Pages

Tuesday 8 August 2017

انگریز کے وفادار

*انگریز کے وفادار*
*ملک کے غدار*

*¤*اہلِ غیرت اُسے نظروں سے گرا دیتے ھیں
*¤*بزم توقیر و شرافت سے اُٹھا دیتے ھیں

*وفاداران انگریز کی مختصر فہرست:-*

[1 ] *مولوی اسماعیل دہلوی:* مسلمانوں پر شرک و بدعت کا الزام عائد کیااور انگریز سے جہاد کی ممانعت کی۔
[2 ] *مولوی سید احمد رائے بریلوی*: اسماعیل دہلوی کا مرشد[سکھوں و سرحدی پٹھانوں کو انگریزی وفادار بنانے کے لیے جدوجہد کی]
[3 ] *مولوی نذیر حسین دہلوی* غیر مقلد: انگریزی حکومت کو خدا کی رحمت کہا
[4 ] *مولوی نواب صدیق حسن بھوپالی*: انگریز کے خلاف جہاد کو حرام کہا
[5 ] *مولوی محمد حسین بٹالوی*: مجاہدینِ آزادی کو فسادی کہا-
[6 ] *مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی*: انگریزی حکومت کو رَحم دل گورنمنٹ کہا اور مجاہدین کو فسادی کہا-
[7 ] *مولوی خلیل احمد انبیٹھوی دیوبندی*
[8 ] *ڈپٹی نذیر احمد دہلوی*
[9 ] *مولوی الطاف حسین حالی:* حالی نے انگریز کی حمایت میں کہا:

*¤*مژدہ ہو اہلِ مشرق اب دن پھرے ہمارے
*¤*مغرب سے سوئے مشرق آیا ہے مہر تاباں

[10] *مولوی شبلی نعمانی:* انگریزی حکومت کی اطاعت پر ناز تھا
[11] *مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی*: 600روپے کے انگریزی وظیفہ خوار
[12] *مولوی شاہ محمد اسحاق دہلوی*: "اربعین و مائۃ مسائل" لکھ کر انگریز کو خوش کیا؛ جس کا جواب مجاہدِ آزادی مولانا شاہ احمد سعید مجددی نقشبندی مہاجر مدنی نے دیا-
[13] *مولوی محمدالیاس دہلوی دیوبندی* [سرخیل تبلیغی جماعت] ابتدائی ایام کے انگریزی وظیفہ خوار
[14] *مولوی محمد احسن نانوتوی*: انگریز کی حمایت میں بیان جاری کیا۔
[15] شیخ محمد تھانوی
[16] مظہر علی: برادر مولوی اشرف علی تھانوی: ریشمی رومال تحریک کا انگریزی مخبر؛پل پل کا انگریزی رپورٹر
[17] *مرزا غلام احمد قادیانی*: انگریز کی سرپرستی میں عقیدۂ ختم نبوت پر حملہ کیا اور مولوی قاسم نانوتوی دیوبندی کی کتاب "تحذیر الناس" کی عملی تصویر پیش کی- جس کی تردید میں اعلیٰ حضرت نے ’’المبین ختم النبیین، الجرازالدیانی" جیسی کتب لکھیں۔ فرزندِ رضا علامہ حامد رضا خان نے ’’الصارم الربانی علی اسراف القادیانی‘‘ لکھی۔

***

📜[ماخوذ:- انگریزوں کے چند پشتینی وفادار،اسد نظامی، ماہ نامہ اہلسنّت کراچی، جولائی 1975،ص242سے250، دیگر کتب]

*بنیادی ماخذ:*
☆[۱]حیات طیبہ: مرزا حیرت دہلوی
☆[۲]سوانح احمدی: محمد جعفر تھانیسری
☆[۳]الحیات بعد الممات: فضل حسین بہاری
☆[۴]تذکرۃالرشید: مولوی عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی
☆[۵]تذکرۃالخلیل: مولوی عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی
☆[۶]انڈین نیشنل کانگریس: نذیر احمد دہلوی
☆[۷]کلیات حالی
☆[۸]حیات شبلی: بروایت سلیمان ندوی
☆[۹]الافاضات الیومیہ: ملفوظات مولوی اشرف علی تھانوی
☆[۱۰]مولانا احسن نانوتوی:پروفیسر محمد ایوب قادری
☆[۱۱]مکالمۃالصدرین: مطبوعہ سہارن پور
☆[۱۲]ماہ نامہ شو ٹائم کراچی بیان شاہ محمد امروٹی
***
*تا کہ سند رہے:*

[چند اقتباسات مع حوالہ جات؛ تا کہ اندازہ ہو کہ حقائق کیا ہیں۔ وہابی دیوبندی غیر مقلد و قادیانی اپنے مسلک کو بچانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں، فرضی کتابیں گڑھتے اور بے دلیل باتیں لکھتے ہیں۔ الحمدللہ! ہم اہلِ سنّت سچ؛حق؛ مستند باتیں ہی لکھتے ہیں۔ صرف تمثیل میں چند حوالے بغور پڑھیں۔]

[1] لفٹِننٹ گورنر ممالکِ متحدہ اَوَدھ وآگرہ کے نمائندہ مسٹر پامر نے ۳۱؍جنوری ۱۸۷۵ء کے اپنے دورَۂ مدرسہ(بہاولپور) کی رپورٹ میں لکھا :’’جوکام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں روپے کے صَرفہ سے ہوتا ہے وہ یہاں کوڑیوں میں ہورہا ہے۔ جوکام پرنسپل ہزاروں روپے ماہانہ تنخواہ لے کر کرتا ہے وہ یہاں ایک مولوی چالیس روپے ماہانہ پرکررہا ہے۔ یہ مدرسہ خلافِ سرکار نہیں بلکہ مُمِد ومُعاوِن سرکار ہے۔‘‘
📜(سوانحِ مولانا محمداحسن نانوتوی، پروفیسر محمدایوب قادری دیوبندی، ص۲۱۷،مطبوعہ کراچی)

[2] انگریز لارڈ ڈفر ن کی مدرسۂ دیوبند آمد کے حوالے سے مولانا عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں: ’’مدرسۂ دیوبند اس وقت گورنمنٹ کی نظروں میں ایک خاص رنگ رکھتا تھا۔‘‘ 
📜(تذکرۃالخلیل، از مولانا عاشق الٰہی میرٹھی، مکتبۃالشیخ سہارن پور۱۴۱۱ھ،ص۱۳۰)

   مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی اپنی ایک مجلس میں فرماتے ہیں:
    ’’میری طالب علمی کے زمانے میں ایک انگریز کلکٹر مدرسۂ دیوبند میں آنے والا تھا میں نے حضرت مولانا یعقوب صاحب سے عرض کیا کہ اگر وہ چندہ دیں تو آپ قبول کر لیں گے؟ فرمایا: ہاں۔‘'
📜(مجالس حکیم الامت،مولانا محمد شفیع دیوبندی،فرید بک ڈپو دہلی ۱۴۲۳ھ،ص۱۸۸)

[3] مولانا اشرف علی تھانوی کو انگریز حکومت وظیفہ سے نوازتی تھی۔دیوبند کی ایک میٹنگ کی روداد میں ہے:
’’دیکھیے۔حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے آپ کے مسلَّم بزرگ وپیشواتھے- ان کے متعلق بعض لوگوں کو یہ کہتے سناگیا کہ:’’ان کو چھ سوروپیہ ماہ وارحکومت کی جانب سے دیے جاتے تھے۔‘‘اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ’’ مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس کا علم نہیں تھا کہ روپیہ حکومت دیتی ہے ۔مگرحکومت ایسے عنوان سے دیتی تھی کہ ان کواس کا شُبہہ بھی نہ گزرتا تھا۔‘‘
📜(مکالمۃُ الصَّدْرَین،بہ انتظام محمد ذکی دیوبندی، مطبوعہ دارالاشاعت دیوبند،ص۹)

[4]  اسی روداد میں’’تبلیغی جماعت‘‘کو انگریز گورنمنٹ سے مالی مدد ملنے کا واضح ذکر ان الفاظ میں ہے:
    ’’اسی ضمن میں مولانا حفظ الرحمن صاحب نے کہا کہ مولانا الیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ کی تبلیغی تحریک کو بھی ابتداء ً حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمد صاحب کچھ روپیہ ملتا تھا پھر بند ہوگیا۔‘‘
📜(مکالمۃُ الصَّدْرَین،بہ انتظام محمد ذکی دیوبندی، مطبوعہ دارالاشاعت دیوبند ،ص۸)

[5]   دیوبندی مکتبِ فکر مولانا رشید احمد گنگوہی کو آزادی کا ہیرو قرار دیتا ہے۔اس بابت مطالعہ کی روشنی میں حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔انھیں کے سوانح نگار لکھتے ہیں:
    ’’شروع ۱۲۷۶ہجری نبوی ۱۸۵۹ء وہ سال تھا جس میں حضرت امام ربانی قدس سرہٗ (گنگوہی) پر اپنی سرکارسے باغی ہونے کا الزام لگایا گیا اور مفسدوں میں شریک رہنے کی تہمت باندھی گئی۔‘‘ 
📜(تذکرۃالرشید، مولانا عاشق الٰہی میرٹھی، دارالکتاب دیوبند۲۰۰۲ء،ص۱۱۱،ج۱)

    اس اقتباس میں حکومتِ انگریز کو ’’اپنی سرکار‘‘ اور مجاہدین آزادی کو مفسد یعنی فسادی قرار دیا گیا ہے۔پھر یہی نہیں بلکہ ۱۸۵۷ء کی جہادِ آزادی کو بغاوت اورمخالفین انگریز کو حکمراں کا نافرمان قرار دیتے ہوئے مولانا عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی نے یہاں تک لکھ دیا:
    ’’انھوں نے(انگریز) کمپنی کے امن و عافیت کا زمانہ قدر کی نظر سے نہ دیکھا اور اپنی رحم دل گورنمنٹ کے سامنے بغاوت کا علم قائم کیا، فوجیں باغی ہوئیں، حاکم کی نافرمان بنیں، قتل و قتال کا بند بازار کھولا اور جواں مردی کے غرّہ میں اپنے پیروں پر خود کلہاڑیاں ماریں۔‘‘
📜(تذکرۃالرشید، مولانا عاشق الٰہی میرٹھی، دارالکتاب دیوبند۲۰۰۲ء،ص۱۱۳،ج۱)

[6]  غیر مقلد عالم مولانا نذیر حسین دہلوی(م۱۹۰۲ء جنھیں وہابیہ شیخ الکل کہتے ہیں) سے متعلق غیر مقلد عالم مولانا فضل حسین لکھتے ہیں:
’’میاں صاحب(نذیر حسین) بھی گورنمنٹ انگلشیہ کے کیسے وفادارتھے۔ زمانۂ غدر ۱۸۵۷ء میں جب دہلی کے بعض مقتدر اور بیش تر معمولی مولویوں نے انگریزوں پر جہاد کا فتویٰ دیا تو میاں صاحب نے نہ اس پر دستخط کیا نہ مہر۔‘‘
📜(الحیات بعدالممات،مولانا فضل حسین ، الکتاب انٹرنیشنل دہلی،ص۹۳)

[7]  میاں نذیر حسین کے رفیق و شاگرد مولوی تلطف حسین نے پاشاے مکہ کو مخاطب میں اقرار کیا ہے کہ ہندوستان میں انگریز گورنمنٹ رحمت ہے۔ وہ کہتے ہیں:
    ’’اس کے بعد ہم یہ کہنے سے معذور سمجھے جائیں کہ انگریزی گورنمنٹ ہندوستان میں ہم مسلمانوں کے لیے خدا کی رحمت ہے۔‘‘
📜(الحیات بعد الممات، مولانا فضل حسین، الکتاب انٹرنیشنل دہلی، ص112)

[8]   جب میاں نذیر حسین دہلوی نے حج کا قصد کیا تو انگریز نے ازرہِ ہم دردی ایک مکتوب تحریر کیا جسے یہاں درج کیا جاتا ہے:
Moulvi Nazir Husain is a leading moulvi in Delhi who is difficult times proved his Loyalty to the British government and in his Pilgrimage to macca. I hope any British officer, whose help or protection he my need will affordit to him as he most fully desrves it.

Signed J.D. Tremlett
B.C.S. Commissioner & Supdt. Delhi Division, August 10th, 1888

*ترجمہ:* مولوی نذیر حسین دہلی کے ایک بڑے مقتدر عالم ہیں۔ جنھوں نے نازک وقتوں میں اپنی وفاداری گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ ثابت کی ہے، اب وہ اپنے فرض زیارتِ کعبہ کے ادا کرنے کو مکہ جاتے ہیں۔
    میں امید کرتا ہوں کہ جس برٹش گورنمنٹ افسر کی وہ مدد چاہیں گے وہ ان کو مدد دے گا کیوں کہ وہ کامل طور سے اس مدد کے مستحق ہیں۔
            دستخط  جے ڈی ٹریملٹ بنگال سروس کمشنر دہلی و سپرنٹنڈنٹ                      ۱۰؍اگست ۱۸۸۳ء
📜(الحیات بعدالممات،مولانا فضل حسین ، الکتاب انٹرنیشنل دہلی،ص۱۰۰۔۱۰۱)
*نوٹ:* ترجمہ میں سن ۱۸۸۸ء ہونا چاہیے تھا، غالباً کمپوزنگ کی غلطی سے ۱۸۸۳ء لکھا گیا ہو-

[9]   مرزا قادیانی اپنے ماننے والوں کو اپنی کتاب ’’تبلیغ رسالت‘‘ جلددہم ص۱۲۳۔۱۲۴ پر یہ نصیحت کرتا ہے:
"سو انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے۔ تمہارے لیے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے۔ پس تم دل و جان سے اس سپر کی قدر کرو اور تمہارے مخالف جو مسلمان ہیں، ہزارہا درجہ ان سے انگریز بہتر ہیں۔
📜(قادیانی مذہب، پروفیسر الیاس برنی،مطبوعہ کلکتہ، ص۷۴۸)

*عرض:* ہماری گزارش ہے کہ اِس پوسٹ میں بِنا کسی تبدیلی کے اِسے عام کریں اور سچ کی اشاعت کریں۔

*مرتب:*
غلام مصطفٰی رضوی،
*نوری مشن مالیگاوں*

*ترسیل صدق:-*
*¤* نوری مشن،
*¤*اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن، حیدرآباد
***
*رابطہ:*
Cell. 0091 9325028586
gmrazvi92@gmail.com
***
اگست 2017
***

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔