافق فرشتوں سے کہتا ہے: "میں نہیں جانتا، مگر میں وہی کہا کرتا تھا جو کہ دوسرے لوگ کہتے تھے۔" اس پر اُس سے کہا جائے گا: "نہ تم نے یہ جانا اور نہ تم نے (قران) سے ہدایت حاصل کی۔" پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کی سلاخ سے چوٹ ماری جائے گی اور وہ چیخے گا۔ اور اِس کی یہ چیخ ہر مخلوق سنے گی سوائے جنات اور انسانوں کے۔"صحیح بخاری، کتاب الجنائز

بتائیے کہ اگر آپ کو زندہ قبر میں اتار دیا جائے تو کیا آپ بھی قدموں کی چاپ سنیں گے؟

اور دوسرا غور کریں کہ جب یہ مردہ چیخ مارتا ہے تو تمام مخلوقات اس چیخ کو سن سکتے ہیں سوائے جنات اور انسانوں کے۔ (اگلی حدیث میں آپ کو واضح ہو گا کہ انسان یہ چیخ کیوں نہیں سن سکتا)۔
مردہ لوگوں کو شعور ہوتا ہے اور وہ زندہ لوگوں کو دیکھتے ہیں جو انہیں قبرستان لیجا رہے ہوتے ہیں اور ان کو پکارتے ہیں

صحیح بخاری، کتاب الجنائز:حدثنا ‏ ‏قتيبة ‏ ‏حدثنا ‏ ‏الليث ‏ ‏عن ‏ ‏سعيد بن أبي سعيد ‏ ‏عن ‏ ‏أبيه ‏ ‏أنه سمع ‏ ‏أبا سعيد الخدري ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏يقول ‏قال رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها يسمع صوتها كل شيء إلا الإنسان ولو سمعها الإنسان ‏ ‏لصعق ‏۔

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے اور لوگ اسے اپنے کندھوں پر بلند کرتے ہیں، تو اگر مرنے والا نیک شخص ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے: "مجھے آگے لے کر چلو"۔ اور اگر مرنے والا نیک شخص نہیں ہوتا تو وہ کہتا ہے: "وائے ہو تم پر، کہ تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟" اور اس کی یہ آواز ہر مخلوق سنتی ہے سوائے انسانوں کے۔ اور اگر انسانوں کو ان کی یہ آواز سنا دی جائے تو وہ بیہوش ہو کر گر پڑیں۔

غور فرمائیں:
(1) مردوں کو یہ شعور ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

(2) وہ زندوں کی آوازیں سن رہے ہیں اور ان کے حرکات سے آگاہی رکھتے ہیں۔

کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ مردے نہیں سنتے؟
نبی کریم ﷺ کی وہ تمام احادیث جن میں آپ نے فرمایا ہے کہ مردوں کو کیسے مخاطب کر کے سلام کرنا ہے جب مسلمانوں کا گذر قبرستان سے ہو

رسول اللہ ﷺ سے بہت سی احادیث مروی ہیں کہ جن میں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جب ان کا گذر قبرستان سے ہو تو وہ "االسلام علیکم یا اھل القبور" کہہ کر مردوں کو سلام کیا کریں۔ ذیل میں چند احادیث درج ہیں:

سنن الترمذي، کتاب الجنائز ، باب ما یقول الرجل اذا دخل المقابر:حدثنا ‏ ‏أبو كريب ‏ ‏حدثنا ‏ ‏محمد بن الصلت ‏ ‏عن ‏ ‏أبي كدينة ‏ ‏عن ‏ ‏قابوس بن أبي ظبيان ‏ ‏عن ‏ ‏أبيه ‏ ‏عن ‏ ‏ابن عباس ‏ ‏قال ‏مر رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏بقبور ‏ ‏المدينة ‏ ‏فأقبل عليهم بوجهه فقال ‏ ‏السلام عليكم يا أهل القبور يغفر الله لنا ولكم أنتم ‏ ‏سلفنا ‏ ‏ونحن ‏ ‏بالأثر۔

صحیح مسلم ، کتاب الجنائز:حدثنا ‏ ‏يحيى بن يحيى التميمي ‏ ‏ويحيى بن أيوب ‏ ‏وقتيبة بن سعيد ‏ ‏قال ‏ ‏يحيى بن يحيى ‏ ‏أخبرنا ‏ ‏و قال ‏ ‏الآخران ‏ ‏حدثنا ‏ ‏إسمعيل بن جعفر ‏ ‏عن ‏ ‏شريك وهو ابن أبي نمر ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏عائشة ‏ ‏أنها قالت ‏كان رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏كلما كان ليلتها من رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يخرج من آخر الليل إلى ‏ ‏البقيع ‏ ‏فيقول ‏ ‏السلام عليكم دار قوم مؤمنين وأتاكم ما توعدون غدا مؤجلون وإنا إن شاء الله بكم لاحقون اللهم اغفر لأهل ‏ ‏بقيع الغرقد ‏ولم يقم ‏ ‏قتيبة ‏ ‏قوله وأتاكم ‏۔

مسلم بشرح النووی:یقوله صلى الله عليه وسلم : ( السلام عليكم دار قوم مؤمنين )دار منصوب على النداء , أي يا أهل دار فحذف المضاف وأقام المضاف إليه مقامه , وقيل : منصوب على الاختصاص , قال صاحب المطالع : ويجوز جره على البدل من الضمير في عليكم . قال الخطابي : وفيه أن اسم الدار يقع على المقابر قال : وهو صحيح فإن الدار في اللغة يقع على الربع المسكون وعلى الخراب غير المأهول , وأنشد فيه .

مسند احمد بن حنبل، مسند ابی ھریرہ، باقی مسند المکثرین:حدثنا ‏ ‏محمد بن جعفر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏شعبة ‏ ‏قال سمعت ‏ ‏العلاء بن عبد الرحمن ‏ ‏يحدث عن ‏ ‏أبيه ‏ ‏عن ‏ ‏أبي هريرة ‏رضی اللہ عنہ عن النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏أنه أتى إلى المقبرة فسلم على أهل المقبرة فقال ‏‏ سلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون ثم قال وددت أنا قد رأينا إخواننا قال فقالوا يا رسول الله ألسنا بإخوانك قال بل أنتم أصحابي وإخواني الذين لم يأتوا بعد وأنا ‏ ‏فرطهم ‏ ‏على الحوض فقالوا يا رسول الله كيف تعرف من لم يأت من أمتك بعد قال أرأيت لو أن رجلا كان له خيل ‏ ‏غر ‏ ‏محجلة ‏ ‏بين ظهراني خيل بهم ‏ ‏دهم ‏ ‏ألم يكن يعرفها قالوا بلى قال فإنهم يأتون يوم القيامة ‏ ‏غرا ‏ ‏محجلين ‏ ‏من أثر الوضوء وأنا ‏ ‏فرطهم ‏ ‏على الحوض ثم قال ألا ‏ ‏ليذادن ‏ ‏رجال منكم عن حوضي كما ‏ ‏يذاد ‏ ‏البعير الضال ‏ ‏أناديهم ألا هلم فيقال إنهم بدلوا بعدك فأقول ‏ ‏سحقا ‏ ‏سحقا

اسی طرح رسول ﷺ سے بہت سی دعائیں منقول ہیں کہ قبرستان میں مردوں کو کیسے سلام کرنا ہے اور کیسے انہیں مخاطب کر کے دعا کرنی ہے۔ مثلاً :

صحیح مسلم کتاب الطہارہ میں ابو ہریرہ سے یہ دعا مروی ہے: " اے قبر کے باسیو! تم پر سلام ہو۔ اور اللہ نے چاہا تو ہم جلد تم سے ملنے والے ہیں۔۔۔۔"

صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ میں حضرت زہیر سے یہ الفاظ مروی ہیں: "سلام ہو تم پر اس شہر (قبرستان) کے رہنے والو جو کہ مومنوں اور مسلمانوں میں سے ہیں۔ اور اللہ نے چاہا تو ہم جلد تم سے ملنے والے ہیں۔ اور ہم اللہ سے تمہارے لیے دعا کرتے ہیں۔"

صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ میں حضرت عائشہ سے یہ الفاظ مروی ہیں: "سلام ہو تم پر اے قبر کے باسیو، جو تم میں ایمان والے ہیں۔ جو تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ تمہیں کل تک مل جائے گا اور اس میں تھوڑا وقت لگے گا۔ اور اللہ نے چاہا تو ہم جلد تم سے ملنے والے ہیں۔"

غور فرمائیں کہ نہ صرف قبر کے مردوں کو خطاب کر کے "یا اہل قبور" کہا جا رہا ہے، بلکہ ان سے پورا خطاب ہے کہ تمہیں وہ کچھ مل رہا ہے جس کا اللہ نے وعدہ کیا تھا اور انشاء اللہ ہم جلد تم سے ملنے والے ہیں۔۔۔۔

یہ وہ عمل ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنی پوری زندگی کیا اور وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر جنت البقیع تشریف لیجایا کرتے تھے۔ اور رسول ﷺ کے بعد تمام صحابہ مردوں سے خطاب کرتے رہے۔۔۔ اور پھر تمام آئمہ، فقہا حتیٰ کہ ہر ہر مسلمان نے مردوں سے یہ خطاب کیا اور آج کے دن تک کرتے آ رہے ہیں۔

تو کیا یہ عقیدہ رکھا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پوری زندگی ایک مشرکانہ اور بیکار عمل کرتے ہوئے گذار دی اس صورت میں کہ آپ مردوں سے مخاطب ہوتے رہے؟ اور کیا رسول ﷺ نے پوری امت کو بھی اس مشرکانہ فعل میں قیامت کے دن تک مبتلا کر دیا؟ (معاذ اللہ)۔

دوسرا یہ کہ رسول ﷺ جنتِ البقیع میں داخل ہو کر صرف ایک مرتبہ سلام کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے کبھی یہ نہیں کیا کہ ہر ہر قبر کے پاس جا کر ہر ہر مردے کو قبر سے نکالا ہو اور پھر سلام کیا ہو تا کہ یہ یقین ہو سکے کہ ہر مردے نے اِن کا سلام سن لیا ہے۔ اور جب ہم بھی قبرستان جاتے ہیں تو تمام مردوں کو ایک مرتبہ ہی سلام کرتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ سب نے ہمارا سلام سنا ہے۔

اس سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے ارواح کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ قریب یا دور کی پکار کو سن سکیں جبکہ یہ طاقت زندہ انسانوں کو نہیں دی گئی ہے۔

اور جو لوگ آجکل "یا رسول اللہ ﷺ" کو شرک سمجھتے ہیں، وہ جان لیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی تمام زندگی مردوں کو "یا اہل القبور" کہہ کر مخاطب فرماتے رہے ہیں۔
صحابی رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو وصیت کرنا کہ دفنانے کے بعد وہاں کچھ دیر ٹہریں تاکہ وہ انکی صحبت سے نفع اٹھا سکیں

صحیح مسلم ، کتاب الایمان میں عمرو بن العاص کے متعلق ہے:عبدالرحمن بن شماسہ المہری کہتے ہیں کہ ہم عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور وہ اس وقت قریب المرگ تھے۔۔۔۔ (عمرو بن العاص اپنے ساتھیوں کو کہتا ہےکہ رسول ﷺ کی وفات کے بعد میں) چند ایسے کاموں کا ذمہ دار ہوں کہ جن کی وجہ سے میں نہیں جانتا کہ میرا کیا حال ہو گا۔ تو جب میں مر جاؤں تو میرے جنازے کیساتھ کوئی رونے چلانے والی نہ ہو اور نہ آگ ہو اور جب مجھے دفن کرنا تو مجھ پر اچھی طرح مٹی ڈال دینا اور میری قبر کے ارد گرد اتنی دیر تک کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ کاٹا جاتا ہے اور اس کا گوشت بانٹا جاتا ہے تاکہ تم سے میرا دل بہلے(اور میں تنہائی میں گھبرا نہ جاؤں) اور دیکھ لوں کہ میں پروردگار کے وکیلوں(فرشتوں ) کو کیا جواب دیتا ہوں۔

4 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

[...خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ھیں ... ]

قارئین! سماع_موتی کےباطل عقیدےکا رد صرف سورہ نمل اور فاطرکی آیتوں پرھی موقوف نہیں بلکہ قرآن کی متعدد آیات جوبیان کرتی ھیں کہ مردےقیامت کےدن ھی دوبارہ زندہ کیئےجائیں گےاس گمراہ کن عقیدے کا رد کرتی ھیں-کیونکہ سماع کیلئے حیات شرط ھے،اورجب مردے قیامت سے پہلےزندہ ھی نہیں ھونگےتو پھرسننےسنانےکاسوال ھی پیدا نہیں ھوتا-ملاحظہ ھو: ‏‎)‎البقرةآیت 28، مومنون آیت16،مومن آیت11...)اب رھی مردوں گےسننےکاعقیدہ رکھنےوالوں کی یہ کنفیوژن کہ اگرمردےنہیں سنتےتو پھرصالح اور شعيب عليهماالسلام نے اپنی مردہ قوم سےکیوں مخاطب ھوئے.؟ اسکاجواب یہ ھےکہ جب اصول متعین ھےکہ مردے قیامت سےپہلےزندہ نہیں ھونگےاور بغیر زندگی کےسننےکاسوال ھی پیدا نہیں ھوتا تو اب اسطرح کی آیت یاحدیث جس میں مردہ یاجماد (پتھر،بت وغیرہ) سےکلام کیاگیاھواسےسننے پرھرگز محمول نہیں کیاجائیگا- جیسےعمررضی الله عنه کاحجراسود سےکلام کرنا،ابراھیم عليه السلام كا بتوں سےکلام کرنا یا صالح اورشعيب علیهماالسلام کااپنی مردہ قوم سےمخاطب ھونا وغیرہ....البتہ معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتا- جیسےقلیب بدرکےمردوں کا نبی عليه السلام کی بات سننا- [عن عبدالله بن عمر....انهم الآن يسمعون مااقول]_ حدیث میں"الآن" کا لفظ واضح کررھاھےکہ قلیب بدرکےمردوں کاسنناخاص اس وقت تھا ھر وقت نہیں،اورانس رضی الله عنه سےاس واقعہ کو روایت کرنےوالےان کےشاگرد ‏ قتادة رحمه الله کےالفاظ بخاری لائےھیں "احياهم الله" ترجمه:‏‎ ‎الله نےانہیں زندہ کردیا-ظاھرھےقبل ازقیامت زندہ ھونا معجزہ ھےمعمول نہیں- غورطلب نکتہ یہ ھےکہ اگرصحابه "میت" کے سننےکےقائل ھوتےتو قتادہ رحمه الله کو یہ وضاحت کرنےکی ضرورت ھی پیش نہ آتی ___لہذا ثابت ھواکہ جوسننامانتےتھےوہ بطورمعجزہ مانتےتھےعام نہیں.اور عائشہ رضی الله عنھااورعبدالله بن عمررضی الله عنهما کےمابین اختلاف اس واقعےکےمعجزہ ھونےیا نہ ھونےمیں ھی تھا نہ كہ مطلق سماع موتی میں .....امت کی بدنصیبی کہ ان تمام تر تفصیلات کےباوجود اکابرین دیوبند،بریلوی اور اہلحدیث نےعلمی فریب کاری کےذریعےھرمردے کو زندہ اورسننےوالا قرار دیکر معجزے کو معمول بنادیا-
نتیجتا" قرآن کےبیان کردہ عام قانون دو زندگی دو موت سےصرف قلیب بدر کےمردے ھی نہیں بلکہ تمام مردے مستثنی‎(exempted)‎‏ ھوگئے اب قرآن کی وہ آیت جس میں دو زندگی دو موت کاقانون بیان ھواھےمحض تلاوت کیلئےھےاسکا اطلاق‎ (implement)‎‏ قبرمیں مدفون کسی مردہ لاشے پرنہیں ھوگا____کیونکہ ان سب کا عقیدہ ھےکہ " دفن کےبعد ھرمردہ لاشہ دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی چاپ سنتا ھے"__
قارئین! جسطرح معجزےکا انکارالله کی قدرت کا انکارہےویسےہی معجزےکومعمول بنانا الله کےقانون کا انکار اورمذاق ہے،چنانچہ الله کےقانون کا صریح انکارکرنےاورمذاق اڑانےکا خمیازہ یہ الله کےعذاب کی شکل میں صدیوں سےبھگت رھےھیں اور آخرت کا ابدی عذاب الگ ھے-
(نوٹ) اس موضوع پرتفصیلی مطالعےکیلئے ڈاکٹرعثمانی رحمةالله عليه کےکتابچے"عذاب_برزخ" اور"ایمان_خالص، دوسری قسط کامطالعہ فرمائیں- - ‏www.islamic-belief.net

شرک کا رد نے لکھا ہے کہ

جناب! ھمارے کمنٹ میں غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی الفاظ نہیں ہیں اگر آپ کو کسی لفظ کو سمجھنے میں کوئی مغالطہ ھوا ھے تو نشاندہی کریں

Ishaq Qureshi نے لکھا ہے کہ

الحمد للہ
سماع موتیٰ کا عقیدہ برحق ہے۔

Ishtiaq Attari نے لکھا ہے کہ

"مردے کو اِس بات کی پہچان ہوتی ہے کہ اُسے کون غسل دے رہا ہے اور کون اس کو اُٹھا رہا ہے نیز اسے قبر میں کون اُتارتا ہے ۔" (مُسْنَد اِمام اَحمَد بن حنبل، حدیث 10997 )

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھائے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جا رہے ہو۔ اس کی یہ آواز انسان کے سوا ہر اللہ کہ مخلوق سنتی ہے۔ کہیں اگر انسان سن پائے تو بیہوش ہو جائے۔"
بخاری کتاب الجنائز.. حدیث 1316

نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ "بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں"۔ فاروق اعظم نے عرض کیا کہ بے جان مردو مں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا "وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں" ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر، الحدیث1370

*روح کا بدن میں لوٹایا جانا*

"قبر میں مردے کی روح اسکے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے اٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں: تمہارا رب کون ہے؟"
ابوداؤد، حدیث 4753

*مردہ لواحقین کی جوتوں کی آواز سنتا ہے*
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کر کے اس کے لوگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے"
صحیح بخاری
كتاب الجنائز، حدیث نمبر: 1338

*سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا عقیدہ*
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں اس مکان میں جہاں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میرے والد گرامی مدفون ہیں جب داخل ہوتی تو یہ خیال کرکے اپنی چادر (جسے بطور برقع اوڑھتی وہ) اتار دیتی کہ یہ میرے شوہرِ نامدار اور والدِ گرامی ہی تو ہیں لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ دفن کر دیا گیا تو اللہ کی قسم میں عمر رضی اللہ عنہ سے حیاء کی وجہ سے بغیر کپڑا لپیٹے کبھی داخل نہ ہوئی۔‘‘
(مسند أحمد 25132،رجال الصحيح)
اس صحیح روایت سے عیاں ہے کہ اہل قبور صاحب شعور ہوتے ہیں اور قبر پر آنے والے کو دیکھتے پہچانتے بھی ہیں ورنہ امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بعد وفات پردہ کیا معنی رکھتا ہے.

*انبیاء کرام علیہم قبور میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں*
سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی قبر کے پاس گذرا(تو میں نے دیکھا کہ)وہ اپنی قبر میںکھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے(صحیح مسلم ،کتاب الفضا ئل،باب من فضائل موسیٰ علیہ السلام ، حدیث :2375۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ:الانبیاء أحیاء فی قبورھم یصلون۔انبیائے کرام اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔
(حیاۃ الانبیاء للبیہقی،ص:70؍حدیث:1)

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔