Pages

Saturday 19 August 2017

علم و جہالت اور جاہل

علم و جہالت اور جاہل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قرآن مجید میں ایک جگہ نہیں کئی جگہ علم کی اہمیت اور علم کی فضیلت کا ذکر ہے۔ سورہ فاطر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہے۔ نہ تاریکیاں اور روشنی یکساں ہیں ۔ نہ ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی ہے اور نہ زندے اورمردے مساوی ہیں ۔ اللہ جسے چاہتا ہے سنورتا ہے مگر (اے نبیؐ) تم ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں ‘‘۔ (آیت 20-22) سورہ فاطر کی 20 تا 22 آیتوں میں جہاں علم اور اسلام کی عظمت اور فضیلت کا ذکر ہے وہیں کفر اور جہالت کی بھی شدید مذمت ہے۔ مومن کو زندہ سے اور جاہل کو کافر کو مردہ سے تشبیہ دی گئی ہے؛ یعنی علم اور ایمان (مومن) والے کے اندر احساس و ادراک اور فہم و شعور ہوتا ہے ۔ اس کا ضمیر اسے بھلے اور برے کی تمیز سے ہر وقت آگاہ کر رہا ہوتا ہے۔

اس کے برعکس جو جاہل، بے علم اور بے ایمان ہوتے ہیں وہ شخص تعصب اور جہالت میں پورے طور پر گرفتار ہوتا ہے۔ اس کا حال اندھے سے بھی بدتر ہوتا ہے جو تاریکیوں میں بھٹک رہا ہوتا ہے اور اس کی حالت مردے سے بھی بدتر ہوتی ہے جس میں کوئی حِس باقی نہیں رہتی۔ علم و ایمان سے انسان کو تہذیب اور سلیقہ معلوم ہوتا ہے۔ جینے یا زندگی گزارنے کا طریقہ جانتا ہے لیکن جو علم و ایمان سے محروم ہوتا ہے وہ تہذیب اور سلیقۂ زندگی سے محروم ہوتا ہے؟ تہذیب کیا ہے، احترام آدمیت۔ احترام کے بنیادی تصور کے مطابق علم اپنی عظمت و اہمیت کی رو سے اس بات کا متقاضی ہے۔ اس کی ضد جہالت کا مکمل خاتمہ ہے جس طرح علم و ایمان لازم و ملزوم ہے اسی طرح جہالت و کفر لازم و ملزوم ہے۔ قرآن نے جہالت کے انہی تباہ کن نتائج کی بنا پر اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔

جہالت اور ایمان کو ایک دوسرے کی ضد قرار دیتا ہے۔ یہاں تک کہا گیا ہے کہ جاہلوں کے پاس اگر فرشتے بھیج دیئے جاتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کر دیتے جب بھی ایمان لانے والے نہ تھے‘‘۔ (سورہ الانعام: آیت 111)

حضرت نوح علیہ السلام کے علمی اور عقلی دلائل کو جب ان کی قوم پر کوئی اثر نہ ہوا تو انھوں نے ا س کا سب سے بڑا سبب یہی بیان کیا کہ مجھے نظر آرہا ہے کہ تم وہ لوگ ہو جو جہالت میں مبتلا ہو۔ ولٰکنی اراکم قوماً تجہلون۔ (29-11)

حضرت لوط علیہ السلام کے مطابق ان کی قوم بھی جہالت کی وجہ سے ایمان لانے سے قاصر رہی۔ انتم قوم تجہلون۔ (55-17)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کے کفر پر جمے رہنے کا سبب ان کی جہالت ہی بیان کیا تھا: قال انکم قوم تجہلون (137:7)

جہالت اتنی تباہ کن اور خوف ناک چیز ہے کہ شعور تو شعور لاشعور میں بھی اس سے ہوشیار رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ خود سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: فلا تکونن من الجاہلین۔ (35:6) ’’دیکھئے؛ آپ جاہلوں میں سے نہ ہونا‘‘۔

جہالت کی انہی تباہ کاریوں کا نتیجہ تھا کہ حضرت موسیٰؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر جہالت سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے: قال اعوذباللہ ان اکون من الجاہلین۔ قرآن مجید سے تو یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جہالت کفر سے بھی بری چیز ہے، اس لئے اکثر جگہ جاہلوں کو لاعلاج قرار دیتے ہوئے ان سے اعراض کرنے کی ہدایت کی گئی ہے: و اعرض عن الجاہلین۔ (199:7)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔