Pages

Sunday, 6 November 2016

دنیا کے پجاری آج کل کے کچھ جعلی پیروں کا تعارف

دنیا کے پجاری آج کل کے کچھ جعلی پیروں کا تعارف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سینکڑوں ہزاروں مربع زمینیں، وسیع و عریض کاروبار، کروڑوں اربوں کے بینک بیلنس، مہنگی ترین گاڑیاں، مہنگے ترین علاقوں میں محلات اور کوٹھیاں، فائیو سٹارز ہوٹلوں کے کھانے اور رہائشیں شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، سیاست کی آنیاں جانیاں، اعلیٰ سطح کے حکومتی وغیر حکومتی تعلقات، امیر ترین خانوادوں اور خاندانوں میں رشتے، ایسی سہولیات و تعیشات کہ بڑے بڑے وزیر بھی دیکھ کر رشک سے مر جائیں۔ کسی بھی حکومت کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

ہر آنے والی نئی حکومت سرا وعلانیۃ ان کی آشیر باد حاصل کرتی ہے۔ انہیں مختلف عہدوں سے نوازا جاتا ہے، وزارتیں پیش کی جاتی ہیں، کانفرنسوں میں مہمان خصوصی بنایا جاتا ہے، غیر ملکی دورے کروائے جاتے ہیں، بیش بہا تحائف دیئے جاتے ہیں، بوقت ضرورت خزانوں کے منہ ان کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی زبان پر یہی وظیفہ ہوتا ہے، نرخ بالا کن ارزانی ہنوز، ان کا پیٹ یہی صدائیں دیتا ہے شکم فقیراں تغار خدا ہر چہ آید فنا درفنا۔ ان کا سمندر سے بھی زیادہ ڈونگا دل پکار پکار کر یہی کہتا ہے هل من مزيد، هل من مزيد.
صدر الشرعیہ خلیفہ اعلیٰ حضرت علامہ امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’آج کل بہت سے لوگوں نے پیری مریدی کو پیشہ بنا لیا ہے، سالانہ مریدوں میں دورے کرتے ہیں اور طرح طرح سے رقمیں کھسوٹتے ہیں جن کو نذرانہ وغیرہ ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ بہت سے پیر ایسے بھی ہیں جو اس کے لئے جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں یہ (سب) ناجائز ہے۔

(بہار شریعت، ج : 2 ص : 670، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)۔

علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بعض پیر کمانے کی طاقت رکھتے ہیں مگر وہ سارا دن اپنے آستانوں پر لوگوں سے خیرات وصول کرتے رہتے ہیں۔ ان کا دھیان ہر وقت اس طرف لگا رہتا ہے کہ کوئی عقیدت مند بھی آئے گا اور نذرانہ پیش کرے گا۔ حالانکہ شریعت کا واضح مسئلہ ہے کہ غنی اور قوی شخص کے لئے خیرات لینا جائز نہیں (کہ یہ بھیک ہے)

(تلبیس ابلیس، ص : 331، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)

بہر حال پیری مریدی ایک خالصتاً نفع بخش کاروبار اور بہترین ذریعہ روزگار ہے۔ اس میں خسارے کا سودا بالکل نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص پیر بن کے بیٹھ جائے اس کی جھگی کا خرچہ بغیر کسی محنت کے بیٹھے بٹھائے چلتا رہتا ہے بلکہ مزید آسامیاں پھنسانے کے لئے لنگر کے پیسے بھی وافر مقدار میں ملتے رہتے ہیں۔ اسی لئے اقبال نے کہا تھا :

نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔