Pages

Thursday 1 June 2017

( حصّہ سوم ) دیابنہ کی طرف سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کےلیئے امکان کذب(جھوٹ) ثابت کرنے کا رد

( حصّہ سوم ) دیابنہ کی طرف سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کےلیئے امکان کذب(جھوٹ) ثابت کرنے کا رد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
استحالہ کذب باری تعالیٰ کے عقلی دلائل : اب اس دعوے (۱) کے اثبات میں چند عقلی دلائل بھی ملاحظہ ہوں۔

دلیل اول : کذب باری اگر ممکن ہے تو احد الامرین سے خالی نہیں۔ یا تو کلام نفسی میں پایا جائے گا یا نہیں؟ اگر نہیں پایا جاتا تو اس کا امکان بھی نہیں اس لئے کہ جب بھی پایا جائے گا حادث ہو کر پایا جائے گا اور قیام حوادث بذات باری تعالیٰ محال ہے۔ لہٰذا کذب کا بھی حادث ہو کر پایا جانا محال ہوا اور اگر پایا جاتا ہے تو قدیم ہی ہو کر پایا جائے گا۔ جیسا کہ ابطال شق اول میں معلوم  ہوا۔ پس ماننا پڑے گا کہ کذب قدیم ہے اور جب کذب قدیم ہوا تو دو استحالے لازم آئے۔ ایک تو یہ کہ جب کذب قدیم مان لیا تو واقع ہو گیا  دوسرے یہ کہ جب کذب قدیم ہوا تو صدق محال ہو گیا۔ وہٰذا باطل ۔

دلیل دوم : کذب باری فی نفسہٖ احد الامرین سے خالی نہیں یا تو نقص ہو گا یا نہ ہو گا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ضرور نقص ہے جیسا کہ عبارات سابقہ سے معلوم ہوا۔ لہٰذا جب نقص ہوا تو بالاتفاق محال ہو گیا۔

دلیل سوم : اگر کذب ممکن ہو تو کلام نفسی میں ضرور پایا جائے گا۔ جیسا کہ دلیل اول میں معلوم ہوا اور یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ کلام لفظی کلام نفسی کی تعبیر ہے۔ جب کذب کلام نفسی میں مان لیا گیا تو کلام لفظی میں بھی ماننا پڑے گا۔ چونکہ وہ معتبر ہے اور کذب جب کلام لفظی میں ہوا تو وقوع کذب لاز م آ گیا اور یہ باطل ہے۔

ان کے علاوہ اور بھی کثیر التعداد دلائل عقلی امتناع کذب باری تعالیٰ پر قائم ہیں جن کی اس مختصر سے کتابچہ میں گنجائش نہیں ہے۔ ان شاء اللہ کسی اور موقع پر لکھی جائیں گی۔

امکان کذب پر فریق مخالف کی ایک اور دلیل اور اس کا جواب : مخالفین کا دعویٰ ہے کہ کذب تحت قدرت باری تعالیٰ داخل ہے اور اس کی دلیل میں آیت ’’اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر‘‘ ـ(اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے) پیش کرتے ہیں یعنی چونکہ کذب بھی ’’شیء‘‘ میں داخل ہے لہٰذا وہ بھی تحت قدرت داخل ہوا۔

شیء کی بحث نفیس اور اس سے امکان کذب کا رد : اس کا جواب اول تو یہ ہے کہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تفسیر یوں کی ہے (ان اللّٰہ علٰی کل شیء)شاء ہ (قدیر) یعنی جس چیز کو خدا چاہے اس پر قادر ہے۔ شیٔ کو بمعنی ’’مشی‘‘ قرار دیا اور کذب باری تعالیٰ کسی آیت یا حدیث یا اقوال مفسرین و متکلمین وغیرہ سے مشی ثابت نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس آیت کریمہ سے مخالفین کے دعوے کا اثبات ہو ہی نہیں سکتا۔ دوسرے یہ کہ کذب باری شیٔ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ چہ جائیکہ اس کو مَشِیْ کہا جائے۔
علامہ تفتازانی شرح عقائد نسفی میں شیٔ کی تعریف اس طرح کرتے ہیں
الشئ عندنا ہو الموجود
یعنی ہمارے نزدیک موجود کو شیٔ کہتے ہیں۔ اور دوسری جگہ فرماتے ہیں
’’والمعدوم لیس بشئ‘‘ یعنی معدوم کوئی شے نہیں۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اب میں مخالفین سے دریافت کرتا ہوں کہ آیا کذب باری موجود ہے یا معدوم؟ اگر کہا جائے کہ وہ موجود ہے تب تو واقع ہو گیا اور اگر موجود نہیں یعنی معدوم ہے تو تعریف شیٔ میں داخل نہیں اور جب تعریف شیٔ میں داخل نہیں تو تحت قدرت کیسے ہو گا؟ پھر اس آیت سے استدلال کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ اور اگر کہا جائے کہ شیٔ سے مراد ما یصح وجودہ ہے اور وہ امکان کے منافی نہیں۔ لہٰذا کذب تحت قدرت باری تعالیٰ داخل رہا تو ہم کہیں گے کہ شیٔ سے مراد ما یصح وجودہ لے کر اول تو اپنے اصول کو چھوڑ کر معتزلہ کے اصول کو اختیار کرنا ہے اور یہ خلاف ہے اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ شیٔ سے مراد ما یصح وجودہ لینا صحیح ہے تو مستدل (۲) کو چاہئے کہ اول تو وہ کذب کو ما یصح وجودہ ثابت کر دے پھر اس کے متعلق کچھ کلام کرے۔

صفاتِ باری تعالیٰ تحت قدرت باری تعالیٰ نہیں : اس کے علاوہ اگر کذب باری تعالیٰ کو شیٔ مان بھی لیا جائے تب بھی وہ تحت قدرت نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ کذب باری پایا جائے گا تو صفت باری تعالیٰ ہو کر پایا جائے گا۔ جب کذب صفت باری تعالیٰ ہوا تو تحت قدرت نہ ہو گا اس لئے کہ تمام حکماء اسلام کا یہ مسلمہ مسئلہ ہے کہ ذات و صفات تحت قدرت باری تعالیٰ داخل نہیں ورنہ ان کا حدوث لازم آئے گا۔ وہو ظاہر البطلان۔

پس معلوم ہوا کہ کذب باری بہرتقدیر خارج عن القدرت ہو گا۔ خواہ شے کہا جائے یا لاشے، معدوم یا موجود اور قائلین خلف وعید پر امکانِ کذب کا الزام لگایا جاتا ہے، وہ ہرگز صحیح نہیں۔ جیسا کہ ’’ما سبق‘‘ سے اظہر من الشمس ہو گیا۔

محققین خلف وعید کے قائل نہیں : اور محققین تو خلف وعید کے قائل ہی نہیں چنانچہ علامہ تفتازانی نے تصریح کی ہے ’’والمحققون علی خلافہ وکیف وہو تبدیل القول وقد قال تعالٰی مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ‘‘ اللہ تعالیٰ ایسے عقائد فاسدہ سے ہر مسلمان کو بچائے۔ (اٰمین ثم اٰمین)

فریق مخالف کی دوسری دلیل اور اس کا رد : مخالفین کہتے ہیں کہ کلام نفسی میں کذب ممتنع بالذات سہی لیکن کلام لفظی میں ممکن بالذات ہے۔ کیونکہ کلام لفظی وہ ہے جو الفاظ سے مرکب ہو اور جو الفاظ سے مرکب ہو وہ حادث اور حادث ممکن بالذات ہے اور جو ممکن ہو گا وہ بحکم ’’اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر‘‘ تحت قدرت داخل ہو گا۔ لہٰذا کلام لفظی باقسامہ تحت قدرت داخل ہوا۔ انتہیٰ

الجواب: اگرچہ اس کا جواب بھی تقریر ماسبق موجود ہے لیکن یہاں کافی وضاحت کی جاتی ہے۔ واضح ہو کہ یہ دلیل تین طریقوں سے مردود ہے۔ اول یہ کہ بجز ایک امر مشہور کے جس سے مستدل کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تمام مقدمات مخدوش ہیں۔ دوسرے یہ کہ مفید مدعی نہیں یعنی امکانِ کذب باری تعالیٰ ثابت نہیں ہوتا۔ تیسرے یہ کہ برتقدیر ثبوت اس مدعا کے مستدل کا دوسرا مدعا یوں کہیئے کہ مدعا کا دوسرا جزو غلط ٹھہرتا ہے۔ اب مستدل کے تمام مقدمات کا ابطال تفصیل سے سنیئے۔

کلام لفظی وہ ہے جو مرکب ہو الفاظ سے، ’’اقول‘‘ بعض کلام ایسے ہیں جن میں فقط ایک ہی لفظ ہے مثلاً ’’ق‘‘ پس جب کلام الفاظ سے مرکب نہیں تو تعریف اپنے افراد کو جامع نہیں ہوتی اور اگر الفاظ حکمیہ یعنی ضمائر مستترہ کا اعتبار کر کے کہا جائے تو مقدمہ ثانیہ یعنی جو الفاظ سے مرکب ہو وہ حادث ہے یہ ممنوع ہوا۔ اس لئے کہ دلیل حدوث ترتب الفاظ میں ہے کیونکہ اسی ترتب کے باعث تقدم یا تاخر زمانی ہوتا ہے جس کی وجہ سے اسے حادث کہہ سکتے ہیں اور یہ تقدم یا تأخر الفاظ حقیقیہ و حکمیہ کی ترکیب میں مفقود ہے۔ پس جب تقدم یا تأخر نہ ہوا تو حدوث کا ثبوت بھی نہ ہو گا۔

یعنی جو کلام الفاظ سے مرکب ہو وہ حادث ہے۔ ’’اقول‘‘ صاحب مواقف نے ایک مستقل رسالہ کلام الٰہی کی تحقیق میں تصنیف کیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ رئیس الاشاعرہ شیخ ابو الحسن اشعری کلام نفسی اور کلام لفظی دونوں کے قدم کے قائل ہیں اور سید سند  علیہ الرحمہ نے اس رسالہ کو بہت پسند کیا ہے۔ لہٰذا اس کی تحقیق کے بموجب ہر کلام لفظی حادث نہ ہو گا بلکہ صرف مخلوقات کا کلام لفظی حادث ہو گا  وہٰذا خارج عن البحث لہٰذا یہ مقدمہ باطل ہو گیا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔