Pages

Sunday 27 November 2016

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منانا قرآن و حدیث سے ثابت ہے ؟

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منانا قرآن و حدیث سے ثابت ہے ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آیئے کچھ قرآنی آیات اور احادیث کا بغور مطالعہ کرتے ہیں جس سے یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے گا کہ عیدِ میلاد منانا نہ صرف قرآن کی نص سے ثابت ہے بلکہ اس کے حق میں سلف صالحین اور ائمہ محدیثین کے اقوال کے علاوہ امت کا اجماع بھی رہا ہے اور آج تک اکثریت اسکو مناتی ہے۔ لہٰذا اسکا انکار کرنا اسلام کا انکار کرنا ہے اور یہ صریحاََ گناہ عظیم ہے جو انسان کو ایمان سے خارج کردیتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے:
ترجمہ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں (ف۱۲) دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیریوں سے (ف۱۳) اجالے میں لا، اور انھیں اللہ کے دن یاد دلا (ف۱٤) بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر بڑے صبرے والے شکر گزار کرو/ترجمہ کنزالایمان
آخر یہ (اللہ کے دن) ہیں کونسے؟ امام بیہقی رحیمہم اللہ اپنی مشہور تصنیف شعب الایمان میں رقم طراز ہیں کہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے دن اُس کے انعامات اور نشانیاں ہیں ۔ (تفسیر روح المعانی زیر تحت آیت 14:5
ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
قرآن پاک میں ارشاد ہے: (ترجمہ معارف القرآن) :  یہ (رسول کے ذریعہ سے گمراہی سے نکل کرہدایت کی طرف آنا ) خدا کا فضل ہے وہ فضل جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔
ترجمہ (کنز الایمان شریف) ۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا [٨] ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے
اس آیت کی تفسیر میں تفاسیر القرآن الحکیم میں آیا ہے کہ : قاموس (یعنی لغات) میں (اللہ کے دن) سے مراد نعمت ِ خداوندی ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابی بن کعب، مجاہد اور قتادہ (رضوان اللہ تعالیٰ علہیم اجمعین) کا بھی اپنی اپنی تفاسیر میں یہی معنیٰ مندرج ہے۔مقتل کے مطابق (اللہ کے دنوں) سے مراد ہر وہ اہم واقعہ ہے جو اللہ کی طرف سے ظاہر ہوا۔کچھ مفسرین کرام کا فرمانا ہے کہ (ایام اللہ) سے مراد اس طرح کے دن ہیں جن میں اللہ نےا پنی نعمت (یعنی انعامات اور فضل) اپنے عبد یعنی بندوں پر بھیجے ہوں جیسے مثال کے طور پر وہ دن جب بنی اسرائیل پر (من و سلوٰی) کی نعمت نازل ہوئی، یا وہ دن جب دریائے نیل دو حصوں میں منقسم ہوا (یعنی جب موسیٰ علیہ الصلوٰہ والسلام) بنی اسرائیل کو فرعون سے بچا کر اللہ کے حکم سے چل پڑے)۔ جیسا کہ (خازن ، تفسیر مدارک اور مفرداتِ غیب) میں منقول ہے۔ ان تمام دنوں میں افضل ترین نعمت جو اللہ کی طرف سے انسانوں کو عنایت ہوئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری (یعنی میلاد) کا دن ، آپ علیہ الصلوٰہ والسلام کا معراج  شریف اور دیگر اسی قرآنی آیت کی نص سے ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح کے اور دن جیسے کہ 10 ویں محرم کا روزہ ، واقعہ ہائلہ وغیرہ سب انہیں (ایام اللہ) میں شامل ہیں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (واللہ ذو فضل العظیم) کے معنی بیان فرماتے ہیں کہ : اسکے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اسلام اور نبوت کی جو نعمت عطا فرمائی ہے۔ اور یہ معنی بھی بیان فرمائے ہیں کہ مسلمانوں پر اسلام کی نعمت،اور یہ بھی فرمایا کہ (یعنی یہ نعمت یہ بھی ہے) کہ آپ علیہ السلام کو نازل فرمایااور (انکے ) ذریعے قرآن مجید عطا فرمایا۔ (رف ٹرانسلیشن) (تنویر المقباس من تفسیر ابن العباس)۔ انگلش اورسکین میں اصل متن اور الفاظ ملاحظہ کریں۔
قرآن کریم کی قدیم ترین تفاسیر اور سلف صالحین کے اقوال تو آپ پڑھ ہی لیں گے اس آرٹیکل میں ساتھ ساتھ یہ کہ اس کے ہی آخر میں تجزیہ بھی دیا جائے گا جس سے اپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ دیوبندی وہابی منکرین کس طرح اپنی مرضی کی قرآنی تشریحات کرتے ہیں اور غلط معنی اخذ کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال تفسیر ِ مدنی کبیر ہے۔جو کہ وہابی دارالسلام اشاعتی ادارہ چھاپتا ہےاور اسی طرح کے دیگر سلفی دیوبندی مکتبہ یہی نسخہ چھاپتے اور تقسیم کرتے ہیں ۔ پھر فیصلہ آپ کے ایمان پر چھوڑتے ہیں کہ آیا آپ کو پرانی تفاسیر قرآن اور سلف صالحین کی مستند تفاسیر اور تراجم منظور ہین یا یہ جدید دھرم کے خودساختہ ۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ دیوبندی وہابی نہ صرف اسلام سے خارج ہیں بلکہ پرلے درجے کے منافق بھی ہیں۔
اب اس غلط ترجمے اور معنی (جو کہ اس اوپر دیئے گئے سکین ) میں آپ نے پڑھا ہے ۔ اس کا رد ہم نہ صرف سنی تراجم بلکہ خود انکے ہی دیوبندی اور وہابی پرانے تراجم سے نیچے دے رہے ہیں ملاحظہ کیجیئے کہ یہ نیچے دیئے گئے تراجم انکے (مخالفین) کے دھرم کا پول کھولنے کے لیئے کافی ہیں۔ انصاف کا تقاضہ بڑھنے والے پر۔ ہمارا کام صرف محنت سے آپ تک یہ ساری معلومات پہنچانا ہے۔
ترجمہ: ہم اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں ۔ اسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں تاریخِ الٰہی 8 کے سبق آموز واقعات سنا کر نصیحت کر ۔ ان واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں 9 ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو ۔ 10
اور بھیجا تھا ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دیکر کہ نکال اپنی قوم کو اندھیروں سے اجالے کی طرف اور یاد دلا ان کو دن اللہ کے ، البتہ اس میں نشانیاں ہیں اس کو جو صبر کرنے والا ہے شکر گزار
اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو (کفر کی) تاریکیوں سے (ایمان کی) روشنی کی طرف لاؤ اور ان کو الله تعالیٰ کے معاملات (نعمت اور نقمت کے) یاد دلاؤ بلاشبہ ان معاملات میں عبرتیں ہیں ہر صابر شاکر کے لیے ۔ (ف۷) (5)
تفسير تفسير الجلالين/ المحلي و السيوطي (ت المحلي 864 هـ)۔
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِئَايَٰتِنَا } التسع وقلنا له { أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ } بني إسرائيل { مِنَ ٱلظُّلُمَٰتِ } الكفر { إِلَى ٱلنُّورِ } الإِيمان { وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ ٱللَّهِ } بنعمه { إِنَّ فِى ذَلِكَ } التذكير { لأَٰتٍ لّكُلِّ صَبَّارٍ } على الطاعة { شَكُورٍ } للنعم.
یہ تفسیرات کھلا ثبوت ہیں کہ مخالفین کی مخالفت محظ لاعلمی ، بے دینی، اور منافقت پر مبی ہے جس کا صحیح اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم کو مسلمانوں کو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ بھائی اپنے آقا علیہ السلام سے محبت کرو، انکی دنیا میں تشریف آوری پر قرآنی حکم کے مطابق شکر ادا کرو اس نعمت ِ عظیمہ کا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔