Pages

Monday, 7 November 2016

سیدنا اَبوھُریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مانا

سیدنا اَبوھُریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مانا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا حافظہ شروع میں بہت خراب تھا اور وہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرشاداتِ گرامی کو یاد نہیں رکھ پاتے تھے۔ دریں اثناء اُنہوں نے حضور رحمۃٌللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں اِستغاثہ و اِلتجاء کی، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی نِسیان کی شکایت ہمیشہ کیلئے رفع فرما دی۔ یہی سبب ہے کہ آپ کثیرالرواۃ صحابی ہوئے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ خود بیان فرماتے ہیں :

قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! انِّيْ أَسْمَعُ مِنْکَ حَدِيْثاً کَثِيْراً أَنْسَاه، قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : أُبْسُطْ رِدَائَک، فَبَسَطْتُّه، قَالَ : فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ : ضَمِّ فَضَمَمْتُه، فَمَا نَسَيْتُ شَيْأً بَعْدُ.

میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ کی بہت سی احادیث سنتا ہوں اور پھر بھول جاتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی چادر پھیلاؤ، پس میں نے پھیلائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (فضا میں سے) اپنے ہاتھوں سے کوئی چیز اُٹھا کر اس (چادر) میں ڈالی، پھر فرمایا : اِسے اپنے سے ملا لو، پس میں نے ملا لیا اور پھر اُس کے بعد میں کبھی کوئی چیز نہ بھولا۔

(صحيح البخاری، کتاب العلم، 1 : 22)
(صحيح البخاری، کتاب الصوم، 1 : 274)

صحیح بخاری کی مذکورہ حدیثِ مبارکہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہر مشکل کا حل حاصل کرنے کیلئے اِستغاثہ کیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے بڑا موحّد اور کون ہو سکتا ہے! اور نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر داعی اِلیٰ التوحید کون قرار پا سکتا ہے! مگر اِس کے باوجود سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ و اِستمداد کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِنکار کی بجائے اُن کا مسئلہ زندگی بھر کیلئے حل فرما دیا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ہر موحّد یہ جانتا ہے کہ مُستعانِ حقیقی فقط اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے، انبیاء، اولیاء، صلحاء اور پاکانِ اُمت جن سے مدد طلب کی جاتی ہے، وہ تو حلِ مشکلات میں صرف سبب اور ذریعہ ہیں۔ اُن کا تصرّف محض اللہ تعالی کی عطاء سے قائم ہوتا ہے تاکہ وہ لوگوں کیلئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں مطلوب کے حصول کا ذرِیعہ اور وسیلہ بنیں۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کیا اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی حاجت کو پورا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں یہ نہیں فرمایا کہ جاؤ اللہ سے دُعا کرو اور توحید پر قائم رہو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہوا سے اَن دیکھی شے کی مٹھی بھر کر اُن کی چادر میں ڈال دی اور حکم دیا کہ اِسے اپنے سینے سے مل لو۔ پس اللہ تعالی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حاجت براری کے لئے اِس عمل کو بطور وسیلہ قبول کر لیا۔

ہر ذِی شعور موحّد یہ جانتا ہے کہ قضائے حاجت اور مطلب براری کے لئے دُعا اور مدد صرف اُسی سے مانگی جاتی ہے جس کے قبضۂ قدرت میں کل اِختیاراتِ عالم ہیں۔ جبکہ طالبِ وسیلہ کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ وسیلہ بننے اور شفاعت کرنے والا اللہ ربّ العزّت سے مُجھ گناہگار کی نسبت زیادہ قربت رکھتا ہے اور اُس کا مرتبہ اِستغاثہ کرنے والے کی نسبت بارگاہِ ایزدی میں زیادہ ہے۔ سائل اُسے مستغاثِ مجازی سے زیادہ کچھ نہیں جانتا کیونکہ وہ اِس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ مستغاثِ حقیقی فقط اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہی معاملہ حدیثِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے واضح ہوتا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔