حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر دلوایا اہل تشیع کے اس بھونڈے اعتراض کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت امیر معاویہ پر لگائے جانے والے الزامات میں سے ایک الزام حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر دے کر قتل کرنا ہے۔ یہ الزام انتہائی بے بنیاد اور لغو ہے۔حتٰی کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی معلوم نہ ہو سکا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کس نے قتل کیا ہے، تو کس طرح دوسروں کو معلوم ہو گیا کہ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نعوذ باللہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتل کیا ہے؟
قال بن سعد أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم أخبرنا بن عون عن عمير بن إسحاق دخلت أنا وصاحب لي على الحسن بن علي فقال لقد لفظت طائفة من كبدي وإني قد سقيت السم مرارا فلم أسق مثل هذا فأتاه الحسين بن علي فسأله من سقاك فأبى أن يخبره رحمه الله تعالى
عمیر بن اسحق کہتے تھے کہ میں اور میرے ایک ساتھی حسنؓ کے پاس گئے انہوں نے کہا کہ میرے جگر کے کچھ ٹکڑے گرچکے ہیں اورمجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا؛ لیکن اس مرتبہ کہ ایسا قاتل کبھی نہ تھا اس کے بعد حسینؓ ان کے پاس آئے اورپوچھا کس نےپلایا، لیکن انہوں نے بتانے سے انکار کیا۔ رحمہ اللہ تعالی
الإصابة في تمييز الصحابة ج ۲ ص ۷۳
اسی طرح اہل شیعہ کی مشہور کتاب بحار الانوار میں علامہ مجلسی نے مروج الذہب للمسعودی الشیعی سے مندرجہ زیل روایت نقل کی ہے۔
عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده علي بن الحسين عليهم السلام قال: دخل الحسين على عمي الحسن حدثان ما سقي السم فقام لحاجة الانسان ثم رجع فقال: سقيت السم عدة مرات، وما سقيت مثل هذه، لقد لفظت طائفة من كبدي ورأيتني أقلبه بعود في يدي، فقال له الحسين عليه السلام: يا أخي ومن سقاك؟ قال: وما تريد بذلك؟ فإن كان الذي أظنه فالله حسيبه، وإن كان غيره فما أحب أن يؤخذ بي برئ، فلم يلبث بعد ذلك إلا ثلاثا حتى توفي صلوات الله عليه
علی بن حسینؓ بن علی بن ابی طالب (زین العابدین) بیان کرتے ہیں کہ حسینؓ میرے چچا حسنؓ بن علی کے پاس ان کے زہر پلانے کے وقت گئے تو حسنؓ قضائے حاجت کے لئے گئے وہاں سے لوٹ کر کہا کہ مجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا،لیکن اس مرتبہ کے ایسا کبھی نہ تھا اس میں میرے جگر کے ٹکڑے باہر آگئے تم مجھے دیکھتے کہ میں ان کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا، حسینؓ نے پوچھا بھائی صاحب کس نے پلایا؟ حسنؓ نے کہا، اس سوال سے تمہارا کیا مقصد ہے،اگر زہر دینے والا وہی شخص ہے جس کے متعلق میرا گمان ہے تو خدا اس کے لئے کافی ہے اور اگر دوسرا ہے تو میں یہ نہیں پسند کرتا کہ میری وجہ سے کوئی ناکردہ گناہ پکڑا جائے، اس کے بعد حسنؓ زیادہ نہ ٹھہرے اور تین دن کے بعد انتقال کرگئے۔
بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ٤٤ - الصفحة ١٤٨
پس معلوم ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر لگایا جانے والا یہ الزام کوئی بنیاد نہیں رکھتا، یہ امیر معاویہ کے دشمنوں کا اپنا ایجادکردہ الزام ہے۔
ابن خلدون اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں
وما ينقل من ان معاوية دس إليه السم مع زوجه جعدة بنت الاشعث فهو من أحاديث الشيعة وحاشا لمعاوية من ذلك
اوریہ روایت کہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی بیوی سے مل کر زہر دلایا شیعوں کی بنائی ہوئی ہے حاشا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات سے اس کاکوئی تعلق نہیں
ابن خلدون ج ۲ ص ١۸۷
حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں
وأما قوله : إن معاوية سم الحسن ، فهذا مما ذكره بعض الناس ، ولم يثبت ذلك ببينة شرعية ، أو إقرار معتبر ، ولا نقل يجزم به ، وهذا مما لا يمكن العلم به ، فالقول به قول بلا علم
بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حسن کو معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زہر دیا تھا کہ کسی شرعی دلیل اورمعتبر اقرار سے ثابت نہیں ہے اورنہ کوئی قابل وثوق روایت سے اس کی شہادت ملتی ہے اوریہ واقعہ ان واقعوں میں ہے جس کی تہ تک نہیں پہنچا جاسکتا اس لئے اس کے متعلق کچھ کہنا بے علم کی بات کہنا ہے
منہاج السنہ ج ۴ ص ۴٦۹
حافظ ابن کثیر اس کے متعلق فرماتے ہیں
وعندي أن هذا ليس بصحيح ، وعدم صحته عن أبيه معاوية بطريق الأولى
میرے نزدیک تو یہ بات بھی صحیح نہیں کہ یزید نے سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر دے کر شہید کر دیا ہے۔ اور اس کے والد ماجد سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ گمان کرنا بطریق اولٰی غلط ہے۔
البدایہ والنہایہ ج ۸ ص ۴۳
امام ذہبی اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں
قلت : هذا شيء لا يصح فمن الذي اطلع عليه
میں کہتا ہوں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے، اور اس پر کون مطلع ہو سکا ہے
تاریخ اسلام ص ۴۰
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔