مرزائی ظلی بروزی نبوت کا ڈرامہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ مَعَ ٱلَّذِينَ أَنۡعَمَ ٱللَّهُ عَلَيۡہِم مِّنَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ وَٱلصِّدِّيقِينَ وَٱلشُّہَدَآءِ وَٱلصَّـٰلِحِينَۚ وَحَسُنَ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ رَفِيقً۬ا)
جب بھی کوئی قادیانی قرآن کی کوئی بھی آیت یا کوئی حدیث پیش کرے اور اس سے اپنا عقیدہ ثابت کرنے کی کوشش کرے تو سب سے پہلے اس سے یہ بات طے کرلیں کہ وہ کسی بھی آیت کی جو بھی تفسیر پیش کریگا وہ امّت کے گزشتہ اور مرزا قادیانی سے پہلے کی تفسیروں سے بھی ثابت کریگا کہ اس آیت کی وہی تفسیر ہے جو وہ کر رہا ہے .. اور جو حدیث وہ پیش کر رہا ہے مرزا قادیانی سے پہلے کے محدثین نے اس حدیث کی وہی تشریح کی ہے جو وہ کر رہا ہے۔
وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ مَعَ ٱلَّذِينَ أَنۡعَمَ ٱللَّهُ عَلَيۡہِم مِّنَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ وَٱلصِّدِّيقِينَ وَٱلشُّہَدَآءِ وَٱلصَّـٰلِحِينَۚ وَحَسُنَ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ رَفِيقً۬ا.
ترجمہ : اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ (قیامت کے روز) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے (سورة النساء آيت 69 پارہ 5)
قادیانی نقطہ نظر
جیسا کہ آپ کو اس آیت کے ترجمہ سے پتہ چل گیا ہوگا کہ اس آیت کا مفہوم کیا ہے ، لیکن قادیانی کہتے ہیں کہ "جو لوگ الله اور اسکے رسول کی اطاعت کرینگے وہ نبی ہونگے ، صدیق ہونگے، شہید ہونگے اور صالح ہونگے اس آیت میں چار درجات ملنے کا ذکر ہے اگر انسان الله اور رسول کی اطاعت کرکے صدیق ، شہید اور صالح بن سکتا ہے تو نبی کیوں نہیں بن سکتا؟؟ تو اس آیت سے ثابت ہوا کہ الله اور اسکے رسول کی اطاعت کرکے نبوت بھی حاصل ہو سکتی ہے ..''
تو یاد رکھیں
مرزائی عقیدہ یہ کہ "نبوت کی تین قسمیں ہیں، پہلی وہ نبوت جو مستقل اور حقیقی ہو اور شريعت والى ہو، دوسری مستقل اور حقیقی غير تشريعى نبوت اور تيسرى غیر حقیقی غیر مستقل غیر تشريعى ظلى بروزى نبوت" (یہ تیسری قسم مرزائیوں نے ایجاد کی ہے) پھر انکا ماننا ہے کہ "پہلی دونوں قسم کی نبوت یعنی مستقل تشريعى نبوت اور غير مستقل غير تشريعى نبوت آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بعد بند ہو چکی، صرف تیسری قسم غير مستقل ظلى بروزى غير تشريعى نبوت بند نہیں ہوئی، اور پھر انکا یہ عقیدہ بھی ہے کہ یہ نبوت بھی صرف ایک شخص کو ملی اور کسی کو نہ ملی نہ ملے گی۔
اب مرزائیوں کو ثابت تو کرنا ہوتا ہے کہ "مستقل تشريعى اور مستقل غير تشريعى نبوت بند ہے" اور پھر یہ ثابت کرنا ہے کہ "صرف ظلى بروزى نام کی ایک نئی نبوت کھلی ہے" لیکن وہ اپنے حق میں وہ آیات و احادیث پیش کرتے ہیں جنکے اندر "مطلق نبوت یا رسالت" کا ذکر ہے ، اور ان آیات و احادیث کے مفہوم میں تحریف کرکے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ "ظلى بروزى نبوت جارى ہے" جبکہ وہاں صرف "نبوت یا رسالت" کا ذکر ہے اگر ان آیات یا احادیث سے نبوت کا اجراء ثابت ہوتا ہے تو پھر ہر قسم کی نبوت کا اجراء ثابت ہوتا ہے جو کہ خود مرزائی عقیدہ کے خلاف ہے .اس آیت سے جو دلیل لی جاتی ہے وہ بھی اسی قسم کی ہے۔
مرزائی دلیل کا جائزہ اور انکی تحریفات کا پوسٹ مارٹم
آیت وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ۔۔۔الخ میں نہ تو نبوت ملنے کا ذکر ہے اور نہ ہی کوئی اور چیز ملنے کا ، یہاں تو صرف معيت اور رفاقت کا ذکر ہے کہ الله اور اسکے رسول کی اطاعت کرنے والے مذکورہ چار لوگوں کے ساتھ ہونگے جیسا کہ آیت کے آخر الفاظ "وحسن الئك رفيقاً" سے ظاہر ہے .
آئیے دیکھتے ہیں مفسرین نے اس آیت کا شان نزول کیا بیان کیا ہے.
قادیانیوں کے مسلّم دسویں صدی کے مجدد امام جلال الدين سيوطى رحمه الله نے اپنی تفسیر "جلالين" میں اس آیت کا شان نزول یہ لکھا ہے(ترجمہ) "بعض صحابہ کرام نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے عرض کیا کہ آپ جنّت کے بلند و بالا مقامات میں ہونگے اور ہم نچلے درجات میں ہونگے، تو آپ صلى الله عليه وسلم کی زیارت کیسے ہوگی؟ تو یہ آیت نازل ہوئی .. یہاں رفاقت سے مراد جنّت کی رفاقت ہے کے صحابہ کرام انبیاء عليهم السلام کی زیارت و حاضری سے فیضیاب ہونگے اگر چہ ان (انبیاء) کا قیام بلند و بالا درجات میں ہوگا" (تفسير جلالين صفحہ 80)
امام فخر الدين رازى رحمه الله (یہ بھی قادیانیوں کے نزدیک اپنے زمانے کے مجدد تھے) نے اس آیت کا شان نزول یہ لکھا ہے "حضرت ثوبان رضى الله عنه جو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے وہ آپ صلى الله عليه وسلم کے بہت زیادہ شیدائی تھے (جدائی) پر صبر نہیں کر سکتے تھے ، ایک دن غمگین صورت بنائے رحمت دو عالم صلى الله عليه وسلم کے پاس آئے ، انکے چہرے پر غم کے آثار تھے ، آپ صلى الله عليه وسلم نے وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے عرض کیا کے مجھے کوئی تکلیف نہیں بس اتنا ہے آپ کو اگر نہ دیکھوں تو اشتياق ملاقات میں بے قراری بڑھ جاتی ہے ، آپ صلى الله عليه وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ نے قیامت کا ذکر کیا تو سوچتا ہوں کہ جنّت میں داخلہ ملا بھی تو آپ صلى الله عليه وسلم سے ملاقات کیسے ہوگی؟ کیونکہ آپ تو انبیاء کے درجات میں ہونگے اور ہم آپ کے غلاموں کے درجہ میں ، اور اگر جنّت میں میرا داخلہ ہی نہ ہوا تو پھر ہمیشہ کیلیے ملاقات سے گئے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی" (تفسير كبير ، سورة النساء آيت 69)
ایسے ہی الفاظ تفسیر ابن كثير اور تفسير روح المعانى وغیرہ میں بھی لکھے ہوے ہیں ، جن سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں جس معيت اور رفاقت کا ذکر ہے اس سے جنّت کی رفاقت مراد ہے۔
کیا قادیانی کسی ایک مشہور و معروف اور فریقین کی متفق عليه تفسیر کا حوالہ پیش کر سکتے ہیں جو انکے مرزا جی سے پہلے 1300 سال میں لکھی گئی ہو اور اس میں اس آیت سے یہ ثابت کیا گیا ہو کہ الله اور رسول کی اطاعت کرکے اب نبی بنا کرینگے؟
اب میں مثال کے طور پر ایک حدیث رسول صلى الله عليه وسلم پیش کر رہا ہوں اس میں بھی ایسے ہی الفاظ ہیں جیسے اس آیت میں لیکن وہاں قادیانی حضرات وہ معنى نہیں کرتے جو اس آیت میں کرتے ہیں ، حدیث ہے "التاجر الصدوق الأمين مع النبيين والصديقين والشهداء" سچا امانت دار تاجر نبیوں ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا" (تفسير ابن كثير صفحہ 523 جلد 1 ) .. کیا قادیانی بتائیں گے کہ اس امت میں آج تک کتنے سچے اور امانت دار تاجر نبی ہوے ہیں؟؟؟
ایک بات جس کا قادیانی زور زور سے پروپگنڈا کرتے ہیں کہ ”آپ لوگ امت کو شہیدوں ،صالحین وغیرہ سے بھی محروم کر رہے ہو ۔کیا امت میں یہ درجات نہیں ملے؟ تو یہ امت خیر الامت کیسی۔۔۔“
تو یہ بات یاد رکھيے کہ قرآن میں جہاں بھی درجات ملنے کا ذکر ہے وہاں نبوت کا ذکر نہیں ، اگرچہ باقی تمام درجات کا ذکر ہے، جیسے : والذين آمنوا بالله ورسله الئك هم الصديقون والشهداء عند ربهم ، اور جو لوگ ایمان لائے الله اور اسکے سب رسولوں پر وہی ہیں صدیقین اور شهداء اپنے رب کے پاس (سورة الحديد آيت 19 ) ، اور دوسری آیت ہے والذين آمنوا وعملوا الصالحات لندخلنهم في الصالحين، اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے ہم انکو داخل کرینگے نیک لوگوں میں (سورة العنكبوت آيت 9) اور ان سے کہیں انہی ایات سے ہم امت میں درجات کے ملنے کو مانتے ہیں۔
اب اگر ایک منٹ کے لئے قادیانیوں کے بات مان لیں کہ "جو بھی اللہ اور رسول صلى الله عليه وسلم " کی اطاعت اور اتباع کریگا وہ نبی بھی بن سکتا ہے'' تو
سوال 1 : جو بھی الله اور رسول کی اتباع کرے وہ نبی بن سکتا ہے تو کیا عورتیں، بچے اور ہیجڑے بھی اگر الله و رسول کی اتباع کریں تو وہ بھی نبی ہو سکتے ہیں؟؟ یہاں لفظ "من" ہے جسمیں مرد، عورت، بچے اور ہیجڑے سب داخل ہیں تو اگر نبوت اطاعت کاملہ کا نتیجہ ہے تو عورت کو بھی ملنی چاہیے کیونکہ نیک کاموں کا اجر جیسے مرد کو ملیگا اتنا ہی عورت کو بھی ملے گا .. کیا قادیانیوں کے نزدیک عورت نبی ہو سکتی ہے؟؟
سوال 2 : انسے پوچھیں کہ مرزا قادیانی سے پہلے 1300 سال میں کسی نے الله اور اسکے رسول صلى الله عليه وسلم کی کامل اطاعت کی یا نہیں؟ اگر کی ہے تو نبی کیوں نہ بنے؟ اور اگر کسی نے بھی کامل اطاعت نہیں کی تو آپ صلى الله عليه وسلم کی امّت پھر سب سے بہترین امّت نہ ہوئی (نعوذ بالله) جس میں کسی نے بھی اپنے نبی کی کامل اطاعت نہ کی ؟؟
سوال 3 : الله نے صحابہ کرام رضى الله عنهم کے بارے میں خود فرمایا ہے کہ "يطيعون الله ورسوله"کہ وہ الله اور اسکے رسول کی اطاعت کرتے ہیں (سورة التوبه آيت 71 ) ، تو بتاؤ صحابہ میں کوئی نبی کیوں نہ ہوا؟
سوال 4 : مرزا قادیانی خود لکھتا ہے کہ "حضرت عمر فاروق رضى الله عنه کا وجود ظلى طور پر گویا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا وجود ہی تھا (ايام الصلح ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 265 ) ، ایک اور جگہ لکھتا ہے "صحابہ کرام آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی عکسی تصویریں تھے" (فتح اسلام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 21 ) .. اب سوال یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق یا دوسرے صحابہ کرام رضى الله عنهم اگر کامل اطاعت اور اتباع کا نمونہ تھے تو نبی کیوں نہ ہوے؟
سوال 5 :اگر بفرض محال مان لیا جائے کہ الله اور اسکے رسول کی اطاعت سے نبوت ملتی ہے تو پھر اس آیت میں یہ تو ذکر نہیں کہ صرف غیر تشريعى نبوت ملتی ہے ، تشريعى نبوت نہیں ملتی ، تم کیوں کہتے ہو کہ صرف غیر تشريعى نبی بن سکتا ہے تشريعى نہیں؟؟ پھر اس آیت میں یہ کہاں ہے کہ "ظلى بروزى" نبی بن سکتا ہے "حقيقى اور مستقل" نہیں؟؟
سوال 6: تم کہتے ہو کہ اس آیت میں "ظلى بروزى نبوت" ملنے کا ذکر ہے ، تو کیا جو باقی تین انعامات اس آیت میں بیان ہووے ہیں "صديقين , شهداء , صالحين" وہاں بھی ظلى بروزى صداقت و شهادت اور صالحيت ملتی ہے یا حقیقی ؟؟ یا تو چاروں جگہ "ظلى بروزى" کا دم چھلہ لگاؤ یا چاروں جگہ حقیقی مانو۔
کیا نبوت ریاضت اور عبادت سے حاصل کی جا سکتی ہے یا یہ الله کی طرف سے ایک وہبی چیز ہے؟
علامہ شعرانى رحمة الله عليه اپنی کتاب "اليواقيت والجواهر" میں لکھتے ہیں: ”فان قلت فعل النبوۃ مکتسبۃ او موھوبۃ فالجواب لیست النبوۃ مکتسبۃ حتی یتوصل الیھا بالنسک والریاضات کما ظنہ جماعۃ من الحمقاء وقد افتی الما لکیہ وغیرھم بکفر من قال ان النبوۃ مکتسبۃ ‘‘"اگر تم کہو کہ نبوت کسبی ہے یا وہبی ہے؟ تو اسکا جواب یہ کہ نبوت کسبی نہیں ہے (یعنی انسان کی اپنی محنت اور ریاضت سے حاصل نہیں ہوتی) کہ محنت و کاوش سے اس تک پہنچا جائے جیسا کہ بعض احمقوں کا خیال ہے" (اليواقيت والجواهر صفحہ 164 -165 جلد 1)
اسی طرح شرح شفاء میں ہے۔’’ من ادعی نبوۃ احد مع نبینا ﷺ او بعدہ وداعی النبوۃ لنفسہ او جوز اکتسابھا او البلوغ بصفاء القلب الی مرتبتھا وکذلک من ادعی منھم انما یوحی الیہ وان لم یدعی النبوۃ فھولاء کلھم کفار مکذبون للنبی ﷺ لانہ اخبر ﷺ انا خاتم النبیین لانبی بعدی ۔‘‘ (شرح شفاء ص۲۷۰؍۲۷۱)
امام رازی لکھتے ہیں’’ ومعلوم انہ لیس المراد من کون ھولاو معھم ھو انھم یکونون فی عین تلک الدرجات لان ھذا ممتنع ‘‘ (تفسیر کبیر ص۲۶۳)
امام رازی ؒ مرزا کے نزدیک چھٹی صدی کے ایک مشہور اور مسلّم مجدد ہیں ۔دیکھئے کس صراحت سے انہوں نے مرزائیوں کی تفسیر کی تردید کی ہے کہ فاؤلئک مع الذین سے مراد یہ نہیں کہ اطاعت کرنے سے ان کو وہ درجات حاصل ہوں گے کیونکہ یہ ممتنع ہے بلکہ اس سے مراد صرف ان کی صحبت ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں۔
مزید یہ کہ مرزا قادیانی لکھتا ہے ۔’’ جب کسی کی حالت اس نوبت تک پہنچ جائے (جو اس سے قبل مذکور ہوچکی ہے ) تو اس کا معاملہ اس عالم سے واراء الورا ء ہوجاتا ہے اوران تما م ہدایتوں اور مقامات عالیہ کو ظلی طور پر پالیتا ہے جو اس سے پہلے نبیوں اور رسولوں کو ملے تھے اورانبیاء اور رسل کا وارث اور نائب ہوجاتا ہے ۔وہ حقیقت جو انبیاء میں معجزہ کے نام سے موسوم ہوتی ہے وہ اس میں کرامت کے نام سے ظاہر ہوتی ہے اور وہی حقیقت جو انبیاء میں عصمت کے نام سے نامزد کی جاتی ہے اس میں محفوظیت کے نام سے پکاری جاتی ہے اور وہی حقیقت جو انبیاء میں نبوت کے نام سے بولی جاتی ہے اس میں محدثیت کے پیرایہ میں ظہور پکڑتی ہے حقیقت ایک ہی ہے لیکن بباعث شدت اور ضعف رنگ کے ان کے نام مختلف رکھے جاتے ہیں ۔ اس لئے آنحضرت ﷺ کے ملفوظات مبارکہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ محدث نبی بالقوہ ہوتا ہے اگر باب نبوت مسدود نہ ہوتا تو ہر ایک محدث اپنے وجود میں قوت استعداد نبی ہونے کی رکھتا ہے اور اس قوت اور استعداد کے لحاظ سے محدث کا حمل نبی پر جائز ہے یعنی کہہ سکتے ہیں المحدث نبی جیسا کہ کہہ سکتے ہیں : العنب خمر نظر اعلی القوۃ والاستعداد ومثل ھذا الحمل شائع متعارف فی عبارات القوم وقد جرت المحاورات علی ذالک کما لایخفی علی کل ذکی عالم مطلع علی کتب الادب ‘‘(ریویو آف ریلجنز أپریل ۱۹۰۴ بعنوان اسلام کی برکات ، آئینہ کمالا ت اسلام ص۲۳۷؍۲۳۸ج ۵ ۔ روحانی خزائن ۲۳۷ ؍۲۳۸)
اس عبارت سے واضح ہوگیا کہ ظلی نبوت بھی درحقیقت محدثیت ہی ہے اور ظلی نبی جو کامل اتباع سے بنتا ہے وہ حقیقت میں محدث ہے۔ لہذا قادیانیوں کا یہ کہنا کہ اتباع اور اطاعت سے نبوت حاصل ہوجاتی ہے غلط ٹھرا۔
یہاں پر مرزا محدث کا حمل جو نبی پر کررہے ہیں اور المحدث نبی کہہ رہے ہیں وہ محض اس کی قوۃ اور استعداد کے لحاظ سے ہے ۔جیسا کہ عنب کا حمل قوت اور استعداد کے لحاظ سے خمر پر ہوتا ہے تو اب ظاہر ہے کہ یہ حمل اگرچہ جائز ہے لیکن ان کے احکام مختلف ہیں جیسا کہ عنب اور خمر کے احکام مختلف ہیں اسی طرح محدث جس کو بالقوۃ ہم نبی کہہ رہے ہیں اس کے احکام نبی سے مختلف ہونے چاہئیں۔ لہذا یہ بات ثابت ہوگئی کہ اطاعت کرنے سے مرز ا کے نزدیک جو نبوت حاصل ہوتی ہے وہ محدثیت ہی ہے جس کا انکار کفر نہیں اور اطاعت سے اس مقام کے حاصل ہونے میں کوئی نزاع نہیں ہے ۔ پھر
’’ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ محدثیت محض وہبی ہے کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی جیسا کہ نبوت کسب سے حاصل نہیں ہوسکتی ۔‘‘(اردو ترجمہ حمامۃ البشریٰ ل۸۲ روحانی خزائن ص۳۰۱ ج۷)
ایک مرزائی دجل:وہبی چیز میں بھی انسان کا دخل ہوتا ہے جیسے اللہ نے فرمایا ہے الشوری 49 میں فرمایا”اللہ جس کا چاہے بیٹیاں بخشتا ہے اور جس کا چاہے بیٹے۔ تو معلوم ہوا کہ وہبی چیز میں بھی کسب کا دخل ہے۔
جواب: اس بات کا جواب تو اللہ خود اگلی ایت میں ہی دے دیا ہے ”و یجعل من یشآء عقیماً“ (الشوری50) انسان کا دخل اختلاط تک ہوتا ہے مگر لڑکا یا لڑکی عطا کرنے میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اور بسا اوقات تو اختلاط سے بھی کچھ بھی نہیں ہوتا۔
اب آئیے دیکھتے ہیں مرزا قادیانی کی تحریریں کیا کہتی ہے؟
"اب میں بموجب آیت کریمہ وأما بنعمة ربك بحدث اپنی نسبت بیان کرتا ہوں کہ خدا تعالى نے مجھے اس تیسرے درجے میں داخل کرکے وہ نعمت بخشی ہے جو میری کوشش سے نہیں بلکہ شکم مادر میں مجھے عطا کی گئی ہے"
(حقيقت الوحى ، روحانی خزائن صفحہ 70 جلد 22 )
لیجیے مرزا صاحب تو کہ رہے ہیں کہ انکو یہ نعمت (نبوت) ماں کے پیٹ میں ہی عطا ہو گئی تھے اب بتاؤ اس وقت تک مرزا جی نے الله اور رسول کی کونسی اطاعت کی تھے؟؟ وہ تو ابھی دنیا میں بھی نہیں آئے تھے؟
آگے دیکھیے مرزا صاحب واضح الفاظ میں لکھتے ہیں "صراط الذين انعمت عليهم اس آیت کا خلاصہ یہ کہ جس شخص کو یہ مرتبہ ملا انعام کے طور پر ملا یعنی محض فضل سے نہ کسی عمل کا اجر"
(چشمہ مسيحى ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 365)
اب بتائیں کس کی بات ٹھیک ہے ؟ آج کل کے قادیانیوں کی یا مرزا کی؟ یہ آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کا اعجاز ہے کہ مرزا اپنے ہی مسلمات کے خلاف لکھ گیا اسی لیے کہاگیا ہے کہ
’’ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ‘‘
ایک اور حوالہ مرزا قادیانی کی کتاب کا یاد رکھیں
اس میں وہ خود اس آیت کی وضاحت کر رہا ہے لکھتا ہے "تم پنجوقت نمازوں میں یہ دعا پڑھا کرو اهدنا الصراط المستقيم یعنی اے ہمارے خدا اپنے منعم عليهم بندوں کی ہمیں راہ بتا وہ کون ہے ؟ نبی اور صدیق اور شہید اور صلحاء، اس دعا کا خلاصہ مطلب یہی تھا کہ ان چاروں گروہوں میں سے جسکا زمانہ تم پاؤ اسکے سایہ صحبت میں آ جاؤ" (آئينه كمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 612 ) .. آپ نے غور کیا مرزا نے کیا مطلب بیان کیا؟؟
ایک اور اہم حوالہ
مرزا نے اہل مکہ کیلیے ایک دعا کی ہے کہ الله تم کو انبیاء و رسل ، صدیقین ، شهداء و صالحين کی معيت نصيب کرے ، مرزا نے عربی میں بلکل وہی الفاظ لکھے ہیں جو اس آیت کریمہ یں ہیں لکھتا ہے "نسئله ان يدخلكم في ملكوته مع الانبياء والرسل والصديقين والشهداء والصالحين" (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 325 ) تو کیا ان الفاظ کا یہی مطلب ہوگا کہ مرزا جی دعا کر رہے ہیں کہ اہل مکہ تمام کے تمام انبياء اور رسول بن جائیں؟ اور اگر یہی مطلب ہے تو کیا مرزا جی کی یہ دعا قبول ہوئی؟؟
یاد رہے "اور میں جانتا ہوں میری دعائیں کرنے سے پہلے ہی مستجاب ہیں"
(مکتوبات احمد:جلد دوم: صفحہ 40مکتوب نمبر 25)
ایک اور مرزائی شوشہ اور اسکا جواب
قادیانیوں کی اس دلیل کی ساری عمارت "مع النبيين والصديقين والشهداء والصالحين" میں مذکور لفظ "مع" پر کھڑی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہاں "مع" کا معنى ہے "میں" یا عربی میں "من" کے معنى میں ہے . قادیانی قرآن کی آیت کریمہ پیش کرکے کہتے ہیں کہ دیکھو اس میں لفظ "مع" ساتھ نہیں بلکہ "من" یا "میں سے" کے معنى میں آیا ہے .. سورة آل عمران کی آیت نمبر 193 کے آخرى الفاظ یہ ہیں وَتَوَفَّنَا مَعَ ٱلۡأَبۡرَارِ،ترجمه: اور (اے ہمارے رب) ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا .
جواب امام فخرالدین رازی کی زبانی
ہم پہلے مختلف تفسیر کے حوالوں سے ثابت کر آئیں ہیں کہ اس آیت کریمہ میں "مع" اپنے حقیقی معنى "ساتھ" میں ہی استعمال ہوا ہے۔ قادیانیوں کے چھٹی صدی کے مسلمہ مجدد امام فخر الدين رازى رحمه الله کی تفسیر کبیر سے ہی اس آیت کی تفسیر یوں ہے(ترجمہ) "انکا ابرار کے ساتھ وفات پانا اس طرح ہوگا کہ وہ ان نیکوں جیسے اعمال کرتے ہوے انتقال کریں، تاکہ قیامت کے دن انکا درجہ پالیں جیسے کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں اس مسئله میں امام شافعی کے ساتھ ہوں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسکا اعتقاد رکھنے میں وہ اور امام شافعی برابر ہیں (نہ یہ کہ وہ درجہ میں امام شافعی کے برابر ہوگیا)"( تفسير كبير صفحہ 181 جلد 3)
اور ایک قاعدہ زہن میں رکھیں۔جب کوئی لفظ دو معنوں میں مستعمل ہوتو دیکھا جاتا ہے کہ حقیقت کس میں ہے اور مجاز کس میں جب تک حقیقت متعذر نہ ہوتو مجاز کی طرف رجوع نہیں کیا جاتاہے۔”مع“ معیت اور رفاقت کے معنی میں حقیقت ہے اور یہاں حقیقت متعذر نہیں ہے بلکہ وحسن اولئک رفیقا کا جملہ صاف اور صریح دلالت کررہا ہے کہ یہاں معیت کے معنی میں ہے ورنہ یہ جملہ کلام الٰہی میں بالکل بے فائدہ اور زائد ہوگا کیونکہ جب اطاعت کرنے سے وہ لوگ خود نبی او رصدیق بن گئے تو پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت کہ ان لوگوں کی رفاقت اچھی ہوگی۔
اب ذرا قادیانیوں سے ان آیات کا ترجمہ بھی پوچھیں : ان الله مع الصابرين... ان الله مع المتقين .. ان الله مع الذين اتقوا والذين هم محسنون.... ان سب آیات میں اگر لفظ "مع" کا ترجمہ "میں سے" کیا جاۓ تو ٹھیک ہوگا؟؟
مثال کے طور پر اگر کوئی ترجمہ کرے کہ "الله بھی صبر کرنے والوں میں سے ہے" یا الله بھی متقيين میں سے ہے" تو یہ ٹھیک ہوگا؟؟ یا ان آیات کا صحیح ترجمہ یہی ہے کہ "الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے" یا "الله متقین کے ساتھ ہے"؟؟ کیا کہتے ہو؟؟
ایک اہم بات آپ لوگ جب بھی کسی قادیانى کے ساتھ اس موضوع پر بات کریں تو سب سے پہلے اس سے یہ پوچھ لیں کہ تمہارا دعوى کیا ہے؟ قادیانیوں کا دعوى یہ ہے کہ"حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے بعد نبوت جاری ہے اور مرزا غلام احمد الله کا نبی ہے" اور جب قادیانی کہے کہ ہاں یہی میرا دعوى ہے تو پھر اس سے سوال کریں کہ اب تم جو بھی دلیل دوگے وہ "عام" یا مبہم نہیں ہونی چاہیے بلکہ دلیل وہ دینا جس میں یہ بھی صاف صاف ہو کہ مرزا غلام احمد الله کا نبی ہے .. صرف یہ دلیل دینا کہ نبوت جاری ہے کافی نہیں ...جیسے مثال کے طور پر میں کہوں کہ آج خالد (فرضی نام) آیا تھا، کوئی کہے کہ نہیں آیا تھا، تو آپ میرے سے خالد کے آنے کا ثبوت مانگیں تو میں ثبوت میں یہ دلیل پیش کروں کہ "آج بہت سے لوگ آئے تھے" تو آپ مجھ سے سوال کروگے کہ چاہے ایک لاکھ لوگ ہی کیوں نہ آئے ہوں، تم یہ ثابت کرو کہ "خالد" آیا تھا یا نہیں؟؟..بلکل اسی طرح قادیانى پادری لوگوں کو قران کی آیات کا غلط ترجمہ کرکے اور دھوکے سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ "حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے بعد بھی نبوت جاری ہے" جبکہ انکو ثابت یہ کرنا ہے کہ نبوت جاری ہے اور مرزا قادیان الله کا نبی ہے ...یہ اپنے عقیدے کا دوسرا حصّہ وہ قیامت تک قرآن و حدیث سے ثابت نہیں کر سکتے۔
Friday, 25 November 2016
مرزائی ظلی بروزی نبوت کا ڈرامہ
Posted by
Unknown
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔