صحابی رضی اللہ عنہ کا بارش کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کرنا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کتبِ احادیث اِستغاثہ بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِثبات اور عملِ صحابہ رضی اللہ عنہ سے اِس کے ثبوت میں بھری پڑی ہیں۔ احادیثِ صحیحہ مرفوعہ متواترہ سے یہ بات ثابت ہے کہ صحابۂ کرام کو جب بھی کوئی مصیبت و آفت درپیش ہوتی وہ دوڑے دوڑے سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں اِستغاثہ کے لئے حاضر ہوتے۔ اللہ تعالی کے حضور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنا کر دُعا کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاجت براری کے لئے اِستغاثہ کرتے۔ جس کے نتیجے میں اللہ ربّ العزت اُن پر آئی ہوئی مشکل کو ٹال دیتا۔ سیدنا اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ اِستسقاء کو صحیح قرار دیتے ہوئے اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اِس طرح رِوایت کیا ہے کہ :
عن أنس، قال : ’’بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يخطب يومَ الجمعة اذا جاء رجلٌ، فقال : ’’يارسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم قحط المطر فادع اﷲ أن يسقينا‘‘. فدعا، فمطرنا، فما کدنا أن نصلّ الٰي منازلنا، فما زلنا نمطر الٰي الجمعة المُقبلة، قال : فقام ذٰلک الرجل أو غيره، فقال : ’’يا رسول اﷲصلي اﷲ عليک وسلم أدع اﷲ أن يصرفه عنا‘‘. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’اللّٰهُمَّ حَوَالَيْنَا وَ لَا عَلَيْنَا‘‘، قال : ’’فلقد رأيتُ السّحاب يتقطع يميناً و شمالًا يمطرون و لا يمطر أهل المدينة‘‘.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے رِوایت ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز خطاب فرما رہے تھے کہ ایک آدمی آیا اور عرض گزار ہوا : ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بارش کا قحط ہے پس اللہ سے دُعا فرمائیں کہ وہ ہمیں بارش عطا کرے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا فرمائی پس ہمارے گھر وں کو پہنچنے سے پہلے پہلے بارش شروع ہو گئی جو اگلے جمعہ تک مسلسل جاری رہی۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ (اگلے جمعہ) پھر وہی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا اور عرض کی : ’’اے اللہ کے رسول صلی اﷲ علیک وسلم! اللہ سے دُعا کریں کہ اِس (بارش) کو ہم سے ہٹا دے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا فرمائی : ’’اَے اللہ ہمارے اِردگِرد ہو اور ہمارے اوپر نہ ہو‘‘ پس میں نے دیکھا کہ بادل دائیں اور بائیں ہٹ کر بارش برسانے لگا اور اہلِ مدینہ پر سے بارش ختم ہو گئی۔
(صحيح البخاری، کتاب الاستسقاء، 1 : 138)
عملِ صحابہ سے اِستغاثہ کا ثبوت اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابۂ کرام کو اِس عمل سے روکنے کی بجائے اُن کی حاجت براری کرنا اِس بات کو ثابت کرتا ہے کہ یہ عمل شِرک کے اَدنیٰ سے شائبے سے بھی دُور ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی صحابی شِرک میں مبتلا ہو اور یہ تو اُس سے بھی زیادہ ناممکن بات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہ کو شِرک سے بچنے کی تعلیم نہ دیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔