حضرت صالح علیہ السّلام کا اپنی مردہ قوم سے خطاب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ قران میں حضرت صالحؑ کا وہ خطاب بیان فرما رہا ہے جو کہ انہوں نے اپنی قوم سے اُس وقت کیا تھا جب کہ ان پر عذاب آچکا تھا اور وہ مردہ ہو چکے تھے ۔
القران، سورہ اعراف، آیات 77 تا 79
بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ {77}
فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُواْ فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ {78}
فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَكِن لاَّ تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ {79}
پھر یہ کہہ کر ناقہ کے پاؤں کاٹ دئیے اور حکم خدا سے سرتابی کی اور کہا کہ صالح علیہ السّلام اگر تم خدا کے رسول ہو تو جس عذاب کی دھمکی دے رہے تھے اسے لے آؤ۔ تو انہیں زلزلہ نے اپنی گرفت میں لے لیاکہ اپنے گھر ہی میں سربہ زانو رہ گئے۔ تو اس کے بعد صالح علیہ السّلام نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا کہ اے قوم میں نے خدائی پیغام کو پہنچایا تم کو نصیحت کی مگر افسوس کہ تم نصیحت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتے ہو
غور کیجیئے کہ قران فرما رہا ہے کہ صالح علیہ السّلام نے اپنی اُس قوم کو خطاب کیا کہ جسے اللہ نے اپنے عذاب سے تباہ و برباد کر دیا تھا۔ یہ آیت صاف یہ ظاہر کر رہی ہے کہ روحیں سن سکتی ہیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جنابِ صالح علیہ السّلام کے اس خطاب کا کیا مطلب ہے؟
یا پھر سماع موتیٰ کے منکر حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت صالحؑ نے ایک بیکار اور مشرکانہ فعل انجام دیا (جیسا کہ ابن عبدالوہاب نجدی کا دعویٰ ہے کہ اگر کوئی مردے سے خطاب کرتا ہے تو وہ شرک کرتا ہے)؟
اور کیا وجہ ہے کہ اللہ بھی اس مشرکانہ فعل کو اپنے قران میں بیان فرما رہا ہے؟ (معاذ اللہ)
دوسرا یہ کہ کیا منکرین حضرات یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت صالح علیہ السّلام نے لاؤڈ سپیکروں کا استعمال کیا تھا تاکہ ان کی قوم کے تمام لوگ ان کی پکار کو سن سکتے؟ نہیں، حضرت صالحؑ نے کسی لاؤڈ سپیکر کا استعمال نہیں کیا مگر پھر بھی قران فرما رہا ہے کہ ان کی پکار ان کی پوری قوم نے سنی۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کے لیئے قریب اور دور کی پکار سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ انکے سننے کا طریقہ وہ نہیں جو زندہ لوگوں کا ہے اور ان دونوں کا تقابل ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ جو بھی ان کا تقابل کرتا ہے، وہ غلطی پر ہے۔
اللہ نے ہمیں یہ نہیں بتایا ہے کہ مردوں کے سننے کا طریقہ کار کیا ہے مگر قران شہادت دے رہا ہے کہ مردے ہماری پکار کو سن سکتے ہیں اور یہ سننا اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ یہ پکار دور سے دی گئی ہے یا قریب سے۔ اور ہمارے لیے یہ کافی ہے کہ ہم قران پر ایمان رکھیں۔
تیسرا یہ کہ منکرین حضرات یہ کیوں خیال کرتے ہیں کہ جب صالح علیہ السّلام نے اپنی مردہ قوم کو "یا قوم" کہہ کر پکارا تو یہ صحیح ہے، مگر جب ہم "یا رسول اللہ ﷺ " کہتے ہیں تو یہ بدترین شرک قرار پاتا ہے ؟
منکرین حضرات اپنے قیاس کی بنیاد پر ایک بہانہ بناتے ہیں کہ صالح علیہ السّلام نے اپنی قوم کو مخاطب کر کے یہ بات نہیں کہی بلکہ صرف "افسوس" میں یہ بات کہی ہے۔
جواباً عرض ہے کہ ایسی قیاس آرائیوں اور بہانے بازیوں سے یہ حضرات قرآن کی واضح آیت کا انکار نہیں کر سکتے۔ غور سے دیکھئیے کہ صالح علیہ السّلام نہ صرف انہیں "یا قومی" کہہ کر پکار رہے ہیں، بلکہ اسکے بعد بھی قوم سے ایک مکمل خطاب ہے کہ "میں نے تو تمہیں خدائی پیغام پہنچایا اور اچھی نصیحت کر دی تھی، مگر تم اچھی نصیحت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتے"۔ ایسے واضح خطاب کے بعد کیا انکار کی کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔