Pages

Thursday 29 June 2017

یزید کی بد کرداریاں و کفر یزید حصّہ دوم

یزید کی بد کرداریاں و کفر یزید حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شہیدان کربلا سے بد سلوکی

کچھ دوست بڑے حوالہ جات سے یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ یزید نے تو حضرت حسین کی شہادت پر افسوس کیا تھا۔ یقیناً آپ لوگ درست کہہ رہے ہوں گے کہ یزید ملعون نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر افسوس کیا ہو گا کیونکہ آپ کے ہاں افسوس کرنے کا یہی طریقہ ہو سکتا ہے۔ ذرا تاریخ کھول کر دیکھیے۔

ذکر ابن عساکر في تاريخه، ان يزيد حين وضع راس الحسين بين يديه تمثل بشعر ابن الزبعري يعني قوله

ليت اشياخي ببدر شهدوا
جزع الخزرج من وقع الاسل

(البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 8 : 204)

ترجمہ : امام ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے کہ جب یزید کے سامنے سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر انور پیش کیا گیا تو اس نے اس موقع پر ابن زبعری کے اس شعر کا انطباق کیا:

"کاش میرے غزوہ بدر میں مارے جانے والے آباء و اجداد دیکھیں کہ ہم نے کیسے ان کے قتل کا بدلہ لے لیا ہے۔"

یہ کیسی شرمندگی ہے اور یہ کیسا افسوس ہے۔ اگر آپ اب بھی اسی پر ڈٹے رہیں تو ایک بار پھر انا للہ وانا الیہ راجعون

بیت اللہ کی توہین

دلوں میں بغضِ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم رکھنے والے دوستوں کو اظہار رائے کی یقیناً آزادی ہے، آپ یقیناً ایسے شخص کے دفاع کا حق رکھتے ہیں جو اپنی بیعت کے منکروں کو قتل کروانے کے لئے حرم نبوی اور کعبۃ اللہ کی حرمت کا بھی حیاء نہیں کرتا۔ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے لئے بیت اللہ کا محاصرہ کرواتا اور اس پر پتھر اور آگ کے گولے برساتا ہے۔

ثم انبعث مسرف بن عقبه (مسلم بن عقبه) الي مکه قاصداً عبدالله بن الزبير ليقتله بها لانه فر من بيعة يزيد

(البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 6 : 234)

ترجمہ : پھر اس نے مسرف بن عقبہ (یعنی مسلم بن عقبہ) کو عبداللہ بن زبیر کو قتل کرنے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجا، کیونکہ وہ یزید کی بیعت سے انکاری تھے۔

یقیناً ان سب کا اس نے حکم نہیں دیا ہو گا یقیناً یہ سارے واقعات یزید کے علم میں ہی نہیں ہوں گے۔ وہ تو دودھ پیتا بچہ تھا، جسے تاریخ دان خواہ مخواہ میں برا بھلا کہتے رہے ہیں۔ ہزاروں مسلمان غلط فہمی میں قتل ہوتے رہے ہوں گے اور یزید بیچارہ ہر ہر قتل کے بعد افسوس بھی کرتا رہا ہوگا۔ اسکی اصل معصومیت کی خبر تو پچھلے ڈیڑہ دوسوسال میں عبدالوھاب نجدی اور اسکے شاگردوں کو ہوئی ۔ وگرنہ اس سے پہلے امام ابن کثیر اور امام عساکر جیسے تاریخ دان تو مغالطے میں ہی رہے ۔

پوری امت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ یزید فاسق و فاجر ہے اور فاسق و فاجر کی یہی تعریف ہے کہ اعلانیہ گناھ کرئے امت کا اگر اختلاف ہے تو وہ صرف یزید کو کافر کہنے میں ہے بعض فقہاء اسے کافر کہتے ہیں جیسے کے امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب اور بعض سکوت کرتے ہیں یعنی اسے کافر تو نہیں کہتے مگر اس کے خبث باطن کا بر ملا اظہار کرتے ہیں

یزید کے حواریوں سے صرف ایک سوال آپ سب سے منطقی اعتبار سے پوچھوں گا کہ وہ ساری احادیث جو حسنین کریمین رضی اللہ عنھما کے فضائل پر وارد ہوئیں آپ ان سب کو چھوڑ کر صرف ایک روایت کے جس میں قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر کے لیے بشارت ہے کہ بل بوتے پر حمایت یزید میں لگ گئے ہیں حالانکہ حدیث میں توصرف یہی ہے نا کہ جو کوئی اس لشکر میں شامل ہو گا اس کے لیے جنت کی بشارت ہے حدیث میں یزید کا نام تو نہیں ہے نہ اب یہ تو تاریخی اعتبار سے ہی دیکھا جائے گا نہ کے آخر یزید اس لشکر میں شامل تھا کہ نہیں ؟ اب آپ لوگ خود انصاف سے کام لیں کے کہاں ایک ایسی روایت کہ جس کی فنی حیثیت بھی مشکوک اور جس کی بشارت کا مصداق ہونے کے لیے تاریخی اعتبار سے یزید کی اس میں شرکت بھی مشکوک اور پھر اوپر سے یزید جیسے فاسق و فاجر کے جس کے اعمال نامے میں صرف ایک قتل حسین رضی اللہ عنہ کا جرم ہی کافی چہ جائکہ اس نے پورا خانوادہ اہل بیت کو شہید کروادیا اوپر مکہ اور مدینہ پر چڑھائی کروائی مدینہ کی عورتوں کی عصمت دری کی کہ جس سے ایک ہزار سے زائد مسلم عورتیں حاملہ ہوئیں تین دن حرم نبوی میں وہ کیا کچھ نہیں ہوا کہ جس کا تصور تو کسی کافر سے بھی نہین کیا جاسکتا مگر افسوس کے ایک اسلام کے نام لیوا یہ سب کچھ کیا یہ سب وہ اعمال ہیں جو تاریخ کی تمام کتابوں میں تواتر کے ساتھ آئے ہیں لیکن ان سب کے باوجود یزید کی حمایت پر آپ لوگ اب بھی کمر بستہ ہیں ؟
سب سے بڑھ کر اس بدبخت کی گستاخی دیکھیے کہ اس نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو بھی پیغام نکاح بھیج دیا جبکہ حضرت عائشہ کی اس وقت عمر مبارک ساٹھ سال تھی یہ محض اس کا ملحدانہ اور مرتدانہ مزاج تھا کہ جس نے اس کو اس رویہ پر مجبور کیا اور ایسے کفریہ اقدام کی جراءت دلائی اس وقت کے جملہ اکابرین اسلام نے اس قرآن کی نص صریح ازواجکم امھٰتکم دکھا کر اس ملعون پر بڑی ملامت اور لعنت کی آخر کار حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھ کر اس کے خلاف اس سیلاب شورش کو روکنا پڑا اس واقعہ کو عہد متاخریں کے مشہور محدث شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف مدارج النبوت میں رقم کیا ہے اور ساتھ ہی میں اسے کی جواں مرگی کو دو وجہوں سے عذاب الٰہی کا مصداق ٹھرایا ہے ایک قتل حسین رضی اللہ عنہ اور دوسرا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو پیغام نکاح بھیجنا اور یاد رہے کہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی وہ بزرگ ہیں کہ جن کو بر صغیر میں علم حدیث کا بانی تصور کیا جاتا ہے اور ہر مکتبہ فکر کے اکابر ان کو اپنا رہمنما تسلیم کرتے ہیں ۔

علاّمہ ابن کثیر اپنی مشھور زمانہ تصنیف البدایہ وانھایہ میں رقمطراز ہیں کہ : ۔
وقد روي أن يزيد كان قد اشتهر بالمعازف وشرب الخمر والغناء والصيد واتخاذ الغلمان والقيان والكلاب والنطاح بين الكباش والدباب والقرود ، وما من يوم إلا يصبح فيه مخمورا ، وكان يشد القرد على فرس مسرجة بحبال ويسوق به ، ويلبس القرد قلانس الذهب ، وكذلك الغلمان ، وكان يسابق بين الخيل ، وكان إذا مات القرد حزن عليه . وقيل : إن سبب موته أنه حمل قردة وجعل ينقزها فعضته . وذكروا عنه غير ذلك . والله أعلم بصحة ذلك .

ترجمہ : ۔ روایت ہے کہ یزید گانے بجانے کے آلات ،شراب نوشی کرنے ،راگ الاپنے ، شکار کرنے غلام اور لونڈیاں بنانے ،کتے پالنے ، مینڈھوں ،ریچھوں اور بندروں کے لڑانے میں مشھور تھا ہر صبح کو وہ مخمور ہوتا اور وہ زین دار گھوڑے پر بندر کو زین سے باندھ دیتا اور وہ اسے چلاتا اور بندر کو سونے کی ٹوپی پہناتا اور یہی حال غلاموں کا تھا اور وہ گھڑ دوڑ کراواتا اور جب کوئی بندر مرجاتا تو وہ اس پر غم کرتا اور بعض کا قول ہے کہ اسکی موت کا باعث یہ ہوا کہ اس نے ایک بندر اٹھایا اور اسے نچانے لگا تو اس نے اسے کاٹ لیا اور لوگوں نے اس کے علاوہ بھی اس کے بارے میں باتیں بیان کی ہیں اللہ پاک ہی اس کی صحت کو بہتر جانتا ہے ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔