Pages

Friday 4 November 2016

حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نجم الدین ایوب قوم کے اعتبار سے کُرد اورعماد الدین زنگی کی فوج میں سپہ سالاری کا عہدہ رکھتا تھا،نجم الدین ایوب کے بیٹے صلاح الدین پر عماد الدین زنگی بہت مہربان تھا اوراُس نے صؒلاح الدین کی تعلیم وتربیت کا انتظام اپنے اہتمام سے کیا تھا،عماد الدین زنگی کی وفات کے بعد سلطان نورالدین زنگی نے نجم الدین ایوب کو دمشق کا قلعہ دار اورکوتوال مقرر کرکے صلاح الدین اُس کے بیٹے کو بھی اس خدمت میں باپ کا کمکی مقررکیا تھا،نجم الدین ایوب کی وفات کے بعد نور الدین زنگی نے اُس کے بھائی شیرہ کو اپنی فوج کا سپہ سالار بنایا اورصلاح الدین کو دمشق کا قلعہ دار رکھا،جب مصر کی جانب عاضد عبیدی کی درخواست پر فوج بھیجی گئی تو شیر کوہ کے ساتھ نور الدین نے اُس کے بھتیجے صلاح الدین کو بھی بھیجا،جس کا مفصل تذکرہ اوپر کسی باپ میں آچکا ہے،۵۶۷ھ صلاح الدین بن نجم الدین ایوب عاضد عبیدی کے بعد مصر کا بادشاہ بن گیا ۵۶۹ء میں جب سلطان نور الدین زنگی کا انتقال ہوا تو یہاں ارکان سلطنت میں تخت نشینی کے متعلق اختلاف ہوا،صلاح الدین نے مصر سے دمشق میں آکر سلطان نور الدین کے بیٹے ملک صالح کو تخت نشین کیا، اوراسی تاریخ سے شام کی سلطنت بھی سلطان صلاح الدین کے زیر اثر اور زیر اقتدار آگئی، اسی سال یمن اورحجاز میں بھی اُس کی حکومت قائم ہوئی۔

یہ زمانہ عالمِ اسلام کے لئے بہت نازک تھا،یورپ کے عیسائیوں نے متفقہ طاقت سے شام و مصر پر حملہ آوری کی،اس حملہ آوری کی زد پر صلاح الدین ہی پہاڑ بن کر ڈٹ گیا تھا،دوسری طرف ملاحدہ الموت یعنی فدائیوں نے جو چُھپ کر حملہ کرتے اور مسلمان امرا کو قتل کرنا تو اب جانتے تھے،ایک تہلکۂ عظیم برپا کررکھا تھا،ان فدائیوں سے لوگ بہت خائف و ترساں تھے،ان ظالموں نے سلطان صلاح الدین کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی، مگر وہ خدا کے فضل وکرم سے بچ گئے۔

آخر شام کے تمام سرداروں نے مل کر صلاح الدین کو ملکِ شام کا باقاعدہ بادشاہ تسلیم کیا اور سلطان صلاح الدین نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے نکالنے کی کوشش شروع کی ۵۸۳ھ میں سلطان صلاح الدین نے ایک جنگ عظیمکے بعد بیت المقدس کے عیسائی بادشاہ کو میدانِ جنگ میں گرفتار کرلیا اور پھر اُس سے یہ اقرار لے کر کہ وہ سلطان کے مقابلے میں نہ آئے گا چھوڑدیا، اس کے بعد عکہ پر قبضہ کیا اور ۵۸۸ھ میں بیت المقدس کو فتح کرلیا ۴۹۰ھ سے ۵۸۸ھ تک یعنی ۹۸ سال کے قریب بیت المقدس عیسائیوں کے قبضے میں رہا،عیسائیوں نے جب بیت المقدس کو مسلمانوں سے فتح کیا تھا تو مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہادی تھیں،لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب اس مقدس شہر کو عیسائیوں سے فتح کیا تو کسی عیسائی باشندے کوکوئی نقصان نہیں پہنچایا،بیت المقدس کی فتح کا حال سُن کر تمام برّا عظم یورپ میں ایک حشر برپا ہوگیا، اورگھر گھر کہرام مچ گیا؛چنانچہ فلپ شہنشاہ فرانس،رچرڈشیرول بادشاہ انگلستان ،فریڈرک شہنشاہ جرمنی اوربہت سے چھوٹے چھوٹے بادشاہ،نواب اوراُمرالشکر عظیم لے کر متفقہ طور پر تمام برّاعظم ایشیا کو فتح کرکے اسلام کا نام ونشان مٹانے کے ارادے سے حملہ آور ہوئے،عیسائیافواج جرّار کا یہ سمندر اس طرح متلاطم ہوا اوراس شان وشوکت کے ساتھ ملک شام کی طرف بڑھا کہ بظاہر برا عظم ایشیا کی خیر نظر نہیں آتی تھی،مگر حیرت ہوتی ہے کہ سلطان صلاح الدین نے چار سال تک کئی سو لڑائیاں لڑکر عیسائیوں کے اس بے پایاں لشکر کو خاک و خون میں ملایا اور اپنے سامنے سے بھگایا مگر بیت المقدس کی دیواروں تک نہین پہنچنے دیا،آخر ناکام و نامراد یہ عیسائی سلاطین نہایت ذلّت کے ساتھ واپس ہوئے اورسلطان صلاح الدین نے عیسائیوں کو یہ رعایت عطا کی کہ وہ اگر بیت المقدس میں محض زیارت کے لئے آئیں تو عیسائیوں کو کسی قسم کی روک ٹوک نہ کی جائے گی۔

ان مذکورہ لڑائیوں میں صلاح الدین نے جس شرافت وانسانیت کا برتاؤ کیا اور جس شجاعت وجفاکشی کا اُس سے اظہا ہوا،اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک بھی تمام یورپ سلطان صلاح الدین کو عزت وعظمت کے ساتھ یاد کرتا اوراُس کے نام کو شجاعت وشرافت کا مترادف سمجھتا ہے؛حالانکہ سلطان صلاح الدین ہی نے تمام براعظم یورپ کو اُس کے مقصد وحید میں ناکام و نامراد رکھ کر واپس بھگایا تھا ۵۸۹ھ میں سلطان صلاح الدین نے وفات پائی اوراپنے تقوے اورزہد وورع کے سبب اولیاء اللہ میں اُس کا شمار ہوا۔

صلاح الدین ایوبی کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا عثمان المقلب بہ ملک العزیز تخت نشین ہوا اُس نے چھ سال نہایت نیک نامی کے ساتھ حکومت کی ۵۹۵ھ میں جب فوت ہوا تو اُس کی جگہ اُس کا بیٹا ملک منصور تختنشین ہوا، مگر ایک سال کے بعد معزول ہوا تو اُس کے بعد ملک عادل سلطان صلاح الدین کا بھائی تخت نشین ہوا، یہ بڑا نیک اورقابلِ ستائش سلطان تھا،اُس نے ۶۱۵ ھ میں وفات پائی،اُس کی جگہ اُس کا بیٹا ملک کامل تخت نشین ہوا، یہ بھی بہت نیک نام بادشاہ تھا ۶۳۵ھمیں اُس کا انتقال ہوا تو اُس کی جگہ اُس کا بیٹا ملک عادل ابوبکر تخت نشین ہوا دو برس کے بعد امرائے مصر نے اس کو محبوس کرکے اُس کے بھائی ملک صالح بن ملک کو مصر کے تخت پر بٹھایا اس نے دس سال حکومت کی،آخر عیسائیوں کی لڑائیمیں شہید ہوا، اس کے بعد ملک معظم توران شاہ بن ملک صلاح ۶۴۷ھ میں تخت نشین ہوا،مگر چند ہی مہینے کی حکومت کے بعد مقتول ہوا، اس کے بعد ملکہ شجرۃ الدر ۶۴۷ھ میں تخت نشین ہوئی اورچند مہینے کی حکومت کے بعد وہ بھی تختِ سلطنت سے جُدا ہوگئی اس کے بعد ملک اشرف ۶۴۷ھ میں تخت نشین ہوا، ۶۵۲ھ میں اُس کو اسی خاندان کے غلاموں نے معزول کیا اورخاندان ایوبیہ کُردیہ کا خاتمہ ہوا۔

سلطان صلاح الدین کا تقریباً تمام عہدِ حکومت ملکِ شام اورشہر دمشق یا میدانِ جنگ میں گذرا، لیکن اُس کے جانشینوں نے مصر ہی کو اپنا دار السلطنت بنایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شام کی حکومت اُن کے ضعیف ہوجانے کے بعد دولتِ ایوبیہ سے خارج ہوگئی اورآخر میں وہ صرف ملک مصر ہی پر قابض رہے، اس سلطنت کے آخری فرماں رواؤں کی حکمت عملی یہ تھی کہ خارجیہ اور ارمینیا کے غلاموں کو خرید خرید کر ان غلاموں کی ایک زبردست فوج رکھی جائے تاکہ کسی سردار کو بغاوت وسرکشی کی جرأت نہ ہوسکے اوران شاہی غلاموں کی فوج سے ہر سرکش کی سرکوبی کی جاسکے،مگر رفتہ رفتہ ان غلاموں نے جن کو مملوک کہاجاتا تھا،اس قدر قوت حاصل کرلی کہ وہی سلطنتِ مصر کے مالک ہوگئے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔