محبوبا ن خدا دور سے سنتے دیکھتے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ کے پیارے بندے نزدیک ودور کی چیزیں دیکھتے ہیں اور دو ر کی آہستہ آواز بھی باذن الٰہی سنتے ہیں۔ قرآن کریم اس پر گواہ ہے ۔
(1) قَالَتْ نَمْلَۃٌ یّٰۤاَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوۡا مَسٰکِنَکُمْ ۚ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیۡمٰنُ وَ جُنُوۡدُہٗ ۙ وَ ہُمْ لَا یَشْعُرُوۡنَ ﴿۱۸﴾فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنۡ قَوْلِہَا
ایک چیونٹی بولی کہ اے چیونٹیواپنے گھروں میں چلی جاؤ تمہیں کچل نہ ڈالیں سلیمان اور ان کالشکر بے خبری میں تو سلیمان اس چیونٹی کی آواز سن کر مسکراکر ہنسے ۔(پ19،النمل:18،19)
چیونٹی کی آواز نہایت باریک جو ہم کو قریب سے بھی معلوم نہیں ہوتی حضرت سلیمان علیہ السلام نے کئی میل دور سے سنی کیونکہ وہ اس وقت چیونٹیوں سے کہہ رہی تھی جب آپ کا لشکر ابھی اس جنگل میں داخل نہ ہواتھا اور لشکر تین میل میں تھا تو آپ نے یہ آواز یقینا تین میل سے زیادہ فاصلہ سے سنی۔ رہا چیونٹیوں کا یہ کہنا کہ'' وہ بے خبری میں کچل دیں۔'' اس سے مراد بے علمی نہیں ہے بلکہ ان کا عد ل وانصاف بتا نا مقصو د ہے کہ وہ بے قصور چیونٹی کوبھی نہیں مارتے ۔اگر تم کچلی گئیں تو اس کی وجہ صرف ان کی بے تو جہی ہوگی کہ تمہارا خیال نہ کریں اور تم کچلی جاؤ ۔
(1) وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیۡرُ قَالَ اَبُوۡہُمْ اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ لَوْ لَا اَنۡ تُفَنِّدُوۡنِ ﴿۹۴﴾
جب قافلہ مصر سے جدا ہوا یہاں ان کے باپ نے کہا کہ بے شک میں یوسف کی خوشبو پاتا ہوں اگر تم مجھے سٹھا ہوا نہ کہو۔(پ13،یوسف:94)
یعقوب علیہ السلام کنعان میں ہیں او ریوسف علیہ السلام کی قمیص مصر سے چلی ہے اور آپ نے خوشبو یہاں سے پالی ۔ یہ نبوت کی طا قت ہے ۔
(2) قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبْلَ اَنۡ یَّرْتَدَّ اِلَیۡکَ طَرْفُکَ ؕ
اس نے کہا جس کے پاس کتا ب کا علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس حاضر کردوں گا آپ کے پلک مارنے سے پہلے ۔(پ19،النمل:40)
آصف شام میں ہیں اور بلقیس کا تخت یمن میں اور فوراً لانے کی خبر دے رہے ہیں اور لانا جانے کے بغیر ناممکن ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ اس تخت کو یہاں سے دیکھ رہے ہیں یہ ہے ولی کی نظر ۔
(3) وَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمْ ؕ
عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں اس کی جو تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو اور جو جمع کرتے ہو۔(پ3،اٰل عمرٰن:49)
عیسیٰ علیہ السلام کی آنکھ گھروں کے اندر جو ہو رہا ہے اسے دور سے دیکھ رہی ہے کہ کون کھا رہا ہے اور کیا رکھ رہاہے یہ ہے نبی کی قوت نظر۔
(4) اِنَّہٗ یَرٰىکُمْ ہُوَ وَقَبِیۡلُہٗ مِنْ حَیۡثُ لَا تَرَوْنَہُمْ ؕ
وہ ابلیس اور اس کا قبیلہ تم سب کو دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے۔(پ8،الاعراف:27)
(1) قُلْ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمْ
فرمادو تم سب کو موت کا فرشتہ موت دیگا جوتم پر مقرر کیا گیا ہے ۔(پ21،السجدۃ:11)
شیطان اور اس کی ذریت کو گمراہ کرنے کے لئے ،ملک الموت کو جان نکالنے کے لئے یہ طاقت دی کہ عالم کے ہر انسان بلکہ ہر جاندار کو دیکھ لیتے ہیں تو انبیاء واولیاء کو جو رہبر و ہادی ہیں سارے عالم کی خبر ہونا لازم ہے تا کہ دوا کی طا قت بیماری سے کم نہ ہو۔
(2) وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ
اورلوگوں کو حج کا اعلان سنا دو وہ آئیں گے تمہارے پاس پیدل اور ہر اونٹنی پر ۔(پ17،الحج:27)
ابراہیم علیہ السلام کی آواز تمام انسانوں نے سنی جو قیامت تک ہونے والے ہیں ۔
(3) وَکَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبْرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَلِیَکُوۡنَ مِنَ الْمُوۡقِنِیۡنَ ﴿۷۵﴾
اوراس طر ح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں آسمانوں او رزمین کی بادشاہت اور اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہوجائیں۔(پ7،الانعام:75)
اس آیت سے معلوم ہواکہ ابراہیم علیہ السلام کی آنکھوں کو رب تعالیٰ نے وہ بینائی بخشی کہ انہوں نے''تحت الثرٰی''سے ''عرش اعلیٰ'' تک دیکھ لیا۔ کیونکہ خدا کی بادشاہی تو ہر جگہ ہے اور ساری بادشاہی انہیں دکھائی گئی ۔
(4) اَلَمْ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیۡلِ ؕ﴿۱﴾
کیا نہ دیکھا آپ نے کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں سے کیا کیا ؟(پ30،الفیل:1)
(1) اَلَمْ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ﴿۶﴾
کیا نہ دیکھا آپ نے اے محبوب کہ آپ کے رب نے قوم عاد سے کیا کیا؟(پ30،الفجر:6)
اصحاب فیل کی تباہی نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت شریف سے چالیس دن پہلے ہے اور قوم عاد وثمود پر عذاب آنا حضور کی ولاد ت شریف سے ہزاروں بر س پہلے ہے لیکن ان دونوں قسم کے واقعوں کے لئے رب تعالیٰ نے استفہام انکاری کے طور پر فرمایا:''اَلَمْ تَرَ''کیا آپ نے یہ واقعات نہ دیکھے یعنی دیکھے ہیں معلوم ہو ا کہ نبی کی نظر گذشتہ آئندہ سب کو دیکھتی ہے اس لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کی رات دوزخ میں مختلف قوموں کو عذاب پاتے دیکھا ۔ حالانکہ ان کا عذاب پانا قیامت کے بعد ہوگا ۔ اس لئے رب تعالیٰ نے فرمایا :
(2) سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا الَّذِیۡ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ البَصِیۡرُ ﴿۱﴾
پاک ہے وہ اللہ جو راتوں رات لے گیا اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے تا کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں بے شک وہ بندہ سننے والا دیکھنے والاہے ۔(پ15،بنی اسرآء یل:1)
معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نظر نے اگلے پچھلے واقعات ،اللہ کی ذات ،صفات ، نشانیاں، قدرت سب کو دیکھا ۔
اعتراض: یعقوب علیہ السلام کی نظر او رقوت شامہ اگر اتنی تیز تھی کہ مصر کے حالات معلوم کرلیئے تو چالیس سال تک فراق یوسف میں کیوں روتے رہے ان کے رونے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ یوسف علیہ السلام سے بے خبر تھے ۔
جواب : اس کاآسان جواب تویہ ہے کہ انبیاء کی تمام قوتیں اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہیں جب چاہتا ہے تب انہیں ادھر متوجہ کردیتا ہے اور جب چاہتا ہے ادھر متوجہ نہیں فرماتا ۔ بے علمی او ر ہے بے تو جہی کچھ اور۔ تحقیقی جواب یہ ہے کہ یعقوب علیہ السلام کا گر یہ عشق الٰہی میں تھا یوسف علیہ السلام اس کا سبب ظاہر ی تھے مجاز حقیقت کا پل ہے ورنہ آپ یوسف علیہ السلام کے ہر حال سے واقف تھے خود قرآن کریم نے ان کے کچھ قول ایسے نقل فرمائے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتے تھے ۔ فرماتا ہے ۔
(1) قَالَ اِنَّمَاۤ اَشْکُوۡا بَثِّیۡ وَحُزْنِیۡۤ اِلَی اللہِ وَاَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوۡنَ ﴿۸۶﴾ یٰبَنِیَّ اذْہَبُوۡا فَتَحَسَّسُوۡا مِنۡ یُّوۡسُفَ وَاَخِیۡہِ وَلَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوْحِ اللہِ ؕ
میں اپنی پر یشانی او رغم کی فریاد اللہ سے کرتاہوں اوراللہ کی طر ف سے وہ باتیں جانتا ہوں جوتم نہیں جانتے اے بچو!جاؤ یوسف او راس کے بھائی کا سراغ لگاؤاور اللہ سے ناامید نہ ہو۔(پ13،یوسف:86،87)
(2) عَسَی اللہُ اَنۡ یَّاۡتِـیَنِیۡ بِہِمْ جَمِیۡعًا ؕ
قریب ہے کہ اللہ ان تینوں یہود ا،بنیامین، یوسف کو میرے پاس لائے گا ۔(پ13،یوسف:83)
پہلی آیت میں فرمایا گیا کہ برادارن یوسف علیہ السلام بنیامین کو مصر میں چھوڑ کر آئے تھے مگر آپ فرماتے ہیں یوسف اور اس کے بنیامین بھائی کا سراغ لگاؤ یعنی وہ دونوں ایک ہی جگہ ہیں دوسری آیت سے معلوم ہو اکہ دو بارہ مصر میں بظاہر یہودا اور بینا مین دو نوں گئے تھے مگر آپ فرماتے ہیں کہ اللہ ان تینوں کو میرے پاس لائے گا تیسرے کو ن تھے وہ یوسف علیہ السلام ہی تو تھے ۔
(3) وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیۡکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ
اے یوسف تمہیں اللہ اسی طر ح نبوت کے لئے چنے گا او ر تمہیں باتوں کا انجام بتائے گا۔(پ12،یوسف:6)
خود تعبیر دے چکے ہیں کہ تم نبی بنوگے اور علم تعبیر دیئے جاؤگے اور ابھی تک وہ تعبیر ظاہر نہ ہوئی تھی اور آپ جانتے تھے کہ یہ خواب سچا ہے ضرور ظاہر ہوگا ۔
اعتراض: حضرت سلیمان علیہ السلام کو بلقیس کے ملک کی خبر نہ ہوئی ہدہد نے کہا
اَحَطۡتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ وَ جِئْتُکَ مِنۡ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیۡنٍ ﴿۲۲﴾
میں وہ بات دیکھ آیا ہوں جو آپ نے نہ دیکھی اورمیں آپ کے پاس سبا سے سچی خبر لایا ہوں ۔(پ19،النمل:22)
اس کے جواب میں آپ نے فرمایا :
قَالَ سَنَنۡظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ کُنۡتَ مِنَ الْکٰذِبِیۡنَ ﴿۲۷﴾
فرمایا اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا یا تو جھوٹوں میں سے ہے ۔(پ19،النمل:27)
اگر آپ ملک بلقیس سے واقف ہوتے تو بلقیس کے پاس خط بھیج کر یہ تحقیق کیوں فرماتے کہ ہدہد سچا ہے یا جھوٹا معلوم ہوا کہ آپ بلقیس سے بے خبر تھے اور ہدہد خبر دار تھا پتا لگا کہ نبی کے علم سے جانور کا علم زیادہ ہوسکتا ہے۔( وہابی دیوبندی)
جواب : ان آیات میں رب تعالیٰ نے کہیں نہ فرمایا کہ سلیمان علیہ السلام کو علم نہ تھا ہدہد نے بھی آکر یہ نہ کہا کہ آپ کو بلقیس کی خبر نہیں وہ کہتا ہے اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ میں وہ چیز دیکھ کرآیاجو آپ نے نہ دیکھی۔ یعنی نہ آپ وہاں گئے تھے نہ دیکھ کر آئے تھے۔ یہ کہاں سے پتا لگا کہ آپ بے خبر بھی تھے اگر بے خبر ہوتے تو جب آصف کوحکم دیا کہ بلقیس کا تخت لاؤ تو آصف نے کہا کہ حضور میں نے وہ جگہ دیکھی نہیں نہ مجھے خبر ہے کہ اس کا تخت کہا ں رکھا ہے آپ ہدہد کو میرے ساتھ بھیجیں وہ راستہ دکھائے تو میں لادوں گا نہ کسی سے راستہ پوچھا نہ پتا دریافت کیا بلکہ آناً فاناً حاضر کردیا ۔ اگر وہ تخت ان کی نگاہوں کے سامنے نہ تھاتو لے کیسے آئے جب آصف کی نگاہ سے تخت غائب نہیں تو حضرت سلیمان علیہ السلام سے کیسے غائب ہوگا ۔ مگر ہر کام کا ایک وقت اور ایک سبب ہوتا ہے بلقیس کے ایمان لانے کا یہ ہی وقت تھا او رہدہد کو اس کا سبب بنانا منظور تھا تاکہ پتالگے کہ پیغمبر وں کے درباری جانور بھی لوگو ں کو ایمان دیا کرتے ہیں اس لیے اس سے پہلے آپ کو بلقیس کی خبر نہ دی۔آپ کا تحقیق فرمانا بے علمی کی دلیل نہیں ورنہ رب تعالیٰ بھی قیامت میں تمام مخلوق کے اعمال کی تحقیق فرما کر فیصلہ کر ے گا ۔ تو چاہئے کہ وہ بھی بے خبر ہو۔(علم القرآن حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرّحمہ)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔