مزارات پر مجاوری اعتراض کا مدلل جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عینی شرح بخاری میں ہے ضربہ محمد ابن حنیفۃ علی قبر ابن عباس۔ ان صحابہ کرام نے یہ فعل کئے اور ساری امت روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جاتی رہی۔ کسی محدث کسی فقیہ کسی عالم نے اس روضہ پر اعتراض نہ کیا لہٰذا اس حدیث کی وہ ہی توجیہہ ہوگی جو سلف نے کی ہے۔ یعنی قبر پر بیٹھنے کے معنے یہ ہیں کہ قبر پر چڑھ کر بیٹھنا۔ جو کہ منع ہے۔ جبکہ مجاور بننا تو جائز ہے۔ مجاور اسی کو تو کہتے ہیں جو قبر کا انتظام رکھے، کھولنے بند کرنے کی چابی وغیرہ اپنے پاس رکھے اور دیگر انتظامات کرے۔ یہ صحابہ کرام سے ثابت ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مسلمانوں کی ام المؤمنین حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور کی منتظمہ اور کنجی والی تھیں۔ جب صحابہ کرام کو زیارت کرنی ہوتی تو ان سے ہی کھلوا کر زیارت کرتے۔ ثبوت مشکوٰۃ باب الدفن۔ آج تک روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر مجاور رہتے ہیں کسی نے ان کو ناجائز نہیں کہا تو اولیائے کرام کے مزارات پر مجاوروں پر اعتراض کیسے؟
امام ملا علی قاری الحنفی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی شہرہ آفاق مرقاۃ شرح مشکوٰۃ شریف باب البکاء میں فرماتے ہیں؛۔
الظاھر انہ لاجتماع الاحباب للذکر والقراءۃ وحضورالاصاحب للدعا بالمغفرۃ والرحمۃ اما حمل فعلھا علی البعث المکروہ فغیرلائق لصنیع اھل البیت
ترجمہ؛۔ ظاہر ہے یہ قبور دوستوں اور صحابہ کے جمع ہونے کے لیئے تھا تاکہ ذکر اللہ اور تلاوتِ قرآن کریں اور دعائے مغفرت کریں لیکن ان بی بی کے اس کام کو محض بے فائدہ بنانا جو کہ مکروہ ہے یہ اہلبیت کی شان کے خلاف ہے۔
بہت سے صحابہ کرام نے خاص خاص قبروں پر عمارات بنائی ہیں یہ فعل صحابہ کی سنت ہے۔ چنانچہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کی قبرِ انور کے گرد عمارت بنائی۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس پر خوبصورت عمارت بنائی۔ حسن مثنی کی بیوی نے شوہر کی قبر پر قبہ ڈالا۔ جس کو بحوالہ مشکوٰۃ باب البکاء دیکھا جاسکتا ہے۔ اور اسی کے ماتحت امام ملا علی قاری نے وہ لکھا جو اوپر بیان کیا جاچکا۔
صاف معلوم ہوا کہ بلا فائدہ عمارت بنانا منع اور زائرین کے آرام کی نیت سے بنانا جائز ہے۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب بن حجش رضی اللہ عنہا کی قبر پر قبہ بنایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن کی قبر پر اور حضرت محمد ابن حنیفہ نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کی قبر پر قبہ بنایا۔ منتقے شرح مؤطاء امام مالک میں ابو عبد سلیمان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں؛۔
وضربہ عمر علی قبر زینب بن جحش وضربتہ عئاشۃ علی قبر اخیھا عبدالرحمٰن و ضربہ محمد ابن الحنفیۃ علی قبر ابن عباس وانما کرھہ لمن ضربہ علی وجہ السمعۃ والمباھات۔
ترجمہ؛۔ حضرت عمر نے زینب جحش کی قبر پر قبہ بنایا۔ حضرت عائشہ نے اپنے بھائی حضرت عبدالرحمٰن کی قبر پر قبہ بنایا محمد ابن حنیفہ (ابن علی رضی اللہ عنہما) نے ابن عباس رض؛اللہ عنہما نے ابن عباس کی قبر پر قبہ بنایا (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین)۔ اور جس نے قبہ بنانا مکروہ کہا ہے تو اس کے لیئے کہا جو کہ اس کو فخر و ریاکاری کے لیئے بنائے۔
کیا خیرالقرون سے بڑھ کر کسی کو سنتِ نبوی کا علم ہوسکتا ہے؟ کیا صحابہ کو معلوم نہ تھا کہ آخری دور میں ایسی نسل پیدا ہوجائے گی جو کہ ہمارے عمل کو (کفر شرک بدعت) کہہ کر رد کرے گی اور خود کو سلف کا پیروکار بھی سمجھے گی؟۔۔۔۔ کیا اگر یہ مزارات بنانا حرام ہوتے تو یہ سب صحابہ کرام کیا کبائر کے مرتکب تھے؟ انہوں نے نبی علیہ السلام کی صحبتِ مبارکہ میں بھی کچھ نہ سیکھا جو قبروں پر گنبد بنائے؟
کیا فرقہ دجالیہ (وہابیہ دیوبندی تلبیغی) یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ اگر یہ سب کچھ کفر شرک بدعت ہے تو کیا تم لوگ یہ کہنا چاہتے ہو کہ خیر القروں کو دین کا اتنا علم نہیں تھا جو 1300 سال بعد فرقہ وہابیہ دیوبند کے خوارج کو علم ہے؟
اب اس کے تناظر میں آپ خود فیصلہ کریں۔ دین بہت آسان ہے اس کو کمپلیکیٹڈ بنانے والے ہی خوارج ہیں ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔