Pages

Wednesday 23 November 2016

اللہ عزّ و جل کہاں ہے ؟

اللہ عزّ و جل کہاں ہے ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اہل السنت کے علماء ہمیشہ اللہ سبحانہ وتعالی کو مکان ، جسم اور جہت سے پاک اور منزہ کہتے آئے ہیں ہیں یہی عقیدہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے العقیدۃ الطحاویہ میں بھی بیان کیا ہے جو کہ بقول امام طحاوی ؒ ائمہ احناف امام اعظم ابوحنیفہ ؒ ، قاضی ابویوسف ؒ اور امام محمد بن حسن الشیبانی ؒ رضی اللہ عنھم کا عقیدہ ہے ۔۔۔اور غیر مقلدوں کے کئی علماءجن میں ابن باز اور البانی بھی شامل ہیں ان کے ہاں یہ عقیدہ صرف ان تین بزرگوں کا نہیں بلکہ تمام اہل سنت کا عقیدہ ہے جیسا کہ ان کے عالم صالح بن فوزان عقیدہ طحاویہ کے ایک شرح میں لکھتے ہیں
التعليقات المختصرة على متن العقيدة الطحاوية (ص: 27)
والمؤلف -كما ذكر- ألف هذه العقيدة على مذهب أهل السنة عموماً، ومنهم الإمام أبو حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي، فهو أقدم الأئمة الأربعة وأدرك التابعين وروى عنهم.
وكذلك صاحباه أبو يوسف، ومحمد الشيباني، وأئمة المذهب الحنفي.
ذكر عقيدتهم، وأنها موافقة لمذهب أهل السنة والجماعة
عبارت کا حاصل یہی ہے کہ یہ عقیدہ اہل سنت و جماعت کے مذہب کے موافق ہے
اب آج کے غیرمقلدین ہر وقت یہی سوال کرتے رہتے ہیں کہ اللہ کہاں ہے ؟
تو اس سوال کے جواب میں دوستو کو یہ ملحوظ رکھنا چاہیئے کہ یہ سوال ہی اس فاسد خیال اور اعتقاد سے پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کسی نہ کسی جگہ یعنی مکان میں موجود ہے ۔۔۔اللہ تعالی کے لیے ان سوال کرنے والوں کے ذہن میں پہلے ہی مکان میں موجود اور واقع ہونا متعین ہے تب ہی تو یہی سوال کرتے ہیں اور اس کے بعد مناقشات اور مناظرات میں جو دلائل دیتے ہیں ان سب میں اللہ کی طرف جن مکانات یا چیزوں کی نسبت کی گئی ہے ان سب سے یہی بات اخذ کرتے ہیں کہ اللہ یہاں موجود اور واقع ہے اور یہ آیات و نصوص اللہ تعالی کا محل وقوع اور لوکیشن متعین کرتے ہیں العیاذ باللہ
جبکہ اہل سنت کے ہاں اللہ تعالی کے لیے کسی جگہ کا تعین کرنا ہی سرے سے غلط ہے
تب ہم آتے ہیں اس طرف کہ اس سوال کے جواب میں ہمارا عقیدہ اور ہمارا جواب کیا اور کیسا ہونا چاہیئے
تو جناب ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی لامکان ہے ۔۔۔یعنی وہ جگہ و مکان سے پاک ہے کیونکہ جگہ کے لیے محتاج ہونا صرف ایک جسم کی علامت ہے جو کہ محدود ہوتا ہے اور جہاں جہاں تک جسم کی حد ختم ہوجاتی ہے اس کے بعد والا حصہ اور علاقہ اس جسم کے لیے مکان کہلاتا ہے
یعنی مکان اپنے مکین پر محیط ہوتا ہے ۔۔۔اور اللہ تعالی چونکہ حد سے پاک ہے اس کی ذات لامحدود ہے لہذا وہ نہ جسم ہوا اور نہ مکان کا محتاج نہ مکان سے متصف ۔ یعنی ہوسکتا ہے کہ غیرمقلد یہی کہیں کہ اللہ تعالی مکان سے متصف ہے اگر چہ مکان کو محتاج نہیں تو اس کا جواب یہی ہے کہ بغیر احتیاج کے بھی مکان سے متصف نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ اجسام کی صفت ہے ۔۔۔مکان کی تعریف میں یہی بات کہی گئی ہے کہ فراغ یشغلہ الجسم ۔۔۔کہ مکان ایک ایسے خلا کو کہتے ہیں جو کسی جسم کو گھیرے رکھا ہوا ہوتا ہے
یاد رہے کہ ہماری یہ بات کہ اللہ لامکان ہے اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ لا مکان میں موجود ہے یعنی لامکان کسی جگہ کا نام ہے اور اللہ وہاں موجود ہے العیاذ باللہ
اب آتے ہیں اس جملے کی طرف کہ اللہ ہرجگہ موجود ہے
تو تمام دوست یاد رکھیں کہ اس جملے سے ہماری مراد یہی ہے کہ اللہ کی قدرت اور اسکا علم ہرجگہ ہے رہی یہ بات کہ اللہ کی ذات ہرجگہ ہے یا نہیں ہے تو ہم اس کا نہ اثبات کرتے ہیں نہ نفی کرتے ہیں یہ بات انتہائی ضروری ہے
ہم اس کا اثبات و نفی اس لیے نہیں کرتے کہ خدا کو بالذات ہر جگہ ماننے سے ذہن اللہ تعالی کا مخلوق میں حلول کرجانے کی طرف جاسکتا ہے جو کہ جہمیہ کا عقیدہ ہے جبکہ ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالی مخلوق میں حلول نہیں کرسکتا حلول کرنا کسی چیز کے اندر یا س سے باہر ہونا اجسام کی خاصیت ہے اور اللہ عزوجل جسمیت سے پاک ہے ۔۔۔۔اور ہرجگہ ہونے کی نفی اس لیے نہیں کرتے کہ اللہ کو کسی جگہ ماننا اور کسی جگہ نہ ماننا جیسا کہ غیرمقلدوں کا عقیدہ ہے یہ بات اللہ عزوجل کےلیے حد اور لیمیٹ ثابت کرنے کی طرف لے جاتا ہے اور اللہ کو عرش پر مان کر دوسری جگہوں کی نفی کرنا اس عقیدے کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کہنے والے کہ ہاں اللہ تعالی ایک خاص جہت میں ہے جو کہ اوپر کی جہت ہے اور یہ بھی اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے ۔۔۔لہذا ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی لامکان ہے وہ نہ داخل عالم ہے نہ خارج عالم ہے
یعنی اس کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ وہ عالم کے اندر ہے ورنہ حلول لازم آئے گا اور نہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ خارج عالم ہے کیونکہ کسی چیز سے خارج ہونا بھی جسم اور محدود چیز کی علامت ہے اس سے اللہ کے لیے حد ثابت ہوتا ہے جو کہ اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے

اس تمام بحث کا خلاصہ میں درج ذیل خیالی گفتگو میں عرض کرونگا
غیرمقلد : اللہ کہاں ہے تمہارے کے مطابق
سنی : اللہ کے بارے میں کہاں ،وغیرہ سے سوال صحیح نہیں ہے کیونکہ کہاں کا لفظ ظاہر میں مکان کے بارے میں پوچھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اللہ لامکان ہے مکان سے پاک ہے
غ م : کہاں کے لفظ کا ترجمہ عربی میں این کا آتا ہے ۔۔۔اللہ کے نبی ﷺ نے یہ لفظ استعمال کیا ہے ایک لونڈی سے آپ ﷺ نے پوچھا این اللہ ، یعنی اللہ کہاں ہے ۔۔۔تب خدا کے بارے میں ایسا پوچھنا نبی ﷺ کی سنت ہے ۔۔۔چاہے اس سے مکان لازم آئے یا کچھ بھی اس کو ہم اپنے ظاہر پر ہی لیتے ہیں
سنی : اس حدیث میں کئی قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں اس لیے یہ حدیث مضطرب ہے باقی روایات میں جن میں بعض اس روایت سے زیادہ قوی ہیں یہ لفظ ان میں موجود نہیں ہے ۔۔۔۔لیکن اگر تم پھر بھی زیادہ اصرار کرتے ہو اور اسی لفظ کو خدا کےنبی ﷺ کا لفظ مانتے ہو تو پھر بھی یہ لفظ تمہاری بات کے لیے کوئی فائدے مند نہیں
غ م: وہ کیسے
سنی: تم اللہ کے کہاں ہونے یا کہاں نہ ہونے کے سوال کا جواب نکال رہے ہو ۔۔بالفاظ دیگر اللہ تعالی کے لوکیشن اور محل وقوع کے بارے میں بات کررہے ہو اور اس کے لیے تم یہی حدیث بطور جواب پیش کررہے ہو ۔۔۔چلو ٹھیک ہے تم اپنے سوال کا جواب اس حدیث سے نکال لو پھر اس کو خود بھی مان لو پھر میں بات کرونگا
غ م : جی ہاں ۔ میں اللہ کے بارے میں پوچھ رہا تھا کہ اللہ کہاں ہے اور خدا کے نبی ﷺ نے بھی یہی سوال کیا
سنی : تو لونڈی نے اس کے جواب میں کیا کہا جس پر اس حدیث کے مطابق اللہ کے نبی ﷺ نے اس کو مومنہ کہا
غ م : فی السماء یعنی اللہ آسمان پر ہے
سنی : لیکن تم تو خود اس جواب کو ماننے سے انکاری ہو کیونکہ تمہارا عقیدہ تو تم اس متشابہ آیت مبارکہ سے نکالتے ہو جس کو سلف صالحین پڑھتے تھے اس پر ایمان رکھتے تھے اور اس کی تفسیر اور معنی مراد کو اللہ عزوجل کے سپرد [تفویض] کرتے تھے
الرحمن علی العرش استوی
یعنی اس کا مطلب تمہارے یہی ہے کہ اللہ عزوجل عرش پر ہے اور عرش پر ہونے کا مطلب تمہارے ہاں اللہ کا محل وقوع متعین ہونا ہے اس پر تمہاری یہ باتیں دلالت کرتی ہیں کہ تم اللہ کو باقی جگہوں سے نفی کرتے ہو اور صرف عرش پر مستوی مانتے ہو تب یہ بات واضح طور پر تمہارا عقیدہ بیان کرتا ہے کہ عرش تمہارے ہاں اللہ کے لیے بطور مکان متعین ہے اور عرش آسمان سے اوپر ہے تب آسمان پر تم اللہ کو کس طرح مانتے ہو اس حدیث کا تم خود ہی انکاری ہو کیونکہ لونڈی نے تمہارے تشریح کے مطابق اللہ کہاں ہے کا جواب آسمان پر ہونے کا دیا جبکہ تمہارے ہاں رب العزت آسمان پر نہیں بلکہ آسمان سے اوپر ہے تب عجیب منافقت ہے کہ جس دلیل کو خود نہیں مانتے اسی سے ہمارے خلاف استدلال پکڑتے ہو
غ م : آسمان پر ہونے کا مطلب آسمان سے اوپر عرش پر ہونا ہے
سنی : تمہارے ہاں تو تاویل حرام ہے یہاں اس حرام کی کیسی یاد آئی آپ کو ۔۔۔لگتا ہے صرف ہمارے لیے حرام ہے۔۔۔اگر آسمان پر ہونا عرش پر ہونا ہے تب تو سارے فرشتے بھی عرش ہیں کیونکہ ان کے بارے میں بھی قران و حدیث میں آسمان پر ہونے کی بے شمار نصوص موجود ہیں ۔۔۔
غ م : عرش چونکہ آسمانوں کے اوپر ہے اس لیے بلا تاویل آسمان پر ہونا عرش پر ہونا ہی ہے ۔۔
سنی: عرش تو صرف آسمانوں سے اوپر نہیں زمین سے بھی اوپر ہے لہذا اس تاویل سے تو اللہ عز وجل کا زمین پر بھی ہونا کہاجاسکتا ہے حالانکہ تم اس کے قائل نہیں ہو
غ م : اچھا تم بتاو تمہارے عقائد تو جہمیہ کے ہیں وہ بھی اللہ کو ہر جگہ مانتے ہیں اور تم بھی مانتے ہو
سنی :ہمارے عقائد جہمیہ کے خلاف ہیں ہم اللہ کو بطور علم و قدرت ہرجگہ مانتے ہیں جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے
غ م : یعنی ماشائ اللہ ہماری بات مان لی ۔۔تمہارے ہاں بھی اللہ کی ذات سے زمین خالی ہے ۔۔۔اللہ تعالی بطور ذات کے ہرجگہ نہیں ہے
سنی : یہ بات غلط ہے ۔۔۔اللہ کی ذات لامحدود ہے اس کی ذات سے کسی جگہ کا خالی ماننا یعنی کسی جگہ ماننا اور کسی جگہ نہ ماننا یہ اس کی تحدید ہے ۔۔۔ہمارے عقیدے کا مطلب آپ نے بالکل غلط لے لیا ہم اللہ کو علم اور قدرت وغیرہ کے لحاظ سے ہرجگہ ماننے کے قائل ہیں اس سے تم نے یہ نتیجہ لے لیا کہ ہم ذات کے لحاظ سے اللہ کی نفی کرتے ہیں ۔۔۔یعنی یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ بطور ذات موجود نہیں ۔۔۔حالانکہ یہ بات غلط ہے ہم اللہ کی ذات کے متعلق کسی مکان کی نسبت کو صحیح نہیں کہتے چاہے وہ آسمان ہو یا زمین یا ہر جگہ ۔۔۔خدا کے بارے میں ہم ایسی باتیں ہرگز صحیح نہیں جانتے کہ یہاں ہے یا یہاں نہیں ہے کیونکہ اس سب سے اللہ کے لیے مکان کی نسبت لازم آتی ہے ۔۔۔بطور ذات ہم نہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہرجگہ ہے نہ یہ کہتے ہیں کہ نہیں ہے۔۔۔کہاں اور وہاں سب مکان ہیں اور مخلوق ہیں اور اللہ عز وجل نہ داخل عالم ہے نہ خارج عالم ۔۔یعنی اس کو نہ تو مخلوق کے اندر مان سکتے ہیں جو کہ حلول کا عقیدہ ہے اور نہ مخلوق سے باہر کہا جاسکتا ہے
غ م : یعنی تمہارے ہاں اللہ کہیں بھی نہیں ؟ یہ تو اللہ کے وجود کا انکار ہے ۔۔۔اور اللہ مخلوق کے اندر نہیں ہے یہ تو سمجھ آتا ہے لیکن باہر کیوں نہیں اس کی کیا وجہ ؟
سنی : اللہ عزوجل کے تمام صفات توقیفی ہیں یعنی اس پر صرف ان صفات کا اطلاق جائز ہے جو کہ قطعی طور اس کے لیے قران وحدیث کے نصوص سے ثابت ہیں اب اللہ کو مخلوق سے خارج کہنے والے کے ذہن میں اللہ تعالی کا وجود بھی اجسام کی طرح ہے جو کسی چیز میں داخل یا اس سے خارج ہوسکتی ہے ۔۔۔اس لیے یہ نظریہ غلط ہے اللہ عزوجل کے لیے کسی چیز میں جس طرح دخول ماننا باطل اور بلا دلیل ہے اسی طرح خروج ماننا بھی باطل ہے کیونکہ یہ نظریہ رکھنے والا یہی سوچ رہا ہے کہ اللہ عزوجل کے وجود اور عالم یعنی مخلوق کے وجود کے درمیان فاصلہ ہے جس سے دونوں جدا ہیں اسی کو وہ خروج کہتا ہے جو کہ دخول کے مقابل ہے اور اللہ عز وجل اور مخلوق کے درمیان فاصلہ اور مسافت ماننا قران وحدیث میں کہیں بھی وارد نہیں بلکہ اس کی قربت اور بعد سب درجے اور منزلت کے لحاظ سے ہیں۔۔خدا کا فرمانبردار اللہ سے قریب ہے چاہے وہ سمندر کے اندر کیوں نہ ہو اور کافر اللہ سے بعید ہے چاہے وہ چاند پر کیوں نہ ہو ۔۔۔اور اللہ کی ذات کے لیے مخلوق کی طرح مسافت کی دوری اور نزدیکی ماننا بلا دلیل ہے اور باطل ہے بلکہ یہ بعینہ اللہ کی ذات کو مخلوق کے مشابہ ماننا ہے اور مخلوق کے صفات کا اللہ پر اجرا ہے ۔۔عقیدہ طحاویہ میں امام طحاوی ؒ فرماتے ہیں
متن الطحاوية بتعليق الألباني (ص: 41)
وَمَنْ وَصَفَ اللَّهَ بِمَعْنًى مِنْ مَعَانِي الْبَشَرِ فقد كفر
اور جس نے اللہ کو بشر یعنی مخلوق کی صفات میں سے کسی صفت کے ساتھ موصوف کرلیا تو اس نے کفر کیا ۔۔۔لہذا مسافت اور فاصلے کی دوری مخلوق کی صفت ہے جو کہ اللہ تعالی کے لیے واردنہیں ہوا بلکہ اس کے بارے میں قران بھرا ہے کہ وہ ہمارے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔۔۔لہذا اس کو دوری سے متصف کرنا اس کو مخلوق پر قیاس کرنا ہے ۔۔۔اور مخلوق سے خارج کہنے والا اللہ کو مخلوق پر قیاس کرکے اس کے لیے اس کے اور مخلوق کے درمیان مسافت اور فاصلے کی دوری ثابت کرتا ہے
رہی یہ بات کہ اللہ نہ داخل عالم ہے نہ خارج عالم ۔۔اس سے تمہارے ہاں بالکل اللہ کی نفی ہوتی ہے ۔۔یا یہ کہ اس سے ہمارے ہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کہیں بھی نہیں ؟ تو یہ بات بھی آپ کے تجسیمی عقیدے کا پھل ہے اللہ کے ذات کے تصور کے ساتھ آپ کے ذہن میں اس کے کہیں ہونے کی بات ضرور بالضرور آتی ہے اس لیے آپ اس طرح کے تصورات کرتے ہیں ۔۔۔ہم اللہ کو موجود مانتے ہیں ۔۔اس کے ساتھ کہاں اور کہیں کی باتیں کہنا خدا کے ساتھ مکان کا تصور ہی ہے اور کچھ نہیں اور مکان میں ہونا جسم کا خاصہ ہے کیونکہ وہ محدود ہوتا ہے اور مکان اس کو گھیر ے رکھا ہوتا ہے
اس لیے اللہ کی تنزیہہ یعنی پاکی بیان کرنے والے اہل سنت کے ہاں اللہ کا وجود بلا کسی تصور کے ہے نہ کسی مکان کے ساتھ نہ کسی اور مخلوق کے ساتھ۔۔۔آپ اپنے ذہن کو تجسیمی جراثیم سے پاک کردیں انشائ اللہ آپ کو یہ بات سمجھ آجائے گی کہ اللہ کو ماننااس بات کو مستلزم نہیں کہ یہ بھی مان لیا جائے کہ کہاں ہے اور کہاں نہیں ۔۔۔یعنی اللہ کے وجود کے ساتھ مکان کا تصور لازمی نہیں ۔۔ہاں جو لوگ مشبہہ ہیں جن کے ذہن میں خدا کا تصور بھی مخلوق کی طرح ہے ان کے ذہن میں خدا کے وجود کے ساتھ اس کے مکان کا تصور بھی آنا ان کے باطل مذہب کے لوازمات میں سے ہے
غ م : جب تم اس بات کی طرف نہیں جاتے کہ اللہ بالذات ہرجگہ ہے نہ نفی کرتے ہو نہ اثبات ۔۔۔۔تب تمہارے لوگ ایسی آیتیں کیوں دلیل میں پیش کرتے ہیں جیسے
وھو معکم اینما کنتم ۔۔۔ونحن اقرب الیکم من حبل الورید ۔۔انی ذاھب الی ربی سیھدین ۔۔۔اور اسی طرح احادیث مبارکہ بھی جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث اکثر پیش کرتے ہیں کہ
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (4/ 148)
ح دّثنا قتَيْبَةُ قَالَ حدّثنا إسْماعِيلُ بنُ جَعْفَرٍ عنْ حُمَيْدٍ عنْ أنَسٍ أنَّ النبيَّ رَأى نُخَامَةً فِي القبْلَةِ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ حَتَّى رُؤِيَ فِي وَجْهِهِ فقامَ فَحكَّهُ بِيَدِهِ فَقَالَ: (إِنَّ أحَدَكُمْ إذَا قامَ فِي صَلاَتِهِ فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ أَو إنَّ رَبَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ القِبْلَةِ فَلاَ يَبْزُقَنَّ أحَدُكُمْ قِبَلَ قِبْلَتِهِ وَلَكِنْ عنْ يَسَارِهِ أوْ تَحْتَ قَدَمَيْهِ) ثُمَّ أخَذَ طَرَفَ رِدَائِهِ فَبَصَقَ فيهِ ثُمَّ رَدَّ بَعْضَهُ عَلَى بَعْضٍ فقالَ أَو يَفْعَلُ هَكَذَا.
اس حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے نماز کے دوران آگے کی طرف تھوکنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو وہ اپنے رب کے ساتھ مناجات کررہاہوتا ہے اور اس کا رب اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے تو تم میں سے کوئی شخص اپنے آگے کی طرف نہ تھوکے بلکہ اپنے بائیں یا اپنے قدم کے نیچھے تھوکے
تو یہ حدیث یا اس کے ہم معنی آیات و احادیث پیش کرنے سے آپ لوگوں کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ زمین پر ہے یا ہر جگہ بالذات موجود ہے ورنہ یہ نصوص آپ لوگ استدلال میں پیش نہ کرتے
سنی : یہ آیات اور احادیث ہمارا کوئی عقیدہ بیان کرنے کے لیے نہیں ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ وھو معکم اینما کنتم ۔۔۔سے مراد یہی ہے کہ بالذات اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔۔۔ہم اس کی طرف تعرض نہیں کرتے اگر چہ یہ آیت کا ظاہر ہے اور یہ قول کرنے والا گمراہ نہیں ہے کیونکہ وہ ظاہری آیت پر قائل ہے ۔۔۔لیکن ہمارا مقصد ان جیسے آیات و احادیث سے آپ لوگوں کے دعوی کا رد کرنا ہے کہ جن آیات و احادیث کے ظاہر پر اپنا عقیدہ بناتے ہوئے تم لوگ اللہ کو اوپر کی جہت میں مانتے ہو ان کی طرح کچھ اور آیات و احادیث بھی ہیں جن میں اللہ رب العزت کی طرف ایسے مقامات کی نسبت کی گئی ہے جو کہ زمین پر ہیں ۔۔۔تب کیا وجہ ہے کہ اُن آیات و احادیث کو بلا تاویل مانتے ہو اور ایسے آیات و احادیث کو بلا تاویل نہیں مانتے یہ تو یہودیوں کا دین ہوگیا افتومنون ببعض الکتب وتکفرون ببعض
اگر اُن آیات و احادیث کے ظاہر سے اللہ کا اوپر کی جہت میں ہونا ظاہر ہوتا ہے تو اِن نصوص سے اللہ کا زمین پر ہونا ظاہر ہوتا ہے۔۔لہذا یا تو دونوں کو بلا تاویل مانو یا دونوں کی تاویل کرو ۔۔۔ہم تو اللہ کو کسی جگہ ہونے یا نہ ہونے کے تصور کے بغیر مانتے ہیں اس لیے نہ ان نصوص سے اللہ کا اوپر کے جہت میں ہونے کا مطلب نکالتے ہیں نہ اِن نصوص سے اللہ کا نیچھے کی جہت میں ہونے کا مطلب نکالتے ہیں بلکہ ہم یا تو اللہ کے بارے میں ایسی بات سے توقف کرتے ہیں اور اس کا علم اللہ کے سپرد کرتے ہیں جیسا کہ متقدمین کا مذہب ہے اور یا اس کی تاویل کرتے ہیں جیسا کہ متاخرین کا مذہب ہے اور دونوں صحیح ہیں لہذا اس بات سے غلط فہمی کا شکار نہ ہوں
آخر میں میں فرقین کی جانب سے غلط فہمی ایک اور طریقے سے واضح کرتا ہوں جس سے رب تعالی سے امید ہے کہ ہمارے ساتھی اپنے بنیادی عقیدے اور موقف کو بخوبی سمجھ سکیں گے
مثال کے طور کسی وکٹورین نے اپنے تجسیمی عقیدے پر دلیل پیش کی
{تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ (4) } [المعارج: 4، 5] کہ اللہ تعالی کی طرف روح القدس اور فرشتے چھڑتے ہیں چونکہ فرشتے آسمان کی طرف چھڑتے ہیں اس سے معلوم ہوا اللہ آسمان کی جہت میں ہے یعنی اوپر کی جہت میں
اب سنی نے جواب دیا کہ اگر اس آیت سے تم نے اللہ کو اوپر کی جہت میں ثابت کرنے کی کوشش کی تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ انی ذاھب الی ربی سیھدین ۔۔۔کہ میں اپنے رب کی طرف جارہا ہوں وہ مجھے رستہ دکھائے گا
تو حضرت ابراہیم علیہ السلام تو زمین پر چل رہے تھے تو آپ لوگوں کے ہاں تو اللہ عزوجل زمین پر ہونا چاہیئے
اب وکٹورین جو سنی کا مطلب جان نہ سکا الٹا اس کے دلیل کا جواب دینے لگا کہ
یہ تو تمہارے دعوے کو جھٹلارہا ہے جیونکہ تمہارے [سنی کے ] ہاں تو اللہ ہرجگہ ہے اگر اللہ ہر جگہ ہوتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کی طرف پہلی جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ کی طرف کیوں جاتے تمہارے عقیدے کے مطابق تو پہلی جگہ بھی اللہ موجود تھا اور جس جگہ جارہے تھے وہاں بھی اللہ ہے پھر اس بات کا کیا مطلب کہ میں اللہ کی طرف جارہاہوں کیا جہاں پہلے تھا وہاں اللہ موجود نہیں
تو وکٹورین کی یہ تقریر اس بات پر مبنی ہے کہ ہم بھی اللہ کے کسی جگہ ہونے یا نہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اسے اس آیت سے ثابت کررہے ہیں
تو ہمارا جواب یہی ہے کہ اس آیت سے ہم خدا کے لوکیشن پر دلیل نہیں پکڑرہے بلکہ تعرج الملائکۃ والی آیت کی طرح اگر اس کو بھی اپنے ظاہر پر حمل کیا جائے تو جس طرح تو اللہ کا زمین پر اس جہت میں ہونا لازم آئے گا جس جہت میں ابراہیم علیہ السلام سفر فرمانے کا ارادہ کررہے تھے ۔۔۔اگر ملائکہ کا اسمان کی طرف جانے کو اللہ کی طرف جانے سے تعبیر کیا گیا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے سفر کی جگہ کو اللہ کی طرف سفر کرنے سے تعبیر کیا اب اگر پہلی آیت سے اللہ کا اوپر ہونا لازم آتا ہے تو دوسری سے زمین پر ہونا لازم آئے گا اب ایک آیت پر ایمان اور دوسرے سے انکار یہودیت ہی تو ہے ۔رہا ہمارا عقیدہ تو ہم تو کسی بھی نص سے اللہ کا کہیں ہونا اور کہیں نہ ہونا ثابت نہیں کرتے اور ہر جگہ اس کو بطور علم وقدرت مانتے ہیں طبور ذات کی طرف تعرض نہیں کرتے جبکہ تم بطور ذات اوپر کے علاوہ باقی جگہوں میں نفی کرتے ہو ۔۔لہذا ہمارے عقیدے پر اس آیت کے مفہوم کا کوئی تضاد نہیں پڑتا ۔  واللہ اعلم وعلمہ اتم

1 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔