Pages

Thursday, 22 September 2016

مقام امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ : از افادات استاذی الکمکرّم غزالی زماں سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

مقام امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ : از افادات استاذی الکمکرّم غزالی زماں سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خطاب : علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمة اللہ علیہ : مقام ۔خانیوال شہر(پاکستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم : محترم حضرات! میں اتنی بار خانیوال آیا لیکن آپ بتائیے کہ میں نے آج تک شوکانی کے بارے میں کچھ کہا؟ کبھی میں نے نواب صدیق حسن بھوپالی کے متعلق کچھ ذکر کیا؟یا کبھی میں نے کسی اہل حدیث عالم کا نام اپنی گفتگو میںلیا؟لیکن آج مجھے نہایت دکھ ہوا اور میرا دل بہت زخمی ہوا،جب میں سنا کہ خانیوال کی سر زمین پر امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر طعن کیا گیا،ان کی توھین کی گئی اور ان کے حق میں نازیبا کلمات کہے گئے،مجھے یہ سب جان کر نہایت دکھ پہنچا اور میرا دل بہت زخمی ہوا،لیکن ان سب کے باوجود بھی میں صبر کروں گا اور صبر کا مطلب یہ ہے کہ میں گالی کا جواب گالی سے نہیں دوں گا اور میں دریدہ دہنی کا جواب دریدہ دہنی سے نہیں دوں گا بلکہ مٰں برائی کو اچھائی سے رفع کروں گا۔
    محترم حضرات! میں نے آپکے سامنے قرآن پاک کی ایک آیت کریمہ کا کچھ حصہ تلاوت کیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔  قل ھل یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون(القرآن الکریم،پارہ:٢٣،سورة زمر، آیت:٩)
    (ترجمہ)۔ ''آپ فرما دیجئے کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ لوگ جو نہیں جانتے''
(البیان ترجمۂ قرآن ،از علامہ سید احمد سعید کاظمی ،مطبوعہ کاظمی پبلی کیشنز ملتان)
    یعنی اے میرے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک وسلم آپ ارشاد فرما دیں کہ کیا برابر ہو سکتے ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے؟کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں، کیونکہ علم والوں کی شان تو یہ ہے کہ
    انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا (القرآن الکریم ، پارہ ٢٢ ، سورة فاطر ، آیت ٢٨)
    (ترجمہ)۔''اللہ کے بندوں میں اللہ سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں''
(البیان ترجمۂ قرآن،از علامہ سید احمد سعید کاظمی ،مطبوعہ کاظمی پبلی کیشنز ملتان)
یعنی اللہ کا خوف اور اللہ کی خشیت دل میں رکھنے والے اگر ہیں تو فقط علماء ہیں اور یاد رکھئیے وہ کیسے علماء ہیں ؟ہم جیسے نہیں،استغفر اللہ،چہ نسبت خاک را با عالم پاک،ہم جیسے لوگوں نے تو آج علم کا نام بدنام کر دیا۔
    میرے دوستو اور عزیزو! یہاں علماء سے مراد ایسے علماء ہیں جیسے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ،سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ،سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ،سیدنا علی کرم اللہ وجہہ، سیدنا حسن بصری،سعید بن مسیب،سعید بن جبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے،اور مجھے کہنے دیجئے کہ علماء سے مراد ہم جیسے لوگ نہیں بلکہ علماء سے مراد وہ مقدسین اور طیبین و طاہرین ہیں جنہوں نے علم کے چشمے جاری کر دئیے ،ان میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود ہیں،علقمہ بن قیس اور ان کے شاگرد حضرت ابراہیم نخعی ہیں اور ابراہیم نخعی کے شاگرد سیدنا حماد ہیں اور حضرت حماد کے شاگرد امام ابو حنیفہ ہیں رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
اے عبد اللہ بن مسعود کروڑوں سلام ہوں آپ پر،آپ نے جو علم حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کو دیا اس کا تصور بھی ہمارے ذہن میں نہیں آ سکتا اور یہ وہ علم ہے جو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مشکوٰة نبوت سے حاصل کیا،اس علم سے آپ نے حضرت علقمہ کا سینہ روشن کر دیا،اور اے علقمہ! آپ کروڑوں سلام ہوں کہ آپ نے اس علم سے ابراہیم نخعی کے سینے کو منور کر دیا،اور اے ابراہیم نخعی کروڑوں سلام ہوں آپ پر آپ نے حضرت حماد کے سینے کو علم کا خزانہ بنا دیا،اور اے حماد کروڑوں سلام ہوں آپ پر کہ آپ نے حضرت امام ابو حنیفہ کو اپنی مسند علم پر بٹھا دیا،میرے دوستو یہ ہیں وہاہل علم جن کے لئے قرآن نے کہا انما یخشی اللہ من عبادہ العلمٰوا۔
    اے امام ابو حنیفہ کو ضعیف السند کہنے والو!
(جیسا کہ آجکل غیر مقلدین امام نسائی رضی اللہ عنہ اور امام بخاری رضی اللہ عنہ کے مندرجہ ذیل اقوال بیان کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ حدیث میں قوی نہیں تھے(کتاب الضعفائ،امام نسائی)اور امام بخاری کا قول کہ نعمان بن ثابت کوفی،روایت کی ان سے عباد بن عوام اور ابن مبارک اور ہیثم اور وکیع اور مسلم بن خالد اور ابو معاویہ اور مقری نے اور وہ مرجیہ تھے۔
ان عبارات کا جواب عمدة المحققین ابن ہمام رضی اللہ عنہ اور زبدة المحدثین علامہ بدر الدین عینی شارح بخاری اور شاہ ولی اللہ اور صاحب دراسات اللبیب وغیرہم نے اپنی اپنی جگہ پر شرح و بسط سے لکھ دیا ہے،تاہم مختصر جواب یہ ہے کہ امام نسائی کی جرح تو مبہم غیر مفسر ہے،اس لئے وہ مقبول نہیں،باقی رہا امام بخاری کا قول کہ وہ مرجیہ تھے،بالکل ساقط الاعتبار ہے،کیونکہ حنفیہ کا عقیدہ مرجیہ کے بالکل خلاف ہے،بلکہ وہ فرقہ مرجیہ کو ناری جان کر مرجیہ کے پیچھے نماز تک ناجائز سمجھتے ہیں،پس اگر امام ابو حنیفہ یا ان کے اصحاب کا ذرا بھی ارجاء کی طرف میلان ہوتا تو حنفیوں کا عقیدہ مرجیہ کے کبھی ایسا بر خلاف نہ ہوتا۔(حدائق الحنفیہ،از مولانا فقیر محمد جہلمی،مطبوعہ لاہور ١٤٠٠ھ،ص ١٢٥)
    میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ آج تمہیں کتنا ہی فخر کیوں نہ ہو اپنی محدّثیت پر لیکن تم امام ابو حنیفہ کے دربانوں کی گرد راہ کو بھی نہیں پا سکتے،کیونکہ امام ابو حنیفہ تو ایسے قوی السند تھے کہ دنیا تو سندِ حدیث میں ضبطِ کتاب پر اعتماد کرتی ہے لیکن امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ جب تک ضبط حافظہ سے کوئی حدیث روایت نہ کرے ہم اعتبار نہ کریں گے۔
    امام ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی رضی اللہ عنہ (متوفی ٣٢١ھ) نے اپنی سند کے ساتھ امام ابو یوسف سے روایت کی ہے کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کسی شخص کو لائق نہیں ہے کہ کسی حدیث کی روایت کرے مگر اس وقت کہ جب وہ اس کو روزِ سماعت سے لے کر روایت کے دن تک بعینہ یاد رکھے۔(حدائق الحنفیہ،ص١٦١)
    امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی قبول حدیث کیاہم شرائط یہ ہیں:
    ١۔امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب تک کسی راوی کو اس کی بیان کردہ روایت کے سننے کے دن سے بیان کرنے کے دن تک مکمل طور پر یاد نہ ہو،اس حدیث کو قبول نہ کیا جانا چاہیئے۔
    ٢۔ آپ کا دوسرا اصول یہ تھا کہ اس حدیث کو صحابی (رضی اللہ عنہ) سے متقی لوگوں کی ایک جماعت تسلسل کے ساتھ نقل کرتی آئی ہو۔
    ارے تم نیانہیں اہل الرائے کہہ کر ان پر طعن کیا،مگر میں تو رائے کو برا نہیں سمجھتا ،میں تو اس رائے کو برا سمجھتاہوں جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مقابل ہو،ایسی رائے یقینا مذموم ہے کیونکہ وہ سیدھا دوزخ کا راستہ ہے،لیکن میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ امام ابو حنفیہ کی وہ رائے نہ تھی،بلکہ امام ابو حنیفہ کی رائے وہ تھی جو جنت کا راستہ دکھاتی ،توحید کی راہیں روشن کرتی اور بارگاہ رسالت کی طرف راہنمائی کرتی ہے،جو امام ابو حنیفہ پر اس لئے طعن کرتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے اپنی رائے سے کیوں کہا،تو میں اسے کہتا ہوں کہ مجتہد کو اپنی رائے سے کہنے کا حق ہے۔
    امام فخر الدین رازی رحمة اللہ علیہ نے اجتہاد کے لئے دس شرائط لکھی ہیں:
    ١۔کتاب اللہ کا اتنا علم ضروری ہے جس کی احکام شریعت جاننے کے لئے بہت زیادہ ضرورت ہے،اس بارے میں قرآن مجید کے علوم کی تفصیلی مہارت ضروری نہیں ہے البتہ ایسی تمام آیات کا علم ضروری ہے جن کا تعلق احکام شریعت سے ہے،یہ تقریباً پانچ سو آیات ہیں،یہ آیات مجتہد کو اس طرح ازبر بلکہ نوک زبان ہونی چاہئیں کہ اسے جب بھی کسی شرعی حکم معلوم کرنے کیحاجت پڑے وہ بے تکلف اپنا مقصد حاصل کر لے۔
    ٢۔اسی طرح احکام سے متعلق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کا بھی علم رکھتا ہو۔
    ٣۔قرآن مجید اور احادیث کے ناسخ و منسوخ کا پوری طرح عالم ہونا کہ اجتہاد میں کوئی بڑی غلطی نہ کر بیٹھے۔
    ٤۔جرح و تعدیل اور ان کے اسباب سے باخبر ہونا کہ احادیث صحیحہ اور غیر صحیحہ میں تمیز کر سکے۔
    ٥۔امت کے مفتقہ علیہ مسائل سے واقف ہو ،اگر اسے ان مسائل کی واقفیت نہ ہو گی تو اجماع امت کے مطابق فتوے نہ دے سکے گا۔
    ٦۔دلائل کو صحیح ترتیب دینے اور ان سے روح اسلام کے مطابق نتائج نکالنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو ،خطا و صواب میں امتیاز کر سکتا ہو،غلطی کے مقامات کہاں کہاں اور کتنے ہیں،یہ اچھی طرح جانتا ہو کہ ان جگہوں سے احتیاط کرے۔
    ٧۔اصول دین کا عالم ہو مثلاً اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت اور اس کی وحدانیت کا علم ذات باری کا عیوب و نقائص سے منزہ ہونا اور اس کے حیّ عالم اور قادر ہونے کا علم۔
    ٨۔٩۔لغت اور علم نحو میں اتنی دستگاہ ضرور ہو کہقرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے اللہ تعالیٰ و رسول  ۖ  کی منشاء سمجھ سکے۔
    ١٠۔اصول فقہ جانتا ہو،امرونہی ،عموم و خصوص ،استثناء و تخصیص ،تاویلات و ترجیحات اور قیاس کے کے احکام سے پوری طرح واقفیت رکھتا ہو۔  (جامع العلوم ،از علامہ فخر الدین رازی،اردو ترجمہ،سید محمد فاروق القادری ایم،اے،مطبوعہ لاہور ١٩٩٠ئ،ص ٤٣) ( شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی نے بھی '' عقد الجید فی احکام الاجتہاد و التقلید،مطبوعہ ترکی ١٣٩٦ھ،ص ٣٠ پر مجتہد کے یہی اوصاف لکھے ہیں)
    اگر امام ابو حنیفہ کے اجتہاد کی بنا پر تم انہیں اہل الرائے کہتے ہو اور اس اجتہاد پر انہیں مطعون کرتے ہو تو پھر یہ طعن تو نعوذ باللہ بارگاہ رسالت تک پہنچے گا،اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اجتہاد فرمایا تھا۔
بخاری و مسلم میں روایت ہے:''عن ابن عباس قال اتی رجل ن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال ان اختی نذرت ان احج و انھا ماتت فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لو کان علیھا دین اکنت قاضیہ قال نعم قال فاقض دین اللہ فھو احق بالقضائ.
    (یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا پس عرض کیا کہ میری ہمشیرہ نے حج کی نذر مانی تھی اور وہ مر گئی ہے،پس فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس پر قرض ہوتا کیا تو ادا کرتا،کہا ہاں ،فرمایا پس ادا کریں خدا کا حق کہ وہ زیادہ ادا کا مستحق ہے۔)
اس حدیث سے معلوم ہوا ہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بطور قیاس کے سمجھایا کہ جب بندے کا قرض ادا کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کا ادائے قرض بدرجۂ اولیٰ چاہیئے۔(فتح المبین،از مولانا منصور علی مراد آبادی،مطبوعہ گوجرانوالہ ١٩٨٥ئ،ص٢٨)
    حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اجتہاد کی ضرورت نہ تھی ،کیونکہ آپ تو وہ مقدس ہستی ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ کی وحی آتی تھی،بات یہ ہے کہ بارگاہ نبوت کی اداؤں کے بغیر دین مکمل نہیں ہوتا،چنانچہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اجتہاد نہ فرماتے تو اجتہاد کے جواز کی دلیل کہاں سے آتی ؟ معلوم ہوا مجتہدین کے اجتہاد کے لئے دلیل فراہم کرنے کے لئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف خود اجتہاد فرمایا بلکہ صحابہ کو بھی اجتہاد کے مواقع فراہم کئے۔
    بخاری شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی ایک جماعت کو بنو قریظہ کی جانب بھیجا اور ارشاد فرمایا''لا یصلین احد العصر الا فی بنی قریظہ''(بخاری شریف،مطبوعہ کراچی،ج١ ،ص١٢٩۔ج٢،ص٥٩١)یعنی تم میں سے کوئی بھی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنو قریظہ جا کر،اور مسلم شریف میں حدیث یوں ہے کہ ''تم میں سے کوئی ظہر کی نماز بنو قریظہ کے پاس پہنچے بغیر نہ پڑھے''۔(مسلم شریف،مطبوعہ کراچی،ج٢،ص٩٦)
    اب دیکھئے کہ ظہر،عصر کا مغائر ہے کہ نہیں ہے؟ اگر کوئی عصر کی نیت کر کے ظہر کی نماز پڑھ لے تو کیا اس کی نماز ہوگی؟ ہرگز نہیں ہو گی،کیونکہ عصر اور ہے اور ظہر اور ہے،اب بنو قریظہ کی جانب جس جماعت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ،اس کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ بخاری میں ہیں کہ تم میں سے کوئی بھی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنو قریظہ جا کر،اور مسلم میں ہیں کہ تم میں سے کوئی ظہر کی نماز بنو قریظہ کے پاس پہنچے بغیر نہ پڑھے،معلوم ہوا کہ دونوں حدیثوں میں تغائر ہے اور حدیثوں میں یہ اختلاف ایک حقیقت ثابتہ ہے۔
    اب امام ابو حنیفہ پر الزام لگانے والوں سے میں پوچھتا ہوں کہ بتاؤ جو جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کی جانب بھیجی اس جماعت کو آپ نے ظہر کی نماز کے بارے میں فرمایا یا عصر کی نماز کے متعلق؟ بتاؤ ان مختلف احادیث میں تطبیق کیسے کرو گے؟کیا رائے کے بغیر کام چلے گا؟ ہرگز نہیں، رائے کے بغیر یقینا کام نہیں چلے گا،کیونکہ تم رائے کے بغیر دونوں حدیثوں میں تطبیق نہیں کر سکتے،زیادہ سے زیادہ محدّثین کے حوالے یہ کہو گے کہ دونوں حدیثیں تعدّد واقعہ پر محمول ہیں،یعنی ایک جماعت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر سے پہلے بھیجا اور فرمایاتم میں سے کوئی ظہر کی نماز بنو قریظہ کے پاس پہنچے بغیر نہ پڑھے،اور دوسری جماعت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر سے پہلے روانہ کیا اور فرمایا تم میں سے کوئی بھی عصر کی نماز بنو قریظہ کے پاس پہنچے بغیر نہ پڑھے،لیکن میں کہتا ہوں کہ تعددِ واقعہ پر کوئی دلیل لاؤ اور کوئی ایسی حدیث بھی پیش کرو،جس سے ثابت ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت کو ظہر سے پہلے بھیجا اور دوسری جماعت کو ظہر کے بعد بھیجا ہو،لیکن دس ہزار مرتبہ بھی تم مر کر زندہ ہو جاؤ تو تعدّدِ واقعہ پر تم حدیث نہیں لا سکتے،معلوم ہوا کہ محدّثین نے نماز عصر کی یہ توجیہہ اپنی رائے سے کی ہے اور رائے کو ہم مانتے ہیں تم نہیں مانتے،اگر تم پاؤں چھپاتے ہو تو سر کھلتا ہے اور سر چھپاتے ہو تو پاؤں کھلتے ہیں۔
    اب یہ ہوا کہ جب حضور صل٨ی اللہ علیہ وسلم نے اس جماعت کو بھیجا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص عصر کی نماز بنو قریظہ پہنچے بغیر نہ پڑھے،لیکن بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے ہی وقت اتنا تھوڑا رہ گیا کہ اگر بنو قریظہ پہنچتے ہیں تو عصر کی نماز قضاء ہو جاتی ہے،اب مسئلہ پیدا ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تو حکم یہ ہے کہ لا یصلین احد الا فی بنی قریظہ  یعنی تم میں سے کوئی شخص عصر کی نماز بنو قریظہ پہنچے بغیر نہ پڑھے ،لیکن اس صورت میں تو نماز قضاء ہو جاتی ہے اور اگر نماز پہلے ادا کرتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی ہوتی ہے۔
    اب اس اختلاف کی صورت میں بعض صحابہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ان الصلوٰة کانت علی المومنین کتٰباً موقوتا(سورة النسائ،آیت ١٠٣)
    ترجمہ۔بے شک نماز ایمان والوں پر وقت مقرر کیا ہوا فریضہ ہے۔
  (ترجمہ قرآن البیان ترجمہ قرآن،علامہ سید احمد سعید کاظمی،مطبوعہ ملتان)
    نماز فرض موّقت ہے لہذا وقت سے مفر نہیں کیا جائے گا اور ہم ابھی نماز عصر ادا کریں گے تاکہ نماز وقت پر ادا ہو جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطلب یہ تھا کہ تم اتنی جلدی چلنا کہ نماز عصر بنو قریظہ جا کر ادا کرو،اب اتنی جلدی نہیں چلے تو یہ ہماری غلطی ہے چنانچہ ہم نماز ادا کر لیتے ہیں،اس لئے ایک جماعت نے بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے نماز عصر ادا کی ،مگر کچھ صحابہ نے کہا کہ قضا اور ادا تو ہم جانتے نہیں ہم تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کریں گے کہ نماز عصر بنو قریظہ پہنچے بغیر نہیں پڑھیں گے،اب صحابہ کی دونوں جماعتوں میں اختلاف ہو گیا،کیوں کہ دونوں نے اپنے اجتہاد سے کام لیا اور جب یہ دونوں جماعتیں یعنی اپنی رائے سے کام لینے والی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پہنچیں تو حدیث میں آتا ہے کہ فلم یعنف واحد منھم (بخاری شریف(عربی)،جلد١،ص ١٢٩)یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی جماعت سے اظہار ناراضگی نہیں فرمایا۔
    مجھ سے درسِ حدیث میں کسی طالب علم نے سوال کیا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہارِ ناراضگی کسی جماعت کے لئے نہیں فرمایا لیکن یہ بتائیے کہ آپ نے یہ کیوں نہیں فرمایا کہ فلاں جماعت صواب پر تھی اور فلاں خطا پر؟
    میں نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ میری امت میں قیامت تک اجتہاد کا سلسلہ جاری رہے گا اور لوگ قیامت تک مجتہدین کے اجتہاد پر عمل کرتے رہیں گے اور ان کے اس اجتہاد کی خطا ظاہر نہیں ہو گی، اس لئے آپ نے پردہ پوشی فرمائی تاکہ دونوں جماعتوں کو ان کا ثواب ملتا رہے،اب اللہ بھی اجتہاد کرنے پر ان سے ناراض نہیں اور نہ رسول ان سے ناراض ہیں،اگر ناراض ہوتا پھرے تو ہوا کرے۔
    حدیث پڑھنے والوں سے پوچھو،سندِ حدیث اور خصوصاً حدیث کے بارے میں امام بخاری اور امام مسلم کی آراء میں اختلاف ہے،امام مسلم کہتے ہیں کہ راوی کا ،مروی عنہ کا معاصر ہونا کافی ہے،ہم اس حدیث کو قبول کر لیں گے،خواہ راوی کا مروی عنہ سے لقا (ملاقات) ثابت ہو یا نہ ہو ،اور امام بخاری کہتے ہیں کہ اگر راوی ،مروی عنہ کا ہم عصر ہے تو ہم ہرگز اس حدیث کو قبول نہیں کریں گے اور اس کو انقطاع پر محمول کریں گے،جب تک راوی کی مروی عنہ سے ملاقات ثابت نہ ہو۔
    (مقدمہ مشکوٰة ،از شیخ عبد الحق محدّث دہلوی(اردو ترجمہ)،مطبوعہ لاہور ١٣٦٥ھ،ص٦٧۔مقدمہ ابن صلاح (عربی) از ابی عمرو عثمان بن عبد الرحمن شہر زوری (متوفی ٦٤٢ھ)،مطبوعہ ملتان ،ص٣١۔نزھة النظر فی نخبة الفکر،از حافظ ابن حجر عسقلانی(متوفی ٨٥٢ھ)،مطبوعہ ملتان،ص ١١٩۔الحدیث و المحدثون،از استاذ محمد ابو زہرہ مصری،مطبوعہ فیصل آباد،ص٥٢٣)
    اب بتاؤ کہ امام مسلم کی رائے اور ہے اور امما بخاری کی رائے اور،لیکن اس معاملہ میں نہ حدیث ان کے پاس ہے اور نہ ان کے پاس،تو یہ دونوں اصحاب رائے ہوئے کہ نہیں؟
    اسی طرح اصول حدیث کے علماء سے پوچھو کیا حدیث مجرّد (ایسی حدیث جس کے سلسلہ رواة کو ذکر نہ کیا گیا ہو)کو انہوں نے صحیح قرار دیا ہے؟ حدیث مجرد صعیف ہے کہ نہیں؟ اور میں خدا کی قسم کھا کر عرض کرتا ہوں کہ بخاری میں کتنی حدیثیں مجرد ہیں،لیکن چونکہ امام بخاری کی رائے یہ ہے کہ یہ صحیح ہیں اس لئے تم نے ان کی صحت پر صاد کر دیا،امام بخاری کی رائے تمہارے نزدیک صحٰح ہے لیکن امام ابو حنیفہ کی رائے تمہارے نزدیک قابل قبول نہیں،یہ ہے سوچ کا مقام۔
    پھر میں کہتا ہوں کہ ابی اسحٰق سے زہیر کی روایت کو امام بخاری نے صحیح مان اپنی جامع میں شامل فرمایا اور امام ترمذی نے اسے قبول نہیں کیا(ترمذی شریف،باب الستنجاء بالحجر،ص٤)اور فرمایا کہ زہیر کا ابی اسحٰق سے سماع بوجہ علت خفیہ آخری عمر میں ہے،اس کے برعکس ابی اسحٰق سے اسرائیل کی روایت کو قبول فرماتے ہیں،دونوں کی رائیں مختلف ہو گئیں۔
    میں حیران ہوں کہ امام ابو حنیفہ کی وہ حدیثیں جو متفق الاسانید ہیں اگر تمہارے سامنے پیش کی جائیں تو تم اس پر ضعف کا الزام لگا کر ردّ کر دیتے ہو ،اور اگر امام ترمذی منقطع اور مراسیل سے استدلال کریں تو تم خاموش بیٹھے رہتے ہو،یہ کہاں کا انصاف ہے؟
    سن لومیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ امام بخاری کی بہت سی آراء امام مسلم کے خلاف ہیں اور امام مسلم کی بہت سی آراء امام بخاری کے خلاف ہیں،مقدّمہ ابن صلاح اٹھا کر دیکھو (مقدمہ ابن صلاح(عربی)مطبوعہ فاروقی کتب خانہ،ملتان،ص ٩ تا ١٥)وہاں ان کی عبارت میں کتنی شدت پائی جاتی ہے امام بخاری کے متعلق ،لیکن میں امام بخاری اور امام مسلم دونوں کا احترام کرتا ہوں کیونکہ وہ امیر المومنین فی الحدیث ہیں،اور ان کا ہم پر بڑا احسان ہے،اے امام بخاری رحمة اللہ علیہ آپ کی عظمتوں کے سامنے ہماری گردنیں جھکی ہوئی ہیں اور اے امام مسلم رحمة اللہ علیہ آپ کی بارگاہ میں بھی ہماری عقیدتیں سرنگوں ہیں ،لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ تمام محدثین سرنگوں ہیں بارگاہ امام ابو حنیفہ میں (رضی اللہ عنہم) ،کیونکہ امام بخاری اور امام مسلم کو اگر تم مجتہد بھی قرار دو گے تو سوائے علم حدیث کے ان کا اجتہاد کسی اور مقام پر نہیں سجے گا،اے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ آپ پر کروڑوں رحمتیں ہوں کہ آپ نے اجتہاد فرما کر ہدایت کی راہوں کو روشن کر دیا،کیونکہ آپ تو تفسیر میں بھی مجتہد ہیں،آپ تو کلام میں بھی مجتہد ہیں،آپ تمام علوم دینیہ میں مجتہد ہیں،آپ علی الاطلاق مجتہد ہیں،(فتاویٰ نذیریہ ،از مولوی نذیر حسین دہلوی غیر مقلد،مطبوعہ اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور،جلد اول،١٣٩٠ھ/١٩٧١ئ،ص ١٦٧)اب بتاؤ جو ایک علم میں مجتہد ہو اس کی رائے کو تو مجتہد کی رائے تسلیم کرتے ہو اور جو مجتہد مطلق ہو اس کے اجتہاد کو غلط کہہ کر طعن کرتے ہو،ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے۔
    ارے امام ابو حنیفہ پر طعن کرنے والو! تم توحیدی ہونے کا دعویٰ کرتے ہو،میں تم سے اگر خدا کے واحد ہونے کا معنی پوچھ لوں تو تم نہیں بتا سکتے ،تم کیا جانو کہ توحید کیا ہے؟دیکھئے قرآن نے کہا الھکم الہ واحد(القرآن الحکیم،پارہ ١٤،سورة النحل،آیت ٢٢)یعنی تمہار خدا تو خدائے واحد ہے، اب تم بتاؤ اللہ کو واحد مانتے ہو یا نہیں مانتے ؟اور واحد کے معنی ہیں ایک ،لیکن ''ایک'' بھی تو لفظ ہے،اس کے کیا معنی ہیں؟ چنانچہ لفظ واحد پر علماء نے بحث کی اور اانہوں نے کہا کہ واحد کی بہت سی قسمیں ہیں،ان میں ایک ہے ''واحد عددی'' ،ایک ہے ''واحد جنسی'' اور ایک ہے'' واحد نوعی''۔
    ض    واحد عددی کا معنی ہے''الواحد نصف الاثنین''یعنی دو کا آدھا ایک ہوتا ہے (ہاتھ کے اشارے سے فرمای) یہ دو ہیں ان دو کا آدھا ایک ہونا ہے، اب میں تم سے پوچھتا ہوں کہ الھکم الہ واحد  کی کیا معنی کرو گے ؟ دو خداؤں کا آدھا؟ تو پہلے دو خدا مانو پھر اس کا آدھا مانو تو پھر ایک کہو،اب ہے کوئی دو خداؤں کو ماننے والا؟
    ض    واحد جنسی کامعنی ہے کہ جس کی جہتِ وحدت جنس ہو،جیسے میں کہوں الحیون الواحد  یعنی حیوان ایک ہے خواہ گدھا ہو یا گھوڑا ،بکرا ہو کہ ہاتھی، کیونکہ حیوانیت جنس ہے اور وہ سب میں مشترک ہے،مگر جنس تو فصل کے بغیر ہوتی نہیں اور جہاں جنس ہوتی ہے وہاں فصل بھی ضرور ہو گی،اب بتاؤ خدا کو کیا کہو گے؟ کیا خدا کوئی جنس ہے؟اگرجنس نہیں ہے تو پھر واحد جنسی کیسے کہو گے؟ خدا تعالیٰ چونکہ جنس سے پاک ہے اس لئے خدا کو واحد جنسی بھی نہیں کہہ سکتے ۔
    واحد نوعی،واحد کی تیسری قسم ہے یعنی ایسا واحد کہ جس کی وحدت مستفاد ہو جہت نوع سے،جیسے الانسان واحد  یعنی انسان ایک ہے خواہ کہیں کا رہنے والا ہو،مغرب کا ہو یا مشرق کا،نیک ہو یا بد،کیونکہ انسان نوع ہے اور اس کی دو ذانیات ہیں ،''حیوان اور ناطق'' دونوں کو ملاؤ تو انسان بنتا ہے،اب نوع بنتی ہے جنس اور فصل ملا کر،مگر جنس اور فصل جہاں ملے گی وہاں ترکیب ہو گی اور جہاں ترکیب ہو گی وہاں حدوث ہو گا،اب بولو خدا حادث ہے یا قدیم؟ یقینا خدا قدیم ہے،لہذا خدا تعالیٰ واحد نوعی بھی نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ نوع سے پاک ہے۔
    اب بتاؤ الھکم الہ واحد  کے کیا معنی کرو گے؟ وہ خدا یک ہے،مگر کیسا ایک ہے؟ وہ عدد کے اعتبار سے ایک ہے؟ جنس کے اعتبار سے ایک ہے یا وہ نوع کے اعتبار سے ایک ہے؟ا رے نہیں بتا سکتے۔
    یہاں پھر تمہیں چوتھی بات کہنی پڑے گی اور وہ رائے سے کہنی پڑے گی،اور کہنے والوں نے کہا کہ  الھکم الہ واحد،  تمہارا الٰہ تو الہ واحد ہے،اس میں واحد کا لفظ حق ہے اور اس کے معنی بھی حق ہیں ،مگر اس کے یہ معنی نہیں ہین کہ دو کا آدھا ایک ہے یا اس کی جنس ایک ہے یا اس کی نوع ایک ہے،بلکہ اس واحد سے مراد ایسا واحد ہے جس کی جہتِ وحدت عین ذات ہو اور وہ ازلاً ابداً بتقاضائے ذات ایک ہو،جس کا ایک ہونا ازلاً ابداً اور وجوباً ہو اور وہ کسی مرجح کی ترجیح کا محتاج نہ ہو۔
    اب بتاؤ واحد کا یہ معنی تم کہاں سے لاؤ گے؟ کوئی قرآن کی آیت پڑھو کہ واحد کے یہ معنی ہوں یا کوئی حدیث لاؤ جس کے یہ معنی درج ہوں،اللہ اکبر!  پتہ چلا کہ تم تو توحید کے مسئلہ میں بھی رائے کے بغیر زبان نہیں کھول سکتے۔
    ارے تم امام ابو حنیفہ کو اہل الرائے کہتے ہو،میں کہتا ہوں کہ یہ رائے تو اجتہاد ہے اور خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتہاد فرمایا ،اور اسی لئے فرمایا کہ اجتہاد کے جواز پر دلیل قائم ہو جائے اور پتہ چل جائے کہ مجتہد کا اجتہاد عین دین ہے،کیونکہ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ی ادا اس کے لئے اصل ہے،اور اسی لئے جیسا کہ مٰں نے پہلے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اجتہاد کا موقع فراہم کیا، اگر اجتہاد نہ ہو تو دین چل نہیں سکتا کہ ہزاروں مسائل ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ قرآن و حدیث میں بالوضاحت ان کا ذکر نہیں ہے،مثال کے طور پر ایک شخص نے بغیر چشمے کے ایک واقعہ دیکھا اور دوسرے نے چشمہ لگا کر اور تیسرے نے دور بین لگا کر اسی واقعہ کو دیکھا،اب بتاؤ چشمہ کے بغیر دیکھنا،چشمہ لگا کر دیکھنا اور دور بین کی مدد سے دیکھنا تینوں کا ایک حکم ہے یا کوئی فرق ہے؟کسی نے کسی چیز کو بالمشافہ دیکھا،کسی نے اسے عکس کی صورت میں دیکھا،کسی نے پانی میں عکس دیکھا اور کسی نے آئینہ میں عکس دیکھا،ایک نے بالواسطہ دیکھا اور دوسرے نے بلا واسطہ دیکھا،اب دیکھنا ان تمام میں مشترک ہے لیکن بتائیے ان سب کا ٰحکم ایک ہے یا الگ الگ؟ اگر کہتے ہو کہ ان سب کا حکم ایک ے، تومیں کہوں گا کہ تم رائے سے کہتے ہو ،اس کے لئے قرآن و حدیث سے کوئی دلیل لاؤ،اسی طرح ہوئی جہاز میں نماز پڑھنے کا مسئلہ پیدا ہو گیا کہ نماز ہو گی یا نہیں؟ اگر تم کہتے ہو ہو گی تب بھی دلیل لاؤ اور اگر کہتے ہو نہیں ہو گی تب بھی دلیل دینا ہو گا،لیکن سن لو تم جو کچھ بھی کہو گے اپنی رائے سے کہو گے اور دس ہزار بار تم پر قیامت قائم ہو جائے ،تم اجتہاد کے بغیر دلیل نہیں لا سکتے،اور اگر لاؤ گے تو امام ابو حنیفہ کے محتاج ہو کر رائے سے دلیل لاؤ گے۔
    میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سپر طعن کرنے والوں سے پوچھتا ہوں کہ تم ہر جگہ یہ کہتے پھرتے ہو کہ فلاں کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تم کیوں کرتے ہو؟ یہ بدعت ہے،اسی طرح جس کام کے لئے قرآن و حدیث میں کوئی دلیل نہ ہو تو تم کہتے ہو یہ بدعت ہے،میں پوچھتا ہوں کہ احادیث نقل کرنے سے پہلے محدثین نے جو طریقہ اختیار کیا ہے اسے کس خانہ میں رکھو گے؟ مثلاً امام بخاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مٰں نے اپنی کتاب الجامع الصحیح میں کوئی حدیث درج نہیں مگر پہلے میں نے غسل کیا اور دو رکعت نفل پڑھے،حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ مقدمہ فتح الباری میں نقل کرتے ہیں  قال البخاری ما کتبت فی کتاب الصحیح حدیثا الا اغتسلت قبل ذلک وصلیت رکعتین۔(مقدمہ فتح الباری شرح صحیح بخاری،مطبوعہ دہلی، ص ٥)
    اب میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ کے اس فعل پر کوئی دلیل لاؤ،کوئی حدیث پیش کرو ، جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ جب میری کوئی حدیث نقل کرو تو دو رکعت پڑھ لیا کرو،اب بتاؤ حدیث درج کرنے کا یہ طریقہ کہیں قرآن میں آیا ہے؟ یا کسی حدیث میں آیا ہے؟ معلوم ہوا کہ حدیث درج کرنے کا یہ طریقہ امام بخاری نے اپنی رائے سے اختیار کیا،اور جس کام کے لئے قرآن و حدیث میں کوئی دلیل نہ ہو،تم کہتے ہو کہ بدعت ہے،اب بتاؤ کہ امما بخاری کا یہ عمل تم کس خانہ میں رکھو گے؟
    لوگوں نے کہا امام حافظ شمس الدین ذہبی رحمة اللہ علیہ نے ''میزان الاعتدال''میں امام ابو حنیفہ کو ضعفاء میں شمار کیا ہے:
    (امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حافظ شمس الدین ذہبی رحمة اللہ علیہ نے ''میزان الاعتدال فی اسماء الرجال'' میں امام ابو حنیفہ کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے '' النعمان بن ثابت الکوفی امام اھل الرائی ضعفہ النسائی و ابن عدی  و الدار قطنی و اٰخرون'' (حافظ شمس الدین ذہبی،میزان الاعتدال ،عربی ،مطبوعہ بیروت ١٣٨٢ھ/١٩٦٣ئ،جلد ٤،ص ٢٦٥)
    اس کا جواب یہ کہ میزان الاعتدال میں یہ عبارت الحاقی ہے،ینعی مصنف نے نہیں لکھی بلکہ کسی اور شخص نے اسے حاشیہ پر لکھا اور بعد میں متن میں شامل کر دی گئی،یہ یا تو کسی کاتب کی غلطی سے ہوا یا جان بوجھ کر اس عبارت کو متن میں داخل کر دیا گیا،اس کے دلائل درج ذیل ہیں۔
    ١۔حافظ شمس الدین ذہبی نے میزان الاعتدال کے مقدمہ میں یہ تصریح کی ہے کہ میں اس کتاب میں ان بڑے ائمہ کا تذکرہ نہیں کروں گا جن کی جلالتِ قدر حدِ تواتر کو پہنچی ہوئی ہے،خواہ ان کے بارے میں کسی شخص نے کوئی کلام بھی کیا ہو،پھر ان بڑے بڑے ائمہ کی مثال میں امام ابو حنیفہ کا نام بھی انہوں نے صراحتہً ذکر کیا ہے ،پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں امام ابو حنیفہ کا ذکر کیا ہو۔
    ٢۔جن بڑے بڑے ائمہ کا تذکرہ حافظ شمس الدین ذہبی نے میزان الاعتدال میں نہیں کیا،ان کے تذکرہ کے لئے انہوں نے ایک مستقل کتاب ''تذکرة الحفاظ'' لکھیاور اس کتاب میں امام ابو حنیفہ کا تذکرہ بڑی مدح اور توصیف سے بیان کیا ہے۔
    ٣۔حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب ''لسان المیزان'' کو میزان الاعتدال پر ہی مبنی کیا ہے،ینعی جن رجال کا تذکرہ میزان الاعتدال میں نہیں ہے،ان کا تذکرہ لسان المیزان میں بھی نہیں ہے،سوائے چند ایک کے ،اور لسان المیزان میں امام ابو حنیفہ کا تذکرہ موجود نہیں،یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ امام ابو حنیفہ کے بارے میں یہ عبارت اصل میزان الاعتدال میں نہیں تھی بعد میں بڑھا دی گئی۔
    ٤۔شیخ عبد الفتاح ابو غدہ الحلبی رحمة اللہ علیہ (متوفی ١٤١٧ھ/١٩٩٧ئ) نے ''الرفع و التکمیل'' کے حاشیہ کے صفحہ ١٠١ پر لکھا کہ میں نے دمشق کے مکتبہ ظاہریہ میں میزان الاعتدال کا ایک نسخہ دیکھا ہے(تحت الرقم حدیث ٣٦٨) جو مکمل حافظ ذہبی کے ایک شاگرد علامہ شرف الدین الوانی کے قلم سے لکھا ہوا ہے اور اس میں یہ تصریح ہے کہ میں نے یہ نسخہ اپنے استاد حافظ ذہبی کے سامنے تین مرتبہ پڑھا اور ان کے مسودہ سے اس کا مقابلہ کیا،اس نسخہ مین امام ابو حنیفہ کا تذکرہ موجود نہیں ہے،اسی طرح میں نے مراکش کے دار الحکومت رباط کے مشہور کتب خانہ '' الخزانة العامرہ'' میں ١٢٩ ق نمبر کے تحت میزان الاعتدال کا ایک قلمی نسخہ دیکھا ،جس پر حافظ ذہبی کے بہت سے شاگردوں کے پڑھنے کی تاریخیں درج ہیں اور اس میں یہ تصریح بھی ہے کہ حافظ ذہبی کے ایک شاگرد نے ان کے سامنے ان کی وفات سے صرف ایک سال پہلے پڑھا تھا،اس نسخہ میںبھی امام ابو حنیفہ کا تذکرہ موجود نہیں ہے،یہ اس بات کا دستاویزی ثبوت ہے کہ امام ابو حنیفہ کے بارے میں یہ عبارت کسی بعد میں بڑھائی ہے،اصل نسخہ میں موجود نہ تھی،حافظ ذہبی ایسی بات کیسے لکھ سکتے تھے جب کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ کے مناقب پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے،رہے حافظ ابن عدی تو وہ بے شک شروع میں امام ابو حنیفہ کے مخالف تھے اور اس زمانہ مین انہوں نے امام صاحب پر جرح بھی کی لیکن بعد میں جب وہ امام طحاوی کے شاگرد بنے تو امام ابو حنیفہ کی عظمت کا احساس ہوا،چنانچہ انہوں نے اپنی سابقہ غلطی کے کفارہ کے طور پر امام ابو حنیفہ کی مسند ترتیب دی،لہذا ان کے سابقہ قول کو امام صاحب کے خلاف حجت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا،امام نسائی اور امام دار قطنی کی جرح مبہم اور غیر مفسر ہے،دونوں امام جوشِ شافعیت میں ضعیف تو کہہ گئے مگر ضعف کی وجہ ان کو بھی نہ مل سکی ورنہ ضرور پیش کرتے،و من ادعی فعلیہ البیان،یعنی جو اس بات کا دعویٰ کرتا ہے تو بیان کرے۔
اللہ اکبر  ! میں پوچھتا ہوں کیا امام ذہبی کی یہی ایک تصنیف ہے؟ ارے تذکرة الحفاظ کا مصنف بھی تو یہی امام ذہبی ہے،اس تذکرة الحفاظ میں ذرا امام صاحب کا تذکرہ تو دیکھو (امام حافظ شمس الدین ذہبی تذکرة الحفاظ،(اردو ترجمہ) مطبوعہ لاہور،جلد ق،ص ١٤٨)
     خدا کی قسم ایمان تازہ کر دینے والا تذکرہ ہے اور پھر اسی تذکرہ مین انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہاں تو میں ابو حنیفہ کے متعلق کچھ بھی نہ لکھ سکا،میں نے امام ابو حنیفہ کے مناقب میں ایک مستقل رسالہ لکھ دیا (مناقب الامام ابی حنیفہ (عربی) ،از امام شمس الدین ذہبی،مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان)
    حیرت ہے کہ پھر بھی یہ امما ذہبی پر تہمت لگاتے ہیں کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ کو ضعفاء میں شمار کیا ہے،اسی طرح امام نسائی کے متعلق بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک امام ابو حنیفہ ضعیف السند ہیں،میں کہتا ہوں کہ جس امام کا دعویٰ یہ ہو کہ ضبظِ صدر کے بغیر ہم کسی کی روایت قبول نہیں کریں گے،اس پر یہ الزام کہ وہ ضعیف السند تھے،کس قدر افسوس ناک ہے۔
    ہم سے کہا جاتا ہے کہ جو اہل حدیث نہ ہو وہ اہل سنت نہیں ہو سکتا،لیکن میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ آج تک مسلک کے اعتبار سے کسی کو اہل حدیث نہیں کہا گیا،اگر اہل حدیث کہا گیا ہے تو محض فن کے اعتبار سے کہا گیا ہے،جیسے علم اصول والوں اہل علم اصول کہا گیا،لکھنے والوں کو اہل قلم کہا گیا،لیکن خدا کی قسم مسلک کے اعتبار سے آج تک کوئی اہل حدیث نہیں ہوا،جن کے بارے میں بھی اہل حدیث کہا گیا ہے وہ محض فن کے اعتبار سے کہا گیا،کیونکہ اگر حدیث مسلک کی بنیاد ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم علیکم بسنتی (ابو داؤد شریف(عربی)،مطبوعہ کرا چی،جلد ٢،ص ٢٨٧) نہ فرماتے بلکہ علیکم بحدیثی فرماتے،مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا،تو پتہ چلا کہ مسلک کی بنیاد حدیث نہیں ہو سکتی بلکہ مسلک کی بنیاد سنت ہے۔
    اور میں عرض کر دوں کہ حدیث پر تم عمل نہیں کر سکتے کیونکہ حدیث مطلقاً قابل عمل نہیں ہے بلکہ سنت قابل عمل ہے،دیکھئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کہا وہ حدیث ہے،جو کیا وہ حدیث ہے اور جو آپ نے سامنے کیا گیا اور آپ نے اسے برقرار رکھا، وہ حدیث ہے ،لیکن آپ حدیث کو اپنے عمل کی بنیاد قرار نہیں دے سکتے،کیونکہ حدیثوں میںتو اختلاف ہے،حدیثوں میں تعارض بھی ہے جیسا کہ میں نے پہلے مثال دی ،ان میں ناسخ و منسوخ بھی ہیں،اس لئے حدیث قابل عمل نہیں ہے بلکہ اگر عمل کرنا ہے تو سنت پر کریں کیونکہ سنت قابل عمل ہے،اگر کوئی عمل بالحدیث کا مدعی ہے تو میں بخاری شریف کی ایک حدیث پیش کرتا ہوں ،کوئی آئے اور اس پر عمل کر کے دکھائے،بخاری شریف کی حدیث ہے کان یصلی وھو حامل امامة بنت زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بخاری شریف (عربی)،مطبوعہ کراچی،جلد١،ص ٧٤) یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز اس طرح پڑھتے تھے کہ آپ اپنی نواسی امامہ کو اٹھائے ہوئے تھے،اب بتائیے بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی کو گود میں لئے نماز پڑھتے تھے،تو اب ذرا اس حدیث پر عمل کر کے دکھاؤ اور اپنی نواسیوں کو گود میں لے کر نماز پڑھا کرو ،اور اگر اپنی نہ ہو تو کسی کی اٹھا لاؤ کیونکہ نواسی کے بغیر تو حدیث پر عمل نہیں ہو گا،اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نیء ازواجِ مطہرات کے ساتھ حسنِ معاشرت کے طور پر جو طور طریقے اپنائے کیا تم وہ طور طریقے اختیار کر سکتے ہو؟ یقینا نہیں کر سکتے،تو معلوم ہوا کہ حدیث پر عمل نہیں ہو سکتا بلکہ سنت پر عمل ہو سکتا ہے اور سنت وہ ہے جسے میرے آقا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلوک فی الیدن قرار دیا یعنی دین پر چلنے کا راستہ بنا دیا ہو،اسی لئے آپ نے علیکم بحدیثی نہیں فرمایا بلکہ علیکم بسنتی فرمایا،لہذا ہم اہل حدیث نہیں ہیں بلکہ اہل سنت ہیں ،اور میں بتا دوں کہ دنیا میں دو ثلث (تہائی) حنفی ہیں اور یہی سواد اعظم ہیں۔
    اب سچ بتاؤ حضور تاجدار مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی اکثریت جس جانب ہو گی وہ حق ہو گا یا معمولی سی اقلیت حق پر ہو گی؟ اور اے آقائے نامدار تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم
میں آپ کی عظمتوں پر قربات جاؤں کہ آپ نے دین کو اتنا کامل اورروشن کر کے ہمارے سامنے رکھا اور فرمایا ترکتکم علی الواضحة لیلھا کنھارھا ( امام محمد بن محمد بن سلیمان الفاسی المغربی ،جمع الفوائد،جلد١،ص ٢٨۔امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید بن عبد اللہ ابن ماجہ،سنن ابن ماجہ،مطبوعہ کراچی،ص٢) یعنی تمہیں ایسی راہ پر چھوڑے جا رہا ہوں جس کا دن رات واضح ہے،تم آنکھیں بند کئے چلے آؤ مگر راہ نہ چھوٹے۔
    انتہائی تھکان اور کمزوری کے باعث میری طبیعت انتہائی ناساز ہے اس لئے انہی کلمات پر اکتفاء کرتا ہوں ورنہ میں دلائل کا انتا انبار لگا دیتا کہ آپ سن نہ سکتے،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ راہ نہ چھوٹے جس پر تیرے نیک بندے گامزن ہیں۔و ما علینا الا البلاغ المبین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔