موجودہ دور میں تصوف میں پیدا ہونے والی خرابیاں اور جعلی پیر
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تصوف و سلوک جو ایک روحانی نظام تربیت کا نام ہے بدقسمتی سے آج اس میں بہت سے تضادات و اختلافات کی وجہ سے خرافات کی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ تصوف محض چند رسومات کی حد تک ہی رہ گیا ہے۔ تصوف کی بنیاد جس اخلاص پر تھی آج نام نہاد صوفیاء نے اسے ریاکاری اور دکھاوے کی بھینٹ چڑھا دیا ہے، جعلی پیروں نے تعویذ گنڈوں دم درود اور عرس منانے تک ہی ساری طریقت کو محدود کر دیا ہے۔ طریقت اور تصوف صرف اس بات سے عبارت ہو کر رہ گئے ہیں کہ بیعتِ شیخ کی جائے۔ اس عمل کے بعد نہ شیخ کو خبر کہ میرا مرید کس حال میں ہے اور نہ ہی مرید کو شیخ کے حال کی خبر بس تصوف اور بیعت محض رسمی سی چیز بن کر رہ گئے ہیں۔ سال بعد جملہ مریدین ایک جگہ جمع ہوں، سب عرس کی تقریب میں شریک ہوں اور پیر صاحب سالانہ دو چار دورے فرمائیں، نذر نیاز وصول کر کے واپس چلے جائیں اس طرح تصوف جو حب جاہ اور حب دنیا ترک کرنے کی تعلیم دیتا تھا کاروبار بن کر رہ گیا۔ تصوف و طریقت میں جانشینی اور وراثت کا تصور پیدا ہو گیا ہے اس طرح خانقاہی نظام میں بے پناہ قباحتیں اور خلاف شریعت امور در آئے ہیں سجادہ نشینی کا نسل در نسل نظام زوال پذیر ہوتے ہوئے عملاً یہ صورت اختیار کر گیا ہے :
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
(اقبال)
تصوف پر ایک ظلم یہ ہوا کہ علمائے دین تعلیم و تربیت کے پہلو سے بے توجہی برتنے لگے ہیں، تصوف کے لئے کوئی مقام دینی و شرعی علوم میں رہا نہ کسی خانقاہ میں۔ تصوف میں دوسرا بڑا فتنہ جو نام نہاد پیروں اور جھوٹے مفاد پرست دنیا دار صوفیوں نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اٹھایا ہے، شریعت کو مولویت کا نام دے کر بدنام کرنے کی تعلیم دی ہے۔ ان کے نزدیک قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم مولویوں کا کام ہے اولیاء و صوفیاء کا نہیں۔ علوم شرعیہ کی اس طرح نفی کی جا رہی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شاید طریقت، روحانیت، معرفت، ولایت اور حقیقت کا شریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔