Pages

Monday 28 November 2016

خنزیر کی چربی کی تاریخ

خنزیر کی چربی کی تاریخ
____________________________
یورپ سمیت تقریبا تمام غیر مسلم ممالک میں خنزیر کا گوشت پہلی پسند ہے-ان ملکوں میں بہت سے فارم ہیں جہاں اس جانور کی پرورش کی جاتی ہے -اکیلے فرانس میں ہی 42,000 سے زیادہ فارم ہیں -
خنزیر میں دوسرے تمام جانوروں کے مقابلے زیادہ چربی ہوتی ہے -لیکن یورپ اور امریکہ کے لوگ چربی سے پرہیز کرتے ہیں -

تو خنزیر کی چربی جاتی کہاں ہے ؟
تمام خنزیر محکمہ خوراک کی نگرانی میں مذبح خانوں میں ذبح کیے جاتے ہیں-اور محکمہ خوراک کے لئے ان خنزیروں سے نکلی ہوئی چربی کو برباد (ختم) کرنا درد سر تھا-
ساٹھ سال پہلے تک اسے عموما جلا دیا جاتا تھا-پھر ان لوگوں نے چربی کو استعمال کرنا سیکھ لیا-پہلے ان لوگوں چربی کو صابن بنانے میں استعمال کرکے دیکھا اور یہ تجربہ کامیاب ہوا-

پھر ایک پورا نیٹ ورک اس میدان میں کود پڑا -اور خنزیر کی چربی کو کیمیکل سے گزار کر ، پیک کرکے بازار میں اتار دیا -جب کہ سامان بنانے والی دوسری کمپنیوں نے اسے خریدنا شروع کیاگیا دوران تمام یورپی ممالک نے ایک قانون بنایا -
وہ یہ کہ خوراک ، دوائیوں اور ذاتی استعمال کی تمام چیزوں کے کور پر اس میں استعمال کی گئی اشیا کی فہرست دینی ہوگی- اس طرح خنزیر کی چربی کی فہرست بھی انھیں دینی پڑی-
جو لوگ 40 سالوں سے یوروپ میں رہتے ہیں وہ یہ بات جانتے ہیں -
لیکن ایسی مصنوعات جن میں خنزیر کی چربی کا استعمال ہوتا تھا ، مسلم ممالک میں ممنوع قرار دی گئیں - جس کے نتیجے میں کارو بار کا نقصان ہوا -
آپ تاریخ میں جھانکیں، اگر آپ جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ جانتے ہوں گے کہ 1857 کی عوامی بغاوت کی وجہ کیا تھی -
رفل بلٹ (گولیاں) یوروپ میں بنتی تھیں اور اور سمندری راستے سے بر صغیر میں ٹرانسپورٹ کی جاتی تھیں -
جسے یہان تک پہنچنے میں مہینوں لگ جاتے تھے اور ان میں بھری ہوئی گن پاوڈر سمندری ماحول کے اثر کی وجہ سے خراب ہوجاتی تھیں -
پھر انھیں ان گولیوں پہ چربی کے لیپ کا خیال آیا -جو خنزیر کی چربی ہوتی تھی -اس چربی کے اس لیپ (سطح) کو گولیوں کے استعمال سے قبل دانتوں سے کھرچنا پڑتا تھا - مسلم اور سبزی خور سپاہیوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا - جو دھیرے دھیرے عوامی بغاوت کی شکل اختیار کرگیا-
اہل یوروپ نے اس حقیقت کو بھانپ لیا - اور خنزیر کی چربی کی جگہ جانور کی چربی لکھنا شروع کردیا -

جو لوگ 1970 سے یوروپ میں رہ رہے ہیں وہ یہ حقیقت جانتے ہیں -پھر مسلم ممالک کے ذمہ داروں نے ان کمپنیوں سے سوال کیا کہ ان مصنوعات میں کس جانور کی چربی ہے تو انھوں نے کہا کہ گائے اور بھیڑ کی چربی ہے -
مسلم ممالک نے پھر بھی ان مصنوعات کو ممنوع قرار دیا (بین کردیا) کیوں کہ اب بھی یہ چیزیں حرام تھیں - کیوں کہ ان جانوروں کو حلال طریقے سے ذبح نہیں کیاجاتا تھا -

اب ان کثیر قومی (ملٹی نیشنل) کمپنیوں نے بڑا نقصان اٹھایا - کیوں کہ تقریبا 75 فی صد کاروبا مسلم ممالک میں رک گیا-اور ان کو لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوا -
آخر کار انھوں نے خفیہ الفاظ (کوڈنگ لینگوئج) کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا- جس کا مطلب صرف محکمہ خوراک کے لوگ ہی جان سکیں -
اور عام آدمی کو اندھیرے میں رکھا جائے- اسطرح انھوں نے E-Cods کا استعمال شروع کیا -اور یہ طریقہ آج کے زیادہ تر مصنوعات میں استعمال کیا جاتا ہے - جیسے:

TOOTH PASTE
SHAVING CREAM
CHEWING GUM
CHOCOLATE
SWEETS
BISCUITS
CORN FLASKS
TOFFEES
CANNED FOODS
CANNED FRUITS

ان اشیا اور دوسرے استعمال کی چیزوں میں چوں کہ خنزیر کی چربی کا استعمال ہوتا ہے اور مسلم ممالک میں بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس لئے مسلمان اس وقت کئی مسائل کا شکار ہیں - جیسے بے شرمی و بے حیائی ، شدت پسندی اور جنسی بے راہ روی -
اس لئے تمام مسلمانوں اور سبزی خوروں سے گزارش ہے کہ وہ روز مرہ کے استعمال کی چیزوں کو استعمال کرنے سے قبل ذیل میں دئے ہوئے کوڈ سے ملا کر دیکھ لیں - اگر کوئی کوڈ مل جاتا ہے تو اس چیز کو استعمال نہ کریں کیوں کہ اس میں خنزیر کی چربی ہوگی -

E100, E110, E120, E140, E141, E153, E210, E213, E214, E216, E234, E252, E270, E280, E325, E326, E 327, E334, E335, E336, E337, E422, E430, E431, E432, E433, E434, E435, E436, E440, E470, E471, E472, E473, E474, E475, E476, E477, E478, E481, E482, E483, E491, E492, E493, E494, E495, E542, E570, E572, E621, E631, E635, E904.

Dr. M. Amjad Khan
Medical Research Institute, United States.

انگلش سے ترجمہ :
از طیب فرقانی

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔