Pages

Thursday 3 November 2016

شرائطِ مرشد اور کاروباری پیر

شرائطِ مرشد اور کاروباری پیر
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کسی جامع شرائط مرشد کی بیعت بھی ایک مستحب اور بابرکت کام ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مرشد کامل کی چار شرائط ارشاد فرمائی ہیں ان کے بغیر اس کا بیعت لینا جائز نہیں۔صحیح العقیدہ مسلمان ہو یعنی اہل سنت والجماعت سے وابستہ ہو، بد عقیدہ اور بد مذہب نہ ہو۔عقائد کے دلائل اور تمام احکام شرعیہ کا عالم ہو حتی کہ ہر پیش آمدہ مسئلہ کا حل بیان کر سکتا ہو (یعنی مفتی ہو)۔علم کے مطابق عمل کرتا ہو۔ فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات پر دائمی عمل پیرا ہو اور تمام محرمات و مکروہات سے بچتا ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اس کی نسبت متصل ہو، یعنی اس کے مشائخ کا سلسلہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتا ہو۔ ہمارے زمانے میں بعض بے علم لوگ وعظ و تبلیغ کرتے ہیں اور جب کچھ حلقہ بن جاتا ہے تو لوگوں سے بیعت لینا بھی شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی بے علمی کا عیب چھپانے کے لئے علماء کی تنقیص کرتے ہیں، ان کو منافق اور بے عمل کہتے ہیں۔ ساتھ ہی خود کو اہل اللہ کا محب کہتے ہوئے اولیاء اللہ کی صف میں شمار کروانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ سادہ لوح عوام علماء کو چھوڑ کر ایسے بے علم واعظین اور بے عمل ’’مرشدین‘‘ کے حلقہ ارادت میں کثرت کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ ہم اس جہالت اور تعصب سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔

(فتاویٰ افریقہ، ص : 147۔ 146، ملخصا، مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی)

مذکورہ شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے اگر موجودہ پاکستانی معاشرہ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہر طرف ایسے کاروباری پیروں کی فوج ظفر موج نظر آئے گی جن میں مذکورہ شرائط کا دور دور تک پتہ نہیں ہو گا۔ کسی کا عقیدہ خراب ہے تو کسی کا سلسلہ غیر متصل۔۔۔ کوئی پابند سنت نہیں ہے تو کوئی اعلانیہ فاسق و فاجر۔۔۔ علم کی شرط ملاحظہ کریں تو اس پر پورے ملک میں معدودے چند پیر صاحبان ہی بمشکل پورے اترتے نظر آئیں گے۔ جعلی پیروں کا بہت بڑا لشکر نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث اور فقہ و کلام سے بے خبر ہے بلکہ وہ علم اور علماء کا سخت دشمن بھی ہے۔ کیونکہ جس طرح سرمایہ دار، جاگیردار اور سیاستدان کی خیر اسی میں ہے کہ قوم جاہل مطلق رہے اسی طرح جھوٹے پیروں کی شان و شوکت کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے کہ قوم علم و عمل سے بے گانہ رہے۔ کیونکہ ان پڑھ لوگ ان کو جس طرح چومتے چاٹتے ہیں اس طرح پڑھے لکھے لوگ نہیں کرتے۔ کسی بھی پیر کے ملاقاتیوں کو ملاحظہ کر لیجئے آپ کو ان پڑھ اور پڑھے لکھے لوگوں کے اندر ملاقات میں نمایاں فرق نظر آئے گا۔

انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس طرح کے تمام جعلی، بناوٹی اور کاروباری پیر اپنے آپ کو مسلک حق اہل سنت وجماعت سے منسوب کرکے اس کی بدنامی اور رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔ نیز وہ علماء سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ ان کی نام نہاد بزرگی پر مہر تصدیق ثبت کریں۔ یہ ننگِ ملت، ننگ دیں، ننگ وطن لوگ ایسے زہریلے ہیں کہ انہوں نے اپنی شہوت کاریوں سے مسلک حق کو ادھ موا کرکے رکھ دیا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ نامور بزرگوں کی گدیوں سے منسوب ہیں۔ عمل صالح اور شریعت کی پابندی تو کجا وہ کرپٹ لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں رسہ گیروں سے ان کی دوستیاں ہیں۔ الیکشن میں مسلک کے نام کو استعمال کرتے ہوئے یہ لوگ ممبر اسمبلی بنتے ہیں اور پھر سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کر انہی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ اس تمام خرابی کی بنیاد درحقیقت ان کاروباری مولویوں نے فراہم کی ہے جو انہیں (معمولی خدمت کے عوض) لوگوں کے سامنے غوث زماں، قطب عالم، شہنشاہ ولایت وغیرہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔

ان حضرات کی سیرت و کردار کو قریب سے دیکھیں تو ان کے فرعونی لہجے، شیطانی عادات و اطوار، یزیدی رسوم و رواج۔۔۔ غنڈوں اور بدمعاشوں کی سرپرستی، چوروں اور ڈاکوؤں کی پشت پناہی۔۔۔ باطل اعمال اور عقیدے، اعراس کے نام پر اسلام کش میلے ٹھیلے۔۔۔ کتوں اور ریچھوں کے مقابلے، قبروں اور مزاروں کی تجارت۔۔۔ صالحین کی تعلیمات پر عمل کی بجائے تعمیرات سے ولایت کی پیمائش۔۔۔ علماء کے خلاف سینوں میں بھڑکتی آگ، جہالت و رعونت میں اپنی مثال آپ۔۔۔ دین و شریعت کی بات پر منہ سے نکلتے انگارے۔۔۔ نماز روزے کا وقت آنے پر مرض اسہال، زکوۃ و جہاد کا نام سنتے ہی پیٹ میں درد قولنج۔ ۔ ۔ غیر محرم عورتوں کو بے پردہ مرید کرنا اور ان سے ٹانگیں دبوانا۔۔۔ یہ ہیں وہ کالے کرتوت جو ان ’’پیروں‘‘ کے نامہ اعمال میں درج ہیں۔

اگر آپ ان کے کفریہ و شرکیہ اور مبالغہ آمیز اشعار پر مصنوعی طور پر بدمست ہو کر جھومنے اور ناچنے والے جاہل مریدوں کو دیکھیں تو گویا انہیں ذبح کیا جا رہا ہے۔۔۔ ان کے تعویذوں اور وظیفوں کو دیکھیں تو شیاطین سے استغاثہ پر مبنی جادو ٹونے کے پلندے معلوم ہوں۔۔۔ ان کی ’’مقدس مسندوں‘‘ کو دیکھیں تو ان پر کسی نیک سے نیک آدمی کا بیٹھ جانا یا صرف پاؤں لگ جانا بھی اعلیٰ درجے کی گستاخی شمار ہو۔

پھر پیران عظام کی ان گدیوں میں بھی مال و جائیداد کی طرح وراثت چل نکلی ہے (کیونکہ یہ بھی اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے) باپ کی گدی پر اولاد ہی بیٹھے گی خواہ وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو۔ کسی مرید کی کیا مجال کہ وہ پیر مغاں کی سجادگی کا حقدار ٹھہرے خواہ وہ کیسا ہی رازی و غزالی کیوں نہ ہو اور یہی نااہلی اور وراثت سب سے بڑا سبب ہیں خانقاہی نظام کی تباہی کا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔