Pages

Wednesday, 23 November 2016

عید میلاد النبی ﷺ اور بدعت

عید میلاد النبی ﷺ اور بدعت: عید میلاد النبی ﷺ کے مخالفیں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے یا صحابہ نے تو ہر سال اِس طرح دھوم دھام سے عیدمیلادالنبیﷺ کبھی نہیں منائی تو ہم کیوں منائیں، عیدمیلادالنبیﷺ دین میں نئی ایجاد ہے ، یہ حرام ہے، بدعت ہے ۔ (استغفراللہ) علماء کرام کا جواب:بدعت کا مطلب ہے ایسا نیا کام (اچھا یا بُرا) جو آقا ﷺ کی ظاہری زندگی کے بعد ایجاد ہوا ہو۔اِن 1400 سال کے دوران دینِ اسلام میں بہت سے نئے کام ایجاد ہو چکے ہیں۔ اِسی لئے بدعت کی 2 اقسام ہیں (1) بدعتِ حسنہ (2) بدعتِ سیئہ۔ اگر بدعت(نیا کام) سے دینِ اسلام کو فائدہ ہوتا ہو دینِ اسلام کی تبلیغ میں مدد ملتی ہو تو وہ بدعت اچھی اور جائزہو گی ، ایسی بدعت کو بدعتِ حسنہ کہتے ہیں۔ اگر بدعت(نیا کام) سے دینِ اسلام کو نقصان ہوتا ہو یا وہ خلافِ شریعت ہو تو ایسی بدعت کو بدعتِ سیئہ کہتے ہیں اور وہ ناجائز ہوگی۔ یاد رکھیں بدعتِ حسنہ جائز ہے اور اِس کا ثبوت آقاﷺ کی حدیثِ مبارکہ سے بھی ملتا ہے اور صحابہ کرام کے عمل سے بھی۔ حدیثِ پاک: جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے اُس کو اُس کا ثواب ملے گا اور جو اُس (نئے اچھے طریقے) پر عمل کرے اُسے بھی ثواب ملے گا۔ (صحیح مسلم کتاب زکوۃ جلد 2 صفحہ705 حدیث1017)۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہِ خلافت سے پہلے رمضان میں نمازِ تراویح با جماعت طریقے سے نہیں پڑھی جاتی تھی، چناچہ حضرت عمر ؓنے نمازِ تراویح کی باقاعدہ جماعت کا حکم دیا اور تراویح کی جماعت دیکھ کر خوش ہو کر فرمایا"یہ بڑی اچھی بدعت ہے"(بخاری شریف کتاب الصلاۃالتراویح جلد 2 صفحہ 707 حدیث1906)، (موطا امام مالک کتاب الصلاۃ جلد 1 صفحہ 114 حدیث 250)۔ ایسے بہت سےنئے کام (بدعاتِ حسنہ) ہیں جو آقاﷺ نے تو اپنی ظاہری زندگی میں نہیں کئے لیکن صحابہ کرام ، تابعین اور علمائےاسلام نے بعد میں شروع کئے۔ مثلا ً نمازِجمعہ میں 2 اذانیں حضرت عثمانؓؓؓؓؓؓؓ کے زمانہِ خلافت میں شروع ہوئیں، پہلے1 اذان ہوتی تھی۔ قرآن پر زبر زیر پیش اور نقطے بہت عرصے بعد حجاج بن یوسف نے لگوائے۔اِسی طرح قرآن کے 30 پارے ، قرآنی سورتوں کی ترتیب بھی بدعتِ حسنہ ہے۔ ہمارے 6 کلمے بھی بعد میں بنے۔ مدرسّے بھی بہت بعد میں بنے۔ مساجد کےمینار گنبد محراب بھی بعد میں ایجاد ہوئے۔ حدیث کی کتابیں اور احادیث کی اقسام بھی بعد میں بنیں۔ یہ سب بدعاتِ حسنہ ہیں۔ اِسی طرح مزید ایسے بہت سے نئے کام ہیں جو آقا ﷺ نے نہیں کیے لیکن صحابہ کرام نے بعد میں شروع کئے۔ اور مزید بہت سے نئے کام ہیں جو صحابہ نے نہیں کئے لیکن بعد میں محدثین و اولیاء کرام نے شروع کیے۔ اِن سب مثالوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دینِ اسلام کی سربلندی کے لئے کوئی اچھا کام جس مرضی دور میں شروع ہو وہ جائز اور اچھا ہی ہوتا ہے۔ جب اِن سب پر کوئی اعتراض نہیں تو عید میلادالنبیﷺ پر بدعت بدعت کے فتوے لگانا شدید گمراہی اور پیارے آقا ﷺ کی شان میں گستاخی ہے۔ جہاں تک بات ہے کچھ لوگوں کی غیر شرعی حرکتوں کی تو چند لوگوں کی فضول حرکتوں کو جواز بنا کر میلاد البنی پر تنقید کرنا ایسا ہی ہے جیسے کچھ دہشت گردوں کو بنیاد بنا کر اسلام پر شدت پسندی کا لیبل چسپاں کر دیا جائے !! یاد رکھئے.. فرد کے غلط طریقہ عمل سے عمل کی حیثیت مشکوک نہیں ہوتی۔ بیشک آقا کا میلاد منانا قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے۔ القرآن سورہ یونس:58 "(اے محبوب) تم فرماؤ کہ اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت (کے نزول) کے سبب اِنہیں چاہیےکہ خوشی منائیں ،کہ وہ (خوشی منانا) اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں"۔ سوچیں! کیا آقاﷺ کی اِس دنیا میں آمد ہمارے لئے اللہ کا سب سے بڑا فضل نہیں؟ کیا آقاﷺ رحمۃللعالمین (تمام عالم کے لئے رحمت) نہیں؟ القرآن سورہ الانبیاء:107 "اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا"۔ اب فیصلہ کریں! کیا میلاد منانا قرآن سے ثابت نہیں؟

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔