Pages

Thursday 15 June 2017

علم غیب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم (حصّہ اوّل)

علم غیب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم (حصّہ اوّل)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بیشک عالم الغیب والشھادۃ اﷲ عزوجل ہی کی ذات ہے، ذاتی طور پر علم غیب وہی جانتا ہے لیکن اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراپنے دیگر پسندیدہ رسولوں کو بھی جتنا چاہا علم غیب عطا فرمایا ہے اسی دعوی پرسب سے پہلے ہم قرآنی آیات اوربعدہ چند احادیث کریمہ پیش کریں گے ۔
عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احد االامن الرّ تضیٰ من رسول ۔
ترجمہ : غیبکا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔ ( سور ہ جن ۔ آیت  ۶۲،۷۲)
وماکا ن اﷲ لیطلعکم علی الغیب ولکن اﷲ یجتبیٰ من رسلہ من یشاء ُ،، ( سورہ ال عمران آیت 97)
ترجمہ :اور اﷲ عزوجل کی شان یہ نہیں کہ عا م لوگو !تمہیں غیب کا علم دے دے ہا ں اﷲ عزوجل چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کےسامنے اس عطائے ربانی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا  ’’ قالالم اقل لکم انی اعلم من اﷲ مالاتعلمون،،    ترجمہ :(حضرت یعقوب علیہ السلام )نے کہا کہ میں نہ کہتا تھا کہ مجھے اﷲعزوجل کی وہ شانیںمعلوم ہیں جو تم نہیں جانتے ۔ (سورہ ٔ یوسف آیت ۶۹)    
حضرات انبیاء کرام  اس علم غیب عطائی کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھےجیسا کہ قرآن حکیم میں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے حواریوں سے ارشاد فرمارہےہیں : ’’ و انبئکم بماتاکلون وما تدّخرون فی بیوتکم ط انّ فی ذالک لا یۃ لکم ان کنتم مٶمنین،،
ترجمہ :اور تمہیں بتاتا ہوں جو تمکھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو ۔ بیشک ! ان باتوں میں تمھارےلئیے بڑی نشانی ہے ۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو ۔
’’ قال لا یأ تیکما طعام ترزقنہالا نبا تکما بتاویلہ قبل ان یأتیکماذالکما مما علمنی ربی،،
ترجمہ کنزالایمان : (یوسف علیہ السلام ) نے کہا جو کھاناتمہیں ملا کرتا ہے وہ تمہارے پا س نہ آنے پائے گا کہ میں اس کی تعبیراس کے آنے سےسے پہلے تمہیںبتادوں گا ۔ یہ ان علموں میں سے ہے جو مجھے میرے رب (عزوجل ) نےسکھایا ہے ۔ (سورہ ٔیوسف ۔ آیت ۷۳)
وَمَاکَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیۡبِ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیۡ مِنۡرُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ (العمران179) 
ترجمہ : اوراللّٰہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللّٰہ چُن لیتاہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے  ۔ تو ان برگزیدہ رسولوں کو غیب کا علم دیتا ہے اور سید انبیاءحبیب خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم رسولوں میں سب سے افضل اور اعلٰی ہیں اس آیتسے اور اس کے سوا بکثرت آیات و حدیث سے ثابت ہے کہ اللّٰہ تعالٰی نے حضور علیہ الصلو ۃ والسلام کو غیوب کے علوم عطا فرمائے اور غیوب کے علم آپ کا معجزہ ہیں۔
ذٰلِکَ مِنْ اَنۡۢبَآءِ الْغَیۡبِ نُوۡحِیۡہِ اِلَیۡکَ ۔(یوسف 102)
ترجمہ:  یہ کچھغیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں
وَ مَا ہُوَ عَلَیالْغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ۔(التکویر 24)
ترجمہ : اور یہ (نبی) غیب بتانے میں بخیل نہیں
کچھ تراجم میں "اللہ غیب بتانےمیں بخیل نہیں" ہے ، تو اس سے بھی یہی ظاہر ہوا کہ "اللہ پاک علم غیب بتانے میں بخیل نہیں تو بہت بتایا ہوگا اس سے بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاعلم غیب ثابت ہوتا ہے"
وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ وَرَحْمَتُہٗ لَہَمَّتۡطَّآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ اَنۡ یُّضِلُّوۡکَ ؕ وَمَا یُضِلُّوۡنَاِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمْ وَمَا یَضُرُّوۡنَکَ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ وَاَنۡزَلَ اللہُعَلَیۡکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ؕ وَکَانَفَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا ۔﴿النساء113﴾
  ترجمہ:اوراے محبوب اگر اللّٰہ کا فضل و رحمت تم پر نہ ہوتا توان میں کے کچھ لوگ یہ چاہتے کہتمہیں دھوکا دے دیں اور وہ اپنے ہی آپ کو بہکا رہے ہیں اور تمہارا کچھ نہ بگاڑیںگے اور اللّٰہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتےتھے اور اللّٰہ کا تم پر بڑا فضل ہے۔ امورِ دین و احکامِ شرع و علومِ غیب
اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللّٰہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو تمامکائنات کے علوم عطا فرمائے اور کتاب و حکمت کے اَسرارو حقائق پر مطلع کیا یہ مسئلہقرآن کریم کی بہت آیات اور احادیث کثیرہ سے ثابت ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اﷲعزوجلنے اپنی برگزیدہ رسولوں کو علم غیب عطافریا ہے اس عطائے خاص سے انکا ر کرنا قرآنعظیم سے انکار کرنا ہے ۔ پھر یہ کہ تمام انبیاء علیھم السلام کو یکساں علم غیبحاصل نہیں بلکہ جس طرح انبیاء و رسل علیھم السلام میں درجات ہیں اسی طرح علم غیببھی درجہ بدرجہ عطافرمایا گیا ہے ۔ قرآن حکیم سے اس کی تصدیق ہوتی ہے حضرت موسیعلیہ السلام کی حضرت خضرعلیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور حضرت موسی علیہ السلامنےوہ علم سیکھنے کی درخواست کی جو اﷲ عزوجل نے ان کو عطا فرمایا تھا حضرت خضر علیہالسلام نے درخواست منظور فرمائی مگر یہ ہدایت فرمائی کہ دیکھتے جائیے گا اور جب تکمیں نہ بولوں کچھ نہ بولیئے گا ۔ حضرت خضر علیہ السلام جو کچھ کرتے گئے اسے حضرتموسی علیہ السلام نہ سمجھ سکے آخر رہانہ گیا پوچھ لیا ۔ حضرت خضر علیہ السلام نےراز سے پردہ اٹھا دیا مگر پھر حضرت موسی علیہ السلام کو اپنے ساتھ نہ رکھا ۔ یہپوری تفصیل قرآن حکیم میں سورہ ٔ کھف آیت نمبر ۵۲سے ۲۸ تکموجود ہے ۔ اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمام انبیاء علیھم السلام کو علم غیبیکساں نہیں قرآن پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :’’و علم آدم الاسماء کلھا،،
ترجمہ : ا ﷲعزوجل نے آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے نام سکھا ئی]سوۂ بقرہ آیت ۱۳
تفسیرروح البیان میں اس آیت کے تحت مفسر قرآن اسماعیل حقی رحمۃاﷲ تعالی علیہ حدیث بیانفرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سات لا کھ زبانیں سکھائی گئیں ۔ تفسیرمدارک میں اس آیت کے تحت ہے : ترجمہ : حضرت آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نامبتانے کے معنی یہ ہیں کہ رب تعالی نے ان کو وہ تمام جنسیں دکھا دیں جن کو پیدا کیاہے اور ان کو بتادیا گیا کہ اس کا نام گھوڑا ہے اور اس کا نام اونٹ اور اس کا نامفلاں فلاں ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲتعالی عنہ سے مروی ہے کہ ان کو ہر چیز کے نامسکھادیئے ۔ یہاں تک کہ پیالی اور چلو کے بھی ۔(تفسیر مدارک صفحہ ۵۴ جلد ۱ مطبوعہقدیمی کتب خانہ کراچی )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
جب حضرت آدم علیہ السلام کی وسعت علمی کا یہ عالم ہے تو تمام رسولوں کے سردار نبیوںکے تاجدار جناب احمد مختار ؐ کی وسعت علمی کا کو ن اندازہ لگا سکتا ہے ۔ وہ پیارےآقا مدنی مصطفی ؐ جن پر اﷲعزوجل کا فضل عظیم ہے بھلاکائنات کی کونسی چیز ان سےپوشیدہ رہ سکتی ہے پیارے محبوب دانائے غیوب منزہ عن العیوب ؐ کی شان میں اقرآنحکیم نے فرمایا : ’’وعلمک مالم تکن تعلم وکان فضل اﷲ علیک عظیماً،،   
ترجمہ : اورتمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے او راﷲ کا تم پر بڑ افضل ہی۔ (سورۂ نساء سورت ۴ آیت ۳۱۱ )
امام جلال الدین السیوطیرحمۃا ﷲ تعالی علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں’’ ای من الاحکام والغیب،ترجمہ : یعنیاحکام شرع اور غیب میں سے سکھا دیا (تفسیر جلالین ) خزائن العرفان میں صدرالافاضلاس آیت کے تحت فرماتے ہیں اس آیت سے ثابت ہوا کہ اﷲتعالی نے اپنے حبیب ؐ کو تمامکائنات کے علو م عطافرمائے اور کتاب و حکمت کے اسرار و حقائق پر مطلعفرمایا۔ (تفسیر خزائن العرفان)
اب امام المحدثین امیرالمومنین فی الحدیث الشیخ ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل البخاری الجعفی( ولادت ۴۹۱؁ ووفات ۶۵۲؁ ) کی صحیح بخاری شریف میں سے اور دیگر کتب احادیث تسعہ میں سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :
عن ابی موسی قال : سئل النبی ﷺ عن اشیاء کرھھا ، فلما اکثر علیہ غضب ، ثم قال للناس :سلونی عما شئتم قال رجل : من اَبی؟قال : ابوک حذا فۃ فقام اخر فقال : من ابییارسول اﷲ ؐ ؟ فقال :بوک سالم مولی شیبۃ فلما راَی عمر مافی وجھہ قال : یارسول ا ﷲؐ انا نتوب ِالی اﷲ عزوجل ،،
ترجمہ : حضرت ابوموسی رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ رضی اﷲ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم ﷺ سے ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کیا گیا جن کے بارے میں سوال کرنا آپ ؐ کوناگوار تھا جب سوالات زیادہ ہونے لگے تو آپ ؐ کو جلال آگیا پھر آپ ﷺ نے لوگوں سےفرمایا : تم لوگوں کا جو جی چاہے پوچھو! اس پر ایک صاحب نے پوچھا میرابا پ کون ہے؟ فرمایا تیراباپ حذافہ ہے اس کے بعد ایک اور شخص اٹھے اور پوچھا یارسول اﷲ ﷺ میراباپ کو ن ہے ؟ فرمایا سالم ، شیبہ کا آزاد کردہ غلام جب حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے روئے انور پر غضب کے آثاردیکھے تو عرض کیا یا رسول ا ﷲ ﷺ ! ہم سب اﷲ عزوجلکی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں ۔(الصحیح البخای ،رقم الحدیث :۲۹، کتابالعلم، باب الغضب فی الموعظۃ ، والتعلیم، الجلد الاول ، صفحہ :۹۱،مطبوعہ: قدیمی کتب خانہ ، کراچی)
تشریح:بخاری شریف کی اس کی حدیث میں نی کریم ﷺ نےارشاد فرمایا : ’’ سلونی عماشئتم ‘‘تم لوگوں کا جو جی چاہے پوچھو! ان مبارک الفاظمیں استعمال ہونے والے لفظ ’’ عما‘‘ میں دین و دنیا کی ساری باتیں شامل ہیں ۔ اسلئیے کہ کھڑے ہونے والے دونوں صحابہ رضی ا ﷲعنہما نے اپنے اپنے والد کے بارے میںسوال کیا تھا جو کہ ایک دنیا وی بات ہے آپ ؐ کے ارشاد کا مطلب یہ ہو ا کہ تم لوگوںکاجو چی چاہے پوچھو خواہ دنیا کی بات ہو یا دین کی ۔ میں تمھیں سب کچھ بتادوں گایہ وہی کہہ سکتا ہے جو دین و دنیا کے سارے علوم رکھتا ہو تو اس حدیث سے بھی ثابتہو اکہ حضور اقدس ﷺ کو دین و دنیا کے جملہ علوم حاصل تھے اسی سے ان لوگوں کی غلطیواضح ہوگئی جو یہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ صرف دین کے جملہ علوم رکھتے تھے دنیا کےعلوم میں یہ حال تھا کہ دیوار کے پیچھے کی بھی خبر نہ تھی ( معاذاﷲ عزوجل )(تشریح ماخوذ از نزھۃ القاری فی شرح صحیح البخاری ، صفحہ ۴۸۳ جلد ۱ ،فقیہالھند مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ ، مطبوعہ برکاتی پبلشرز ،کراچی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے مخلوق کی ابتداء سے لے کر لوگوں کے جنت یادوزخ میں جانے تک کی خبر دےدی ۔’’عن طارق بن شھاب قال : سمعت عمر رضی اﷲتعالی عنہ یقول : قا م فینا النبی ؐمقامًا ، فاخبر نا عن بدء الخلق حتی دخل اھل الجنۃ منازلھم واھل النار منازلھم ،حفظہ ذلک من حفظہ و نسیہ من نسیہ،،
ترجمہ:حضرت طارق بن شھاب رضی اﷲ تعالی عنہ سے مروی ہےانہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عمر رضی ا ﷲتعالی عنہ کو سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ نبیکریم ؐ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور مخلوق کی پیدائش کی ابتداکے متعلق ہمیں خبر دییہاں تک کہ جنتی اپنے ٹھکانوں میں اور دوزخی اپنے ٹھکانوں میں داخل ہوگئے اسے جسنے یا د رکھا سویاد رکھا جو بھول گیا سو بھول گیا۔ (الصحیح البخاری، رقمالحدیث:۲۹۱۳، کتاببدء الخلق ، باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل ، الجلد الاو ل ،صفحہ: ۳۵۴،مطبوعہقدیمی کتب خانہ کراچی)                                        
اس حدیث کی شرح فرماتے ہوئے سند الحفاظ حضرتعلامہ احمد بن علی بن حجر العسقلانی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ ( سن ولادت ۳۷۷؁ ھ اورسن وفات ۲۵۸؁ھ) فتحالباری صحیح بخاری میں فرماتے ہیں : ودل ذالک علی انہ ؐ اخبر فی المجلس الواحدبجمیع احوال المخلوقات منذ ابتدت الی ان تفنی الی ان تبعث فشمل ذالک الاخبار عنالمبداِا المعاش والمعاد وفی تیسیر ایراد ذالک کلہ فی مجلس واحد من خوارق العادۃ امر عظیم،،
ترجمہ: یہحدیث اس کی دلیل ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک ہی مجلس میں تمام مخلوق کے احوال جب سےخلقت شروع ہوئی اور جب تک فناء ہوگی اور جب اٹھائی جائیگی سب بیان فرمادیااور یہبیان مخلوق کی پیدائش ، دنیا وی زندگی اور محشر سب کو شامل تھا اور خلاف عادت آسانیسے ان ساری باتوں کا ایک ہی مجلس میں بیان فرمادینانہایت عظیم معجزہ ہے ۔ ( فتح الباری ،کتاب بدء الخلق،جلد:۶، صفحہ:۵۲۴،مطبوعہ دارلفکر ، بیروت ، لبنان )
حضرت علامہ بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد العینی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ ( سن وفات ۵۵۸؁ھ )عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں :فیہدلالۃ علی انہ ؐ اخبر فی المجلس الواحد بجمیع احوال المخلوقات من ابتدائھا الیانتھا ء ھا وفی ایراد ذالک کلہ فی مجلس واحد امر عظیم من خوارق العادۃ،،
ترجمہ : یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک مجلس میں تمام مخلوقات کی ابتداء سے لیکراسکی انتھی تک مخلوقات کے تمام حالات بیان فرمادئے اور ان سب کا ایک ہی مجلس میںبیان فرمادینا نہایت عظیم معجزہ ہے ۔
(عمدۃ القاری ،کتاب بدءالخلق، جلد ۰۱ ، صفحہ ۴۴۵، مطبوعہ دارلفکر بیروت ، لبنان مرقاۃ جلد ۹ ، صفحہ۲۷۶ مطبوعہدارلفکر ، بیروت ، لبنان )
علامہ طیبی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ نے شرح مشکوٰۃ میں علامہ احمد خطیب قسطلانی رحمۃاﷲ تعالی علیہ نے ارشادالساری میں اور مرقاۃ میں علامہ ملا علی قاری رحمۃ اﷲتعالی علیہ نے بھی علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ کی بیا ن کردہ شرحکوبیان فرمایا ۔ یہ متعدد شارحین حدیث متفق ہوکر لکھ رہے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کیدلیل ہے کہ سرکار مدینہ ؐ نے ایک مجلس میں مخلوق کی پیدائش کی ابتد سے لیکر جنتیوںکے جنت اور دوزخیوں کے دوزخ میں جانے تک تمام مخلوقات کے کل حالات کی خبر دی اسیکا نام’’ جمیع ماکان ومایکون،،(جو کچھ ہو گیا اور کو کچھ ہو نا ہے اس) کا علم ہے ۔اس سے ثابت ہوگیا کہ اسلاف کرام اور بزرگان دین کا عقیدہ یہی تھا کہ سر کار مدینہؐ روز اوّ ل سے روز آخر تک کے تمام حالات جانتے ہیں اور یہی علم غیب ہے ۔الحمداﷲعزوجل ہم اہلسنت کا یہ عقیدہ قرآن و حدیث اور اسلاف کے عقیدے کے مطابق ہے ۔
قیامت تک کے تمام واقعات کا بیان ’’عن حذیفہ رضی اﷲ تعالی عنہ قال :لقدخطبنا النبی ﷺ خطبۃ ماترک فیھا شیئا الی قیام الساعۃ الاذکرہ عَلِمَہُ من عَلِمَہُو جھلہ من جھلہ ان کنت لری الشئ قد نسیت فاعرف مایعرف الرجل اذا غاب عنہ فرہ فعرفہ،،
ترجمہ :حضرت حذیفہ رضی اﷲتعالی عنہ سے روایت ہے انہوںنے فرمایا نبی کریم ﷺ نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اور اس خطبہ میں قیامت تک کی کسیچیز کو نہ چھوڑا جس کا ذکر نہ فرمایا ہو ( یعنی تمام چیزوں کا تذکرہ فرمادیا) اسےجا نا جس نے جانااور جو نہ جان سکا نہ جان سکا( ان بتائی گئی باتوں میں سے )بھولی ہوئی کسی چیز کو ہوتے دیکھتا ہوں تو پہچان لیتا ہوں جیسے آدمی اپنے سے بچھڑی ہوئیچیز کودیکھتے ہی پہچان لیتا ہے۔( الصحیح البخاری، کتاب القدر، باب: وکان امراللہ قدرا مقدوراً، رقم الحدیث صفحہ:۴۰۶۶،الجلدالثانی،صفحہ :۷۷۹، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
امام مسلم نے حضرت ابوزید انصاری رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت کی انہوں نے فرمایا:’’ صلیبنارسول اﷲ ﷺ صلوٰۃ الصبح فصعد المنبر فخطبنا حتی حضرت الظھر ثم نزل فصلی الظھر ثمصعد المنبر فخطبنا حتی حضرت العصر ثم نزل فصلی العصر فصعد المنبر فخطبنا حتی غابتالشمس فحدثنا فیھابما کان وماھو کائن فاعلمنا احفظنا،،
ترجمۃ:رسول اﷲ ﷺ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی او رمنبرپر تشریف لے گئے اور ہمیں خطبہ دینا شروع کیا یہاں تک کہ ظہر کا وقت آگیا ۔ ظہر کینماز پڑھ کر پھر منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ دینے لگے پھر عصر کی نماز پڑھی اسیطرح خطبہ دینے لگے یہاں تک کے سورج ڈوب گیا ۔ اس خطبے میں(ماکان ومایکون ) یعنی وہسب کچھ بیان فرمادیا جو ہوچکا تھا اور جوآئندہ ہونے والا ہے ہم میں زیادہ علموالاوہ ہے جس نے سب سے زیادہ یاد رکھا(الصحیح المسلم، الجلد الثانی ، کتاب الفقن ،باب امارات الساعۃ ، صفحہ: ۰۹۳، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
عن ثوبان قال رسول اﷲ ؐ اناﷲزوی لی الارض فرایت مشارقھا ومغاربھا وانّ امتی سیبلغ ملکھا ما زوی لی منھااعطیت الکنزین الاحمروالابیض،،
ترجمہ :حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہرسول اﷲ ﷺ نے بیان فرمایااﷲ تعالی نے تمام روئے زمین کو میرے لئیے لپیٹ دیا او رمیں نے اس کے تمام مشارق و مغارب کو دیکھ لیا او ر بے شک میری امت ان ( مشارق ومغارب ) کے ملکوں تک پہنچے گی ۔ جتنی زمین کو میری لئیے لپیٹ دیا گیا اور مجھے سرخو سفید دونوں خزانے عطاکیے گئے ۔(الصحیح المسلم ،کتاب ابواب الفتن،باب امارات الساعۃ، المجلد الثانی، صفحہ:۰۹۳،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی  )
عن ابن عباس قال قال رسولاﷲ ﷺ اتانی اللّیلۃ ربی تبارک و تعالی فی احسن صورۃ ٍ قال احسبہ قال فی المنامفقال یا محمد ھل تدری فیم یختصم الملأ الاعلی قلت لا قال فوضع یدہ بین کتفی حتیوجدت بردھا بین ثدی اوقال فی نخری فعلمت مافی السموت ومافی الارض،،
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعا لی عنہ سے مروی ہے کہرسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ گذشتہ رات میرے رب عزوجل کا حسین صورت میں دیدار ہوا (راوی فرماتے ہیں میراگمان ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا کہ میںنے نیند میںدیدار کیا اﷲعزوجل نے فرمایا : یامحمد ؐ کیا آپ جانتے ہیں کہ ملاءِ اعلی کے فرشتے کس بارے میںجھگڑتے ہیں میں نے کہا نہیں۔ پس اﷲ عزوجل نے اپنا دست قدرت میرے دونوں کندھوں کےدرمیان رکھا یہاں تک کہ میںنے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میںپائی ۔ پس میں نے جان لیاجو کچھ آسمانوں او رجو کچھ زمین میں ہے ۔ ( جامع ترمذی ، ابوابالتفسیر، باب تفسیرص ،جلد: ثانی ،صفحہ :۷۳۴ ،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی )
بخاری شریف اوردوسری کتب معتبرہ میں موجود احادث کے مضمون سے روز روشن کی طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ اﷲ عزوجل نے اپنے حبیب ﷺ کو مخلوق کی ابتداء سے انتہا تک کے تمام واقعات اورتمام چیزوں کے بارے میں علم غیب سکھا دیا اور پھر سرکا ر ﷺ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کو بتا بھی دیا ۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ ( سورج گرہن کی نمازسے ) فارغ ہوئے تو اﷲ تعالی کی حمدو ثناء کی پھر فرمایا: :مامن شی کنت لم ارہالاوقد رأیتہ فی مقامی ھذا حتی الجنۃ والنار،،ترجمہ : کوئی چیز ایسی نہیں جو میں نےنہ دیکھی تھی مگر اس جگہ کھڑے ہوکر دیکھ لی یہاں تک کہ جنت اور دوزخ بھی۔( الصحیح البخاری شریف ، رقم الحدیث: ۳۵۰۱، کتاب ابواب الکسوف، باب صلوۃ النساء مع الرجال فی الکسوف،صفحہ:۴۴۱، الجلدالاولِمطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
اس حدیث سے معلوم ہواکہ آپ ﷺ نے وہ تمام چیزیںجو نہیں دیکھی تھیں انھیں دیکھ لیا یہاں تک کہ جنت اور دوزخ بھی ۔ امام اھلسنت اعلحضرت مولانا شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ اس حدیث شریف کو اپنی کتاب الدولۃالمکیہ میں ذکر کے ارشاد فرماتے ہیں : نسیم الریاض میں ہے کہ تمام مخلوقات آدمعلیہ السلام سے لے کر قیام قیامت تک سب نبی ؐ پر پیش کی گئیں حضور ؐ نے ان سب کوپہچان لیا ،جیساکہ آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے نام سکھادیئے گئے ،امام قاضیعیاض ،علامہ علی قاری، اور علامہ منادی نے اپنی کتاب ’’تیسیر شرح جامع صغیر،،لامام سیوطی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ میں فرماتے ہیں: پاک جانیں بدن کے علاقوں (یعنیتعلق) سے جداہوتی ہیں عالم بالاسے مل جاتی ہیں اور ان کے لئے کچھ پردہ نہیں رہتاتو سب کچھ ایسا دیکھتی اور سنتی ہیں جیسا کے سامنے ہورہاہو امام ابن حا ج مکی نےمدخل اور امام قسطلانی نے مواہب میں فرمایا : ’’لافر ق بین موتہ وحیاتہ ؐ فیمشاھدتہ لامتہ معرفتہ باحوالھم و نیاتھم و عزائمھم،،ترجمہ : بیشک ہمارے علماء رحمۃاﷲ تعالی علیھم اجمعین فرماتے ہیں : نبی پاک ؐ کی حیات و وفات میں اس بات میں کچھفر ق نہیں کہ حضور ؐ اپنی امت کو دیکھ رہے ہیں اور ان کی حالتوں اور نیتوں اور ارادوںاور دل کے خطرات کو پہچانتے ہیں اور یہ سب حضور ؐ پر ایسا روشن ہے کہ جس میں کچھ پوشیدگی نہیں (الدولۃ المکیۃ ، صفحہ :۹۹ ، مطبوعہ نزیر سنزپبلیشرز لاہو)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔