Pages

Wednesday 14 June 2017

مِن دُونِ اللّهِ کا صحیح معنی و مفہوم (حصّہ اوّل)

مِن دُونِ اللّهِ کا صحیح معنی و مفہوم (حصّہ اوّل)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مِن دُونِ اللّهِِ کوئی مخصوص قرآنی اصطلاح نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھ لیا گیا ہے۔ عربی لغت کے اعتبار سے فعل دَانَ یَدُوْنُ کا مادہ دُوْناً ہے جس میں کمزوری، حقارت، خساست، پستی اور گھٹیا پن کا معنی پایا جاتا ہے۔(1)عام روزمرّہ گفتگو میں اہلِ عرب کسی کی حقارت اور گھٹیا پن کے بارے میں یوں اظہار کرتے ہیں : ’’صَارَ دُوْناً خَسِيْساً‘‘ کہ فلاں شحص دُوْن یعنی گھٹیا اور کمینہ ہو گیا۔اس جملے میں گھٹیا پن، پستی اور حقارت و خساست کا مفہوم مضمر ہے۔(القاموس المحيط، 1 : 1545)(2)يقال للقاصر عن الشيئی دُون ’’جو شخص اپنی کمزوری کے باعث کوئی کام کرنے سے عاجز و قاصر ہو اسے بھی دُون کہا جاتا ہے۔‘‘( مفردات راغب : 172)(3)اگر کوئی چیز کسی کے مقابلے میں مقداراً تھوڑی، کم حقیر اور ہلکی ہو تو اسے بھی دُون کہتے ہیں۔ جیسے ارشادِ ربانی ہے۔وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ يَّشَآءُ.ترجمہ:اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس کے لئے چاہتا ہے بخشش دیتا ہے۔(سورہ نساء، 4 : 48)
روزمرّہ گفتگو میں مِن دُونِ اللَّهِ کا استعمال ’’غیر اﷲ‘‘ کے معنی میں ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اکثر و بیشتر ’’مِن دُونِ اللّهِ‘‘ یا ’’مِن دُونِهِ‘‘ کے الفاظ کفار و مشرکین کے شرک کی نفی اور ابطالِ باطل کے ضمن میں ان کے معبودانِ باطلہ کے لئے استعمال ہوئے ہیں جس سے نہ صرف ان کا غیرِ خدا ہونا ثابت ہوتا ہے بلکہ ان کی اصل حیثیت یعنی بے مائیگی بھی متعین ہو جاتی ہے اور اس پر مستزاد ان کے الٰہ اور قابلِ پرستش ہونے کا رد بھی ہو جاتا ہے۔ مزید برآں دَانَ یَدُوْنُ کے اصل معنی کی بنا پر ان کا پست و حقیر، گھٹیا اور عاجز و کمزور بلکہ بارگاہِ خداوندی میں ان کا بے مایہ اور بے حیثیت ہونا بھی ثابت ہو جاتا ہے۔ گویا مِن دُونِ اللَّهِ کے الفاظ سے کفار و مشرکین کے مشرکانہ معتقدات اور توہمات کا قلع قمع کرنا اور ان کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ ان کے جھوٹے معبود اس قدر بے حیثیت ہیں کہ وہ کسی قسم کے نفع و نقصان کا باعث نہیں ہو سکتے۔

مِن دُونِ اللّهِ کی حقیقی مراد

قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی مِن دُونِ اللَّهِ یا اس کے مماثل الفاظ کا ذکر ہوا ہے وہاں اس سے مقصود کفار و مشرکین کے باطل عقائد و نظریات کا رد اور معبودانِ باطلہ کی بے وقعتی کا اظہار ہے۔ بنیادی طور پر ان الفاظ سے درج ذیل امور کا بیان مقصود ہوتا ہے۔(1)باطل عقائد و نظریات:کفار و مشرکین کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کے سیاق و سباق میں ان کے باطل عقائد و نظریات کا ذکر کر کے کسی نہ کسی صورت میں ان کی تردید اور تغلیط مقصود ہے۔(2)معبودانِ باطلہ:ان الفاظ کے ذریعہ عام طور پر ان کے معبودانِ باطلہ یعنی ان بتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں وہ خدا کا شریک ٹھہرا کر مستحقِ عبادت سمجھتے تھے۔(3)اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک سے اُلوہیت کی نفی ۔ ان الفاظ کے ذریعے معبودانِ باطلہ کی ذاتِ حق سے مطلقاً بے تعلقی اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک سے الُوہیت کی نفی کی گئی ہے۔(4)معبودانِ باطلہ کی بے وقعتی مِن دُونِ اللَّهِ سے ان معبودانِ باطلہ کی بے بسی، بے حیثیتی اور بے وقعتی ظاہر کرنا مقصود ہے تاکہ کفار و مشرکین اس حقیقت پر متنبہّ ہو کر اپنے مزعومہ مشرکانہ خیالات سے باز آ جائیں اور انہیں عبادت کے لائق نہ سمجھیں۔(5)کفار و مشرکین سے خطاب:کلامِ الٰہی میں مِن دُونِ اللّهِ کے مخاطب مورد و اطلاق کے اعتبار سے اہلِ ایمان نہیں بلکہ اہلِ کفر مشرکین اور ان کے وہ الٰہ اور جھوٹے معبود مراد ہیں جن کی وہ پرستش کرتے تھے۔ مِن دُونِ اللّهِ سے نہ تو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ انبیاء و رسل علیھم السلام مراد ہیں اور نہ ہی صلحاء و اولیاء جنہیں بارگاہِ ایزدی میں شرفِ قبولیت اور مقامِ قرب و محبوبیت سے نوازا گیا ہے، ان کا ذکر قرآن حکیم میں اس پیرائے میں نہیں کیا گیا۔ اہلِ ایمان انہیں خدا کا شریک یا اپنا معبود نہیں سمجھتے۔ اگر کسی جگہ نصاریٰ کے تذکرے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم علیھا السلام کے حوالے سے ایسی بات کہی گئی ہے تو وہ بھی صرف اس بناء پر کہ انہوں نے دونوں برگزیدہ ہستیوں کو خدا اور خدا کا بیٹا مان کر واضح شرک کا ارتکاب کیا تھا۔ جس پر اس بات کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے استفسار کیا جائے گا : أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـهَيْنِ مِن دُونِ اللّهِ. (المائدۃ، 5 : 116) ’’کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم مجھ کو اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟‘‘ جس کا جواب وہ نفی میں دیں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہاں بھی تثلیث کے ماننے والوں کے مزعومہ مشرکانہ عقائد کی تردید اور خدا کی الُوہیت کے سوا ہر ایک کی نفی مقصود ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

(6)معبودانِ باطلہ کے ولی اور شفیع ہونے کا انکار:مِن دُونِ اللَّهِِ یا مِن دُونِهِ کے الفاظ کے ذریعے کفار کے معبودانِ باطلہ کے ولی اور شفیع ہونے کا انکار کیا گیا ہے مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے : لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلاَ شَفِيعٌ.ترجمہ:ان کے لئے اس کے سوا نہ کوئی مددگار ہو اور نہ (کوئی) سفارشی۔(الانعام، 6 : 51)اس آیتِ مبارکہ کا اشارہ بھی منکرین و مشرکین اور ان کے جھوٹے معبودوں کی طرف ہے کیونکہ اہلِ ایمان کے لئے تو ولایت بھی ثابت ہے اور شفاعت بھی حتیٰ کہ خود قرآن کی رو سے انبیاء و صلحاء اہلِ ایمان کے ولی بھی ہیں اور شفیع بھی بلکہ ایمانداروں کو صرف انہی پر اعتماد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

انبیاء علیہم السّلام و اولیاء علیہم الرّحمہ ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کا مصداق نہیں

مِن دُونِ اللَّهِِ یا مِن دُونِهِ جیسے الفاظ کا اطلاق اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے عام چیزوں پر ہوتا ہے اور ان کا معنی غیرِ خدا ہی لیا جاتا ہے۔ یہاں ’’غیرِ خدا‘‘ کا مفہوم اپنے اندر یہ واضح اشارہ رکھتا ہے کہ ہر وہ چیز غیرِ خدا ہے جو خدا سے دور لے جانے والی ہو۔ خدا سے انکار اور کفر و شرک کا باعث ہو اور خدا کی بارگاہ میں کسی بھی رتبے یا درجے کی حامل نہ ہو بلکہ عنداللہ محض بے حیثیت اور بے عزت و بے وقعت ہو، جہاں تک انبیاء و رسل، اولیاء و عرفاء، مومنین کاملین اور خدا کے مقبول و برگزیدہ بندوں کا تعلق ہے وہ بارگاہِ ایزدی میں مقرب اور محبوب تصور کئے جاتے ہیں، ان پر ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے بارے میں مختلف آیات میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :(1) إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ۔ ترجمہ : بے شک وہ ہمارے (کامل) ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔(الصآفات، 37 : 81، 111)(2)اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو تو غیر سمجھتا ہی نہیں۔ اُس کے نزدیک غیر وہی ہیں جو اس سے دور ہیں۔ ارشاد فرمایا :يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ۔ ترجمہ : اے نبی (معظم!) آپ کے لئے اللہ کافی ہے اور وہ مسلمان جنہوں نے آپ کی پیروی اختیار کر لی۔(الانفال، 8 : 64)یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو اپنا مقرب تصور کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان پر اعتماد کی تلقین اور ہدایت فرمائی ہے اور بطورِ خاص اپنی بارگاہ میں ان کی حیثیت اور قدر و منزلت کو واضح کیا ہے۔اولیاء اللہ (اللہ تعالیٰ کے دوست اور محبوب بندے) اللہ تعالیٰ کا غیر اس لئے بھی نہیں ہوسکتے کہ وہ خود زمین پر چلتے پھرتے اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے، ان کی زیارت اللہ کے ذکر کا سبب ہوتی ہے، ان کی قربت اللہ کی قربت اور انکی محبت اللہ کی محبت ہوتی ہے۔ زیرِ بحث موضوع کو سمجھنے میں حضرت ابنِ عباس اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مروی درج ذیل حدیث کا حوالہ دینا مددگار ثابت ہوگا۔

حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اولیاء اﷲ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الَّذِيْنَ إِذَا رُؤُوْا ذُکِرَ اﷲُ عزوجل.ترجمہ:وہ لوگ جنہیں دیکھنے سے اللہ یاد آجائے (اولیاء اﷲ ہیں)۔(نسائی، السنن الکبری، 6 : 362، رقم : 11235)(ابن المبارک، کتاب الزهد، 1 : 72، رقم : 217)(مقدسی، الأحاديث المختارة، 10 : 108، رقم : 105)(هيثمی، مجمع الزوائد، 10 : 78)
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کے معاندین کو اپنا ما سویٰ اور ان کے غیر کو اپنا غیر تصور کرتا ہے۔ ان کے دوست کو اپنا دوست اور ان کے دشمن کو اپنا دشمن قرار دیتا ہے۔ ازراہِ تمثیل یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ غرباء کے صدقات کو اپنے لئے قرضِ حسنہ اور دین کی خدمت کو اپنے لئے مدد قرار دیتا ہے۔ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کے آداب بیان کرتے ہوئے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی عمل میں سبقت لے جانے کو اپنی ذات سے پہل، مؤمنین کی راہ کی پیروی کو اپنی راہِ ہدایت، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کو اپنی بیعت، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور ان کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی قرار دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کو اپنا قول اور ان کے عمل کو اپنا عمل قرار دیتا ہے، اسی طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے جانثار مؤمنین کو ’’حِزْبُ اﷲِ‘‘ اور ان کے غیر کو ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔

لہٰذا مِن دُونِ اللَّهِِ جیسے الفاظ اللہ تعالیٰ سے جس غیریت کا مفہوم لئے ہوتے ہیں وہ لغوی، کلامی اور لفظی نہیں بلکہ حکمی، مرادی اور معنوی اعتبار سے ہیں۔ یعنی خدا کے غیر سے مراد وہی ہے جو پیمانۂ محبت کے اعتبار سے غیر ہو اور بے نسبتی و بے تعلقی کے لحاظ سے پرایا ہو۔ اس لئے انبیاء و صالحین کو نگاہِ ربوبیت میں جو اپنائیت حاصل ہے اگر کوئی اسے نظر انداز کرتے ہوئے ان پر بھی مِن دُونِ اللَّهِ کا اطلاق کرتا ہے تو وہ قرآنی تعلیمات کے ساتھ نہ صرف صریح مذاق کرتا ہے بلکہ خود ربِ ذوالجلال کے ارشادات کا کھلا انکار بھی۔

آیات کا غیر موزوں اطلاق خوارج کا طریقہ ہے:مِن دُونِ اللّهِِ کے مفہوم کے ضمن میں ان چند بنیادی باتوں کا قدرے تفصیل سے ذکر اس لئے ہوا کہ کچھ نادان لوگ جہاں کہیں ’’مِن دُونِ اللّهِِ‘‘ کے الفاظ دیکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہاں کیا بیان کیا گیا ہے اس کا اطلاق بلا استثناء انبیاء و رسل عظام علیھم السلام اور اولیاء و صلحاء پر بھی کر دیتے ہیں۔ ان کی اس جاہلانہ روش سے قرآنی احکام کے بیان کی طرف سے اصل توجہ نہ صرف ہٹ جاتی ہے بلکہ خدا کے محبوب اور مقرب بندوں کی تنقیصِ شان بھی واقع ہوتی ہے جو نہ شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منشا ہے اور نہ خود ذاتِ باری تعالیٰ کا منشا و مقصود۔ قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ قرآن سے گمراہی کے دروازے کھل جائیں گے۔ خوارج کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا۔ خوارج کے بارے میں منقول ہے :کَانَ ابْنُ عُمَرَ يرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ.ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں۔
( بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539)(ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)(ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا آج بھی اوثان اور اصنام والی آیاتِ قرآنیہ کو مقبولانِ الٰہی اور اُن کے محبین اور اُن کا احترام بجا لانے والوں پر چسپاں کرنا اسی طرح قابلِ مذمت نہیں؟ قابلِ مذمت ہے، خوارج نے تو حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ جیسی شخصیت کو بھی مشرک کہا جو سرچشمۂ ولایت و روحانیت ہیں۔ انہوں نے آپ کی صداقت کا بھی انکار کر دیا تھا اور بغاوت اختیار کرتے ہوئے وہ تاریخِ اسلام کے پہلے بڑے اعتقادی فتنے کا سبب بنے تھے۔خوارج نے باقاعدہ طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شرک کا مرتکب ٹھہرایا اور بزعمِ خویش اِس شرک کو قرآن حکیم کی آیت : إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ. (یوسف، 12 : 40) ’’حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے۔‘‘) سے ثابت کرکے تحکیم کا انکار کیا۔ اور ہر جگہ یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا : لَا حُکْمَ إِلَّاِﷲ. ’’حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے۔‘‘ ان کا اپنے خلاف پراپیگنڈہ دیکھ کر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے واضح فرمایا تھا :کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ.ترجمہ:کلمہ تو برحق ہے مگر اِس سے مراد لیا جانے والا معنی باطل ہے۔(مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علي قتل الخوارج، 2 : 749، رقم : 1066)(ابن حبان، الصحيح، 15 : 387، رقم : 6939)(بيهقی، السنن الکبری، 8 : 171)اِسی طرح اہلِ ایمان کو آیات کی غلط تعبیر اور اطلاق کے ذریعے مشرک قرار دینے والا موجودہ طبقۂ فکر بھی خوارج ہی کی روش اختیار کئے ہوئے ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔