Pages

Tuesday, 6 June 2017

ختم نبوت آگاہی مہم *Must Read for all of us*

ختم نبوت آگاہی مہم
*Must Read for all of us*
1974 میں
جب قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیت کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو۔۔۔
مرزا طاہر ، مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا۔متشرع سفید داڑھی۔قرآن کی آیتیں بھی پڑھ رہے تھے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم مبارک زبان پر لاتے تو پورے ادب کے ساتھ درودشریف بھی پڑہتے۔ظاہری حلیہ دیکھ کر اسمبلی حیرت کدہ کا نمونہ پیش کرنے لگی ہر طرف سوالیہ نظریں مرزا ناصر کے حلیہ دیکھ کر دم بخود ہو گئیں۔
مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ
اللہ کی شان کہ پورے ایوان کی طرف سےمولان شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ کو ایوان کی ترجمانی کا شرف ملا اورشاہ احمد نورانی صاحب نے راتوں کو جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔حوالے نوٹ کیئے۔سوالات ترتیب دیئے۔ مرزا طاہر ایک شاطر انسان تھا اس نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے تحذیر الناس کو اسمبلی میں پیش کیا اور کہا کہ نبوت کا دروازہ ہم نے نہیں کھولاتھا بلکہ یہ پہلے سے کھلا کھلایا ہم کو ملا تو دیکھیں تحذیر الناس میں دیوبندی مفتی قاسم نانوتوی نے لکھا ہے کہ محمد عربی ﷺ کے بعد بھی اگر کوئی نبی آ جائے تو ختمیت محمدی پر فرق نہیں آتا ، نیز یہ کہ اور بھی نبی آ سکتے ہیں لہذا مرزا غلام قادیانی نے اگر نبوت کا دعویٰ کر دیا تو اس میں کیا حرج ہے ۔ اس پرپوری اسمبلی میں سناٹا چھا گیا اور دیوبندی مولوی بغلیں جھانکے لگے کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیوں کہ بات بالکل سچ تھی کہ دیوبندیوں نے مرزا قادیانی کے لیے راہ ہموار کی تھی اب کیا تھا مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ فاتحانہ انداز میں کھڑے ہوئے اور اپنے تاریخی الفاظ کہے کہ جس طرح ہم مرزا قادیانی کو کافر سمجھتے ہیں ایسے ہی قاسم نانوتوی کو بھی کافر سمجھتے ہیں ۔اس پر مرزا طاہر کی بولتی بند ہو گئی اور اس کے پاس کوئی جواب باقی نہ رہا ، شاہ احمد نورانی کے اس موقف کو سن کر بعض دیوبندی بہت خوش ہوئے کہ چلیں جان چھٹ گئی ۔اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔
سوال۔مرزا غلام احمد کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب۔وہ امتی نبی تھے۔امتی نبی کا معنی یہ ہے کہ امت محمدیہ کا فرد جو آپ کے کامل اتباع کی وجہ سے نبوت کا مقام حاصل کر لے۔
سوال۔اس پر وحی آتی تھی؟
جواب۔آتی تھی۔
سوال۔ (اس میں) خطا کا کوئی احتمال؟
جواب۔بالکل نہیں۔
سوال۔مرزا قادیانی نے لکھا ہے جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا“ خواہ اس کو میرا نام نہ پہنچا ہو (وہ) کافر ہے۔پکا کافر۔دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اس عبارت سے تو ستر کروڑ مسلمان سب کافر ہیں؟
جواب ۔کافر تو ہیں۔لیکن چھوٹے کافر ہیں“جیسا کہ امام بخاری نے اپنے صحیح میں ”کفردون کفر“ کی روایت درج کی ہے۔
سوال۔آگے مرزا نے ہے۔پکا کافر؟
جواب۔اس کا مطلب ہے اپنے کفر میں پکے ہیں۔
سوال۔آگے لکھا  ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔حالانکہ  تھے ٹا کفر ملت سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے؟
جواب۔دراصل دائرہ اسلام کے کئیں کٹیگیریاں ہیں۔اگر بعض سے نکلا ہے تو بعض سے نہیں نکلا ہے۔
سوال ایک جگہ اس نے لکھا  ہے کہ جہنمی بھی ہیں؟
اسی موقع پر دوسرا سوال کیا کہ مرزا قادیانی سے پہلے کوئی نبی آیا ہے جو امتی نبی ہو؟ کیا صدیق اکبر ؓ یا حضرت عمر فاروق ؓ امتی نبی  تھے ؟
جواب۔ نہیں تھے۔
اس جواب پر شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا پھرتو مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد آپ کا ہمارا عقیدہ ایک ہوگیا۔بس فرق یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت ختم سمجھتے ہیں۔تم مرزا غلام قادیانی کے بعد نبوت ختم سمجھتے ہو۔تو گویا تمہارا خاتم النبیین مرزا غلام قادیانی ہے۔اور ہمارے خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
جواب۔وہ فنا فی الرسول تھے ۔یہ ان کا اپنا کمال تھا ۔وہ عین محمد ہوگئے  تھے  (معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوسکتی  تھی  )
سوال۔مرزا غلام قادیانی نے اپنے کتابوں کے بارے میں لکھا  ہے۔اسے ہر مسلم محبت و مودت کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔اور ان کے معارف سے نفع اٹھاتا ہے۔ مجھے قبول کرتا ہے۔اور(میرے) دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔مگر (ذزیتہ البغایا ) بدکار عورتوں کی اولاد وہ لوگ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا رکھی ہے۔وہ مجھے قبول نہیں کرتے۔؟
جواب۔بغایا کہ معنی سرکشوں کے ہیں۔
سوال۔بغایا کا لفظ قرآن پاک میں آیا ہے” و ما کانت امک بغیا“ سورہ مریم ) ترجمہ ہے تیری ماں بدکارہ نہ  تھی “
جواب۔قرآن میں بغیا ہے۔بغایا نہیں۔
اس جواب پر شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔نیز جامع ترمذی شریف میں اس مفہوم میں لفظ بغایا بھی مذکور ہے یعنی ”البغایا للاتی ینکحن انفسھن بغیر بینہ“ )پھر جوش سےکہا) میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اس لفظ بغیہ کا استعمال اس معنی (بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہر گز نہیں کر کے دکھا سکتے۔!!!
(اور مرزا طاہر لاجواب ہوا یہاں )
13 دن کے سوال جواب کے بعد جب فیصلہ کی گھڑی آئی تو 22 اگست1974 کو اپوزیشن کی طرف سے 6 افراد پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔جن میں“ مولانا شاہ احمدنورانی رحمۃ اللہ علیہ ،پروفیسر غفور احمد ،چودہری ظہور الہی صاحب، مفتی محمود ،مسٹر غلام فاروق ،سردار مولابخش سومرو  اور حکومت کی طرف سے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب تھے ۔ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ یہ آئینی و قانون طور پر اس کا حل نکالیں۔تاکہ آئین پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کے کفر کو درج کردیا جائے۔لیکن اس موقع پر ایک اور مناظرہ منتظر  تھا ۔۔۔۔۔
کفرِ قادیانیت و لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح تیرہ روز تک جاری رہی۔گیارہ دن ربوہ گروپ پر اور دو دن لاہوری گروپ پر۔ہرروز آٹھ گھنٹے جرح ہوئی۔اس طویل جرح و تنقید نے قادیانیت کے بھیانک چہرے کو بےنقاب کر کے رکھ دیا۔ اس کے بعد ایک اور مناظرہ ذولفقار علی بھٹو کی حکومت سے شروع ہوا کہ آئین پاکستان میں اس مقدمہ کا ”حاصل مغز “کیسے لکھا جائے۔؟
مسلسل بحث مباحثہ کے بعد۔۔
22 اگست سے 5 ستمبر 1974 کی شام تک اس کمیٹی کے بہت سے اجلاس ہوئے۔مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہوسکی۔سب سے زیادہ جھگڑا دفعہ 106 میں ترمیم کے مسلے پر ہوا۔حکومت چاہتی تھی اس میں ترمیم نہ ہو۔اس دفعہ 106 کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی  تھی ۔ ایک بلوچستان میں۔ایک سرحد میں۔ایک دو سندھ میں اور پنجاب میں تین سیٹیں اور کچھ 6 اقلیتوں کے نام بھی لکھے ہیں۔عیسائی۔ہندو پارسی۔بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی ا چھوت۔
مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر کمیٹی کے ارکان یہ چاہتے  تھے کہ ان 6 کی قطار میں قادیانیوں کو بھی شامل کیا جائے۔تاکہ کوئی "شبہ" باقی نہ رہے۔
اس کے لیے بھٹو حکومت تیار نہ تھی ۔وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا اس بات کو رہنے دو۔
شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا جب اور اقلیتوں اور فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو ان کا نام بھی لکھ دیں۔
پیرزادہ نے جواب دیا کہ ان اقلیتوں کا خود کا مطالبہ تھا کہ ہمارا نام لکھا جائے۔ جب کہ مرزائیوں کی یہ ڈیمانڈ نہیں ہے۔
شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ یہ تو تمہاری تنگ نظری اور ہماری فراخ دلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان مرزائیوں کو بغیر ان کی ڈیمانڈ کے انہیں دے رہے ہیں (کمال کا جواب )
اس بحث مباحثہ کا 5 ستمبر کی شام تک کمیٹی کوئی فیصلہ ہی نہ کرسکی۔چنانچہ 6 ستمبر کو وزیراعظم بھٹو نے شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ سمیت پوری کمیٹی کے ارکان کو پرائم منسٹر ہاوس بلایا۔لیکن یہاں بھی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔حکومت کی کوشش تھی کہ دفعہ 106 میں ترمیم کا مسلہ رہنے دیا جائے۔
جب کہ شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر کمیٹی کے ارکان سمجھتے  تھے  کہ اس کے بغیر حل ادھورا رہے گا۔
بڑے بحث و مباحثہ کے بعد بھٹو صاحب نے کہا کہ میں سوچوں گا۔
عصر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نےشاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر کمیٹی ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔ شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ اور کمیٹی نے وہاں بھی اپنے اسی موقف کو دہرایا کہ دفعہ 106 میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مرزائیوں کا نام لکھا  اور اس کی تصریح کی جائے۔
اور بریکٹ میں قادیانی اور لاہوری گروپ لکھا  جائے۔
پیرزادہ صاحب نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں۔
شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ احمدی تو ہم ہیں۔ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے۔پھر کہا کہ چلو مرزا غلام احمد کے پیرو کار لکھ دو۔
وزیرقانون نے نکتہ اٹھایا کہ آئین میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا (حالانکہ محمد علی جناح کا نام آئین میں موجود ہے ) اور پھر سوچ کر بولے کہ شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ مرزا کا نام ڈال کر کیوں آئین کو پلید کرتے ہو؟۔وزیر قانون کا خیال تھا شایدشاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ اس حیلے سے ٹل جائیں گے۔ (لیکن شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ توسالارتحریک ختم نبوت تھے  )
شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ شیطان۔ابلیس۔خنزیر اور فرعون کے نام تو قرآن پاک میں موجود ہیں۔کیا ان ناموں سے نعوذ باللہ قرآن پاک کی صداقت و تقدس پر کوئی اثر پڑا ہے۔؟
اس موقع پر وزیر قانون پیرزادہ صاحب لاجواب ہو کر کہنے لگے۔
چلو ایسا لکھ دو جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔
شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکھتا ہے۔صرف وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔لہذا یوں لکھ دو قادیانی گروپ۔لاہوری گروپ جو اپنے کو احمدی کہلاتے ہیں۔اور پھر الحمدللہ اس پر فیصلہ ہوگیا۔
تاریخی فیصلہ۔۔۔۔۔۔۔۔
7 ستمبر 1974 ہمارے ملک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن  تھا  جب 1953 اور 74 کے شہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا۔اور ہماری قومی اسمبلی نے ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا ہے۔
”جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکھتا ہو۔اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی بھی معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو۔وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔
اور دفعہ 106 کی نئی شکل کچھ یوں بنی۔۔۔۔۔
بلوچستان پنجاب سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لیے مخصوص نشستیں ہوں گی جو عیسائی۔ہندو سکھ۔بدھ اور پارسی فرقوں اور قادیانیوں گروہ یا لاہوری افراد( جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں ) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکھتے ہیں۔ (ان کی) بلوچستان میں ایک۔سرحد میں ایک۔پنجاب میں تین۔اور سندھ میں دو سیٹیں ہوں گی، یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر ہے۔کہ اس ترمیم کے حق میں 130 ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں آیا ۔( آجاتا اگر غامدی صاحب اس وقت موجود ہوتے ) اس موقع پر اس مقدمہ کے قائدشاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔۔
اس فیصلے پر پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں اطمینان کا اظہار کیا جائے گا۔میرے خیال میں مرزائیوں کو بھی اس فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہیئے۔کیونکہ اب انہیں غیر مسلم کے جائز حقوق ملیں گے۔اور پھر فرمایا کہ سیاسی طور پر تو میں یہی کہہ سکتا ہوں (ملک کے) الجھے ہوئے مسائل کا حل بندوق کی گولی میں نہیں۔بلکہ مذاکرات کی میز پر ملتے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔