Pages

Thursday, 1 June 2017

( حصّہ اوّل ) دیابنہ کی طرف سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کےلیئے امکان کذب(جھوٹ) ثابت کرنے کا رد

( حصّہ اوّل ) دیابنہ کی طرف سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کےلیئے امکان کذب(جھوٹ) ثابت کرنے کا رد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کلامِ الٰہی میں مسلمانوں کا عقیدہ : اس مسئلہ میں مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ کلام الٰہی میں وجود کذب (۱) محال بالذات ہے خواہ کلام نفسی (۲) ہو یا لفظی (۳) لیکن نام نہاد علماء وہابیہ (۴) نے اس کے خلاف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مقدسہ کی طرف ایسے مکروہ عیب کو منسوب کیا، جس کا تصور بھی مسلمانوں کے واسطے تنزل ایمان کا باعث ہے۔ چنانچہ بعض لوگ (۵) تو صرف امکانِ کذب ہی کے قائل ہوئے ہیں لیکن بعض وقوع (۶) کے بھی قائل ہیں۔ مثلاً مولوی رشید احمد گنگوہی جن کا دستخطی و مہری فتویٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اب تک موجود ہے اور اس کے فوٹو اکثر علمائِ اہل سنت کے پاس محفوظ ہیں۔

فرقہ امکانیہ کو زبردست مغالطہ ہوا ہے چنانچہ وقوع کذب باری تعالیٰ کا قول تو باتفاق فریق مخالف موجودہ بھی مردود ہے خواہ مولوی رشید احمد صاحب کا ہو یا کسی اور کا۔ رہا امکان کا قول اس کے متعلق سنیئے، حقیقتاً فرقہ امکانیہ (۱) کو ایک زبردست مغالطہ ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے خلف وعد اور خلف وعید دونوں کو ایک ہی سمجھ کر خلف وعید کو امکانِ کذب کا مقیس علیہ ٹھہرایا ہے۔

خلف وعد و خلف وعید میں فرق : اب دیکھئے کہ ان دونوں میں کتنا عظیم الشان فرق ہے۔ خلف وعد کے معنی ہیں کسی انعام کے وعدہ کرنے کے بعد اس کے خلاف کرنا اور خلف وعید کے معنی ہیں کسی سزا کے وعدہ کرنے کے بعد اس کا خلاف کرنا (۲) چنانچہ بعض متکلمین بظاہر جواز خلف وعید کے قائل ہوتے ہیں (۳) لیکن خلف وعد کے جواز کا قائل اہل سنت میں سے آج تک کوئی نہیں ہوا۔ ان کے جواز خلف وعید کے قول سے فرقہ وہابیہ کو مغالطہ واقع ہوا کہ جب خلف وعید جائز ہے تو خلف وعد بھی جائز ہو گا۔ خلف وعید کو خلف وعد کا مقیس علیہ کہہ دیا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

خلف وعد کا خلف وعید پر قیاس باطل ہے : لیکن یہ قیاس بہ چند وجوہ مخدوش ہے۔اولاً تو یہ کہ جنہوں نے خلف وعید کو جائز کہا ہے وہ یہ کہتے ہیں ’’لانہ کرم‘‘ (۴) اور بعض کہتے ہیں کہ ’’لانہ انشاء فیجوز من اللّٰہ تعالٰی‘‘ (۱) اور پھر وہی حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ کذب باری تعالیٰ محال ہے۔ لانہٗ نقص والنقص علی اللّٰہ محال۔ (۲)

فرقہ وہابیہ سے ایک سوال : اب میں فرقہ وہابیہ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر خلف وعید کو امکانِ کذب کی فرع کہنا صحیح ہو تو متکلمین نے امکانِ کذب کو اس پر قیاس کیوں نہ کر لیا بلکہ انہوں نے تو خلف وعید کو جائز کہتے ہوئے بھی امکانِ کذب کا رد (۳) کیا ہے۔

ثانیاً خلف وعید کو امکانِ کذب کا مقیس علیہ کہنا اس وجہ سے صحیح نہیں ہو سکتا کہ خلف وعید کرم اور امکانِ کذب نقص ہے۔ پس نقص کو کرم کی فرع کہنا اور اس پر قیاس کرنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ اہل سنت کا مذہب ان خرافات سے مبرا اور منزہ ہے۔

ثالثاً یہ کہ خلف وعید انشاء ہے اور امکانِ کذب ہمیشہ خبر ہی میں ہوتا ہے تو اخبار کا قیاس انشاء پر کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ اگر زمین کا آسمان پر اور پانی کا آگ پر اور ہوا کا مٹی پر قیاس کرنا جائز ہو تو یہ بھی جائز ہو گا۔ (۱)

متکلمین جس خلف کے قائل ہیں وہ حقیقت میں خلف نہیں : اس کے علاوہ بعض متکلمین جس خلف وعید کے قائل ہوئے ہیں حقیقتاً وہ خلف نہیں بلکہ اس پر خلف کا اطلاق محض مجازاً کیا گیا ہے۔ (۲) مثلاً مجوزین خلف اس آیت سے استدلال کرتے ہیں
اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَائُ
یعنی بے شک اللہ تعالیٰ مشرکین کی مغفرت نہ کرے گا اور ان کے علاوہ اور جس کو چاہے گا بخش دے گا یہ حقیقتاً خلف نہیں۔ اس وجہ سے کہ خلف وعید کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی۔ چونکہ خلف وعید کے معنی ہیں کسی سزا کے وعدہ کا خلاف کرنا۔ یہاں نہ تو وعدہ ہے کہ فلاں شخص کو اس کے گناہوں کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا اور نہ یہ فرمایا کہ ہم نے فلاں شخص کو عذاب دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب اس کو عذاب نہ دیں گے۔ پس معلوم ہوا کہ اس پر متکلمین کا اطلاقِ خلف کرنا محض مجازاً ہے جس کی مثال قرآن پاک میں موجود ہے ۔ جَزَائُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مبِمِثْلِہَا
یعنی برائی کا بدلہ برائی ہے اسی کی مثل، یہ تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی برائی کا حکم نہیں کرتا۔ اب اگر ’’سیئۃ‘‘ کو اپنے ہی معنی میں رکھا جائے تو لازم آئے گا کہ (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ بھی برائی کا حکم کرتا ہے
تَعَالَی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا
پس جس طرح یہاں جزاء ’’سیئۃ‘‘ پر ’’سیئۃ‘‘ کا اطلاق کیا گیا ہے اسی طرح متکلمین نے اس پر خلف کا اطلاق مجازاً کیا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ بعض متکلمین اس معنی متنازعہ میں ہرگز خلف وعید کے قائل نہ تھے اور اگر خلف وعید اسی کو کہا جائے تو ہم کو اس سے انکار نہیں بلکہ ہم تو اس کے وقوع کو مانتے ہیں جیسا کہ آئندہ معلوم ہو گا۔

نیز اس خلف وعید کو امکانِ کذب کا مقیس علیہ کہنا ایک اور وجہ سے بھی باطل ہے۔ اس لئے کہ اگر امکانِ کذب کو اس پر قیاس کر لیا جائے تو وقوعِ کذب لازم آئے گا۔ تقریر اس کی یوں ہے کہ خلفِ وعید مجوزہ متکلمین کا قیامت کے دن وقوع ہو گا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ یوم مذکور میں مشرکین کے علاوہ ہزاروں، لاکھوں بلکہ بے شمار گنہگاروں کی مغفرت کرے گا۔ تو وقوع خلف ہوا اور جب وقوع خلف ہوا تو وقوع کذب ہوا۔ وہٰذا باطل بالاجماع (۲)۔ پس معلوم ہوا کہ خلف وعید کو امکانِ کذب کا مقیس علیہ کہنا ہرگز ہرگز صحیح نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا خلف وعید متعین ہو گیا اور وہی کذب ہے۔

استحالہ کذب باری تعالیٰ پر عباراتِ علماء : اب استحالہ کذب باری تعالیٰ پر عباراتِ علماء مفسرین ومتکلمین بدلائل عقلی و نقلی قائم ہیں۔

عبارت قاضی بیضاوی : قاضی بیضاوی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں (وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا) انکار ان یکون احد اصدق منہ فانہ لا یتطرق الکذب الٰی خبرہ بوجہ لانہ نقص وہو علی اللّٰہ تعالٰی محال۔
(اور کون زیادہ سچا ہے اللہ سے بات میں) اس بات کی نفی ہے کہ کوئی ایک خدا تعالیٰ سے زیادہ سچا ہو کیونکہ جھوٹ کسی طرح خدا کی خبر کی طرف راہ نہیں پاتا کیونکہ جھوٹ عیب ہے اور وہ خدا کے لئے محال ہے۔ (محشی)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔