Pages

Thursday 3 November 2016

شریعت کی پابندی، بزرگانِ دین کا طرۂ امتیاز

شریعت کی پابندی، بزرگانِ دین کا طرۂ امتیاز
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اﷲ رب العزت سورئہ عنکبوت کی آخری آیت میں ارشاد فرماتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے ’’اور وہ لوگ جو ہمارا راستہ پانے کیلئے جد و جہد کرتے ہیں ہم ضرور بہ ضرور انہیں ہدایت کا راستہ بتلاتے ہیں۔ اور بیشک اﷲ سبحانہ وتعالیٰ اچھے لوگوں کے ساتھ ہے‘‘ ۔ اس آیت پاک میں وضاحت کے ساتھ بتلایا جارہا ہے کہ جو بھی راہِ ہدایت کو پانے کی جستجو کریگا تو اﷲتعالیٰ اس کو وہ عطا فرمائیگا۔ اب کون ہیں وہ جو راہِ ہدایت کو حاصل کرسکیں گے تو وہ ہیں اولیائُ اﷲ یعنی اﷲتعالیٰ کے دوست۔
بخاری و مسلم شریف میں حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ’’حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ندا(آواز) دیتا ہے اور فرماتا ہے ائے جبریل میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو، جب حضرت جبریل علیہ السلام اس بندہ سے محبت کرتے ہیں تو آسمان والوں کو حضرت جبریل علیہ السلام ندا(آواز) دیتے اور فرماتے کہ ائے آسمان والو: اﷲتعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو، جب آسمان والے اس بندے سے محبت کرتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ زمین پر رہنے والوں کے دلوں میں اس کے تعلق سے محبت پیدا کردیتا ہے۔(متفق علیہ)
ولی کے معنی دوست کے آتے ہیں۔ ولی کی پہچان یہ بتلائی گئی ہے کہ ’’اﷲ اور رسول کی پوری اتباع (پیروی) کرنے سے انسان درجہ ولایت کو پہنچتاہے‘‘۔بعض حضرات ولی کی تعریف میں یہ صراحت کئے ہیں ’’معرفت الٰہی سے آراستہ ہونا، ہمیشہ عبادت گزار رہنا، لذتوں اور خواہشوں کو ترک کرنا وغیرہ جو پوری اتباع میں یہ سب امور داخل ہیں۔ (نصاب اہل خدمات شرعیہ) ولایت یہ کسبی ہے یعنی محنت سے حاصل کی جانے والی چیز ہے۔ اور اس کا سلسلہ تاقیامت جاری وساری رہیگا۔ جس شخص کا اوڑھنا بچھونا تقویٰ و طہارت کے مطابق جتنا ہوگا اتنا ہی وہ ولایت کے درجے پر پہنچے گا۔
٭    ولی سے بھی ایسی خلاف عادت (عجیب وغریب) باتیں ظاہر ہوسکتی ہیں جن میں عقل حیران ہو اس کو کرامت کہتے ہیں۔
٭    ولایت کے لئے کرامت کا ظاہر ہونا شرط نہیں، البتہ شریعت کا پابند ہونا شرط ہے۔
٭    اولیائُ اﷲ سے محبت رکھنا چاہئے اور ان کے افعال حسنہ کی پیروی کرنی چاہئے۔
٭    انبیاء عظام اور اولیائُ اﷲ کو وسیلہ ٹہرا کر بارگاہ الٰہی میں التجا کرنا اور دعا مانگنا جائزہے۔

ہندوستان میں بے حساب بزرگانِ دین آئے ہیں اور تبلیغ دین کو اختیار کئے ہیں جس کے ذریعہ اکثر و بیشتر لوگ راہِ راست کو اختیار کئے ہیں اور وہ بھی کامیابی اور سرفرازی حاصل کئے ہیں۔ جن میں سے ایک بہت ہی بڑے بزرگ جن کو ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں رہنے والے سلطان الہند خواجہ خواجگان حضرت سیدنا معین الدین چشتی رحمۃ اﷲ علیہ کے نام سے جانتی ہے۔ آپ کی شخصیت انتہائی برکت اور عظمت والی ہے ، ولایت کے جتنے  اوصاف وکمالات بتلائے گئے ہیں وہ تمام کے تمام حضرت سلطان الہند کی حیات میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ یہی نہیں بلکہ لاکھوںکروڑوں لوگوں کے قلوب کوروشن و منور کرتے ہوئے انکی زندگیوں میں بڑی تبدیلی اور انقلاب لائے ہیں۔ یقیناً یہ ایک ایسا کارنامہ ہیں جس کو لوگ قیامت تک یاد رکھیں گے۔
آپ کی حیات مبارکہ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب آپ دہلی سے اجمیر تک کا سفر طے کئے تو اس دوران تقریباً ایک لاکھ سے زائد لوگ مذہب اسلام میں داخل ہوگئے سبحان اﷲ اس کو کہتے ہیں کرامت کیونکہ ہماری عقل اس کو آسانی سے مان نہیں سکتی ہے۔ اب یہ کونسا طریقہ تھا کہ لوگ جوق در جوق داخل اسلام ہوتے گئے۔ بس اس کا آسان سا جواب یہی ہے کہ حضرت سلطان الہند حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک ایک سنت کو اختیار کئے اور اسی پر عمل کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی بسر کئے ہیں۔ یعنی اخلاق، کردار، نرم گفتگو، اور ہر وقت اچھے اعمال کو اختیار کرنا اور برے اعمال سے پرہیز کرنایہ سب چیزیں آپ کے اندر موجودتھیں۔ چنانچہ شیخ الاسلام عارف باﷲ حافظ محمد انوار اﷲ فاروقی علیہ الرحمہ بانی جامعہ نظامیہ مقاصد الاسلام میں جو بزرگانِ دین کے متعلق تحریر فرمائے ہیں جسکا مختصر سا خلاصہ یہ ہے کہ ’’حضرت سلطان الہند بزرگانِ دین کی مجلسوں کے میر مجلس ہوتے ہیں۔ یعنی آپ کو یہ جو مقام ملاہے اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ ہمیشہ اﷲ تعالیٰ اور رسول پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت و فرمابرداری کو اپنے اوپر لازم کرلئے تھے۔ اور تمام مریدین و معتقدین کو بھی یہ درس دیتے کہ وہ بھی اسی طریقہ سے زندگی گزراتے رہیں تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیابی و سرفرازی حاصل ہوجائے‘‘۔

سرفرازی اور چاہت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ صرف زبان سے اس کا اظہار کریں بلکہ حقیقی چاہت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلتے رہیں۔ اگر ایسا ہو تو چاہت کا حق ادا ہوگا۔ ورنہ نہیں ہوگا۔ ہماری عبادتیں، ریاضتیں، گفتگو، اٹھنا، بیٹھنا، ملاقات کرنا، غصہ کو پی جانا اور اطاعت خدا ورسول کے مطابق ہوجائے تو ہی کامیابی حاصل ہوگی ورنہ صرف کہنے سے نہ محبت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہمارے مال میں ، رزق میں برکت ہوتی ہے۔ یہی درس ہمیں سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اﷲ دیئے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم تمام کو دارین میں کامیابی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔  آمین ثم آمین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔