Pages

Sunday 4 June 2017

یا رسول اللہ مدد ، یا علی مدد و مشکل کشاء کہنا ، یا غوث مدد کہنا کی شرعی حیثیت

یا رسول اللہ مدد ، یا علی مدد و مشکل کشاء کہنا ، یا غوث مدد کہنا کی شرعی حیثیت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
انبیا کرام علیہم السّلام خصوصاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپکی امت کے اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کے لیئے مجازاً یہ الفاظ استعمال کرنا جائز ہے۔

مُشکِلکُشا کے معنی ہیں :’’ مُشکِل حل کرنے والا، مشکل میں مدد کرنے والا۔‘‘ بے شک حقیقی معنوں میںاَللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ہی مُشکِلکُشا ہے، مگر اُس کی عطا سے انبیا ء کرام علیہم السّلام ، صَحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ بلکہ عام بندے بھی مُشکلِکُشا اور مدد گار ہو سکتے ہیں اِس کی عام فَہم مثال یہ ہے کہ پاکستان میں جا بجا یہ بَورڈ لگے ہوئے ہیں ’’مدد گار پولیس فون نمبر15‘‘ ہر ایک یہ جانتا ہے کہ پولیس چوروں ڈاکوؤں وغیرہ سے بچانے ، دشمنوں کے خطروں اور دیگر مشکل موقعوں پر مشکلکشائی یعنی مدد کرنے کی صلاحِیَّت رکھتی ہے۔ مکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے ہجرت کر کے جوصَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پہنچے ، وہاں اُن کی نُصرت (یعنی مدد) کرنے والے صَحابہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ’’اَنصار‘‘ کہلائے اور انصار کے معنیٰ مدد گار ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں تو جب پولیس مُشکلِکشا ،سماجی کارکُن حاجت روا، چوکیدار مددگار اور قاضی فریاد رس ہو سکتا ہے ، تو اَللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا سے حضرتِ مولیٰ علی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کیوں مُشکلکُشا نہیں ہو سکتے ۔ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا(پ ۶، المائدہ: ۵۵)

ترجَمہ : تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے۔

وہاں بھی ولی بمعنی مددگار ہے۔اس فرمان سے دو مسئلے معلوم ہوئے ، ایک یہ کہ مصیبت میں ’’ یا علی مدد‘‘ کہنا جائز ہے ، کیونکہ حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ہر مومن کے مددگار ہیں تا قیامت، دوسرے یہ کہ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ’’مولیٰ علی‘‘ کہنا جائز ہے کہ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ہر مسلمان کے وَلی اور مولیٰ ہیں۔(مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۱۷)( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ اپنے چچا سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی عزوہ احد میں شہادت پر اس قدر روئے کہ انہیں ساری زندگی اتنی شدت سے روتے نہیں دیکھا گیا۔ پھر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمانے لگے :

يا حمزة يا عم رسول الله اسد الله واسد رسوله يا حمزة يا فاعل الخيرات! يا حمزة ياکاشف الکربات يا ذاب عن وجه رسول الله.(المواهب اللدينه، 1 : 212)

آپ نے دیکھا کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام اپنے وفات شدہ چچا سے فرما رہے ہیں یا کاشف الکربات (اے تکالیف کو دور کرنے والے)۔ اگر اس میں ذرہ برابر بھی شبہ شرک ہوتا تو آپ اس طرح نہ کرتے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے پیارے اور مقرب بندے قابل توسل ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ : فتوی نمبر : 1925=1547/1430/ھ
امیرالموٴمنین خلفیة الرابع سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ مشکل سے مشکل مقدمات اور پیچیدہ معاملات میں فیصلہ فرماکر بہت آسانی سے حل فرمادیا کرتے تھے، اسی لیے حضرت رضی اللہ عنہ کو حلّال المعضلات کے لقب سے ملقب کیا جاتا تھا، جس کا ترجمہ بزبان فارسی مشکل کشا ہے، اس معنی کے لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابر امت پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے، شرعاً یا عقلاً اس میں کچھ استبعاد یا مانع نہیں ہے.واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند ۔(آن لائن فتویٰ سیکشن)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔