Pages

Wednesday, 7 June 2017

نماز تہجد کے فضائل و احکام

نماز تہجد کے فضائل و احکام
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نمازِ تہجد کی کم از کم دو رکعات ہیں اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعات ہیں۔ بعد نمازِ عشاء بسترِ خواب پر لیٹ جائیں اور سو کر رات کے کسی بھی وقت اٹھ کر نمازِ تہجد پڑھ لیں، بہتر وقت نصف شب اور آخر شب ہے۔ تہجد کے لیے اٹھنے کا یقین ہو تو آپ عشاء کے وتر چھوڑ سکتے ہیں اس صورت میں وتر کو نماز تہجد کے ساتھ آخر میں پڑھیں یوں بشمول آٹھ نوافلِ تہجد کل گیارہ رکعات بن جائیں گی۔ رات کا اٹھنا یقینی نہ ہو تو وتر نماز عشاء کے ساتھ پڑھ لینا بہتر ہے۔ اگر رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے کی ہمت نہ ہو تو عشاء کی نماز کے بعد بھی چند رکعت تہجد کی نیت سے پڑھی جا سکتی ہے مگر اس سے ثواب میں کمی ہو جاتی ہے۔دیگر نفل نمازوں کی طرح نماز تہجد بھی گھر ہی میں پڑھنی افضل ہے۔رات کی نفل نماز میں افضل یہ کہ دو دو رکعت کر کے پڑھی جائیں۔ تہجد کی رکعت بھی دو دو کر کے پڑھی جاتی ہیں ۔ تہجد کی کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ آٹھ یا بارہ رکعتیں ہیں، اس نفل نماز کی ادائیگی کیلئے بہترین وقت رات کا پچھلا پہر ہوتاہے۔
قرآن کریم میں آپ ﷺ کو اس طرح حکم دیا گیا: ترجمہ : اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد کرو یہ خاص تمھارے لئے زیادہ ہے قریب ہے کہ تمھیں تمھارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمھاری حمد کریں ۔ (سورۃ بنی اسرائیل آیت ۷۹)
سورۃ الدھر آیت ۲۶ میں ارشاد ہے ۔ ترجمہ : رات کے وقت اس کے سامنے سجدے کرو اور بہت رات تک اس (اللہ کی) تسبیح بیان کیا کرو۔
سورۃ طور آیت ۴۹ میں ارشاد ہے : ترجمہ : اور رات کو بھی اس کی تسبیح پڑھو اور ستاروں کے ڈوبتے وقت بھی۔
ان آیات مبارکہ کے مطابق نماز تہجد، سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک زائد فرض نماز تھی جس کا مقصد آپؐ کے درجات کو مزید بلند کرنا ہے (کیوں کہ نبی معصوم ہوتا ہے۔ اس سے گناہ سرزد نہیں ہوتے) مقام محمود وہ مقام یا درجہ ہے جو قیامت کے روز رسول عربی کو عطا کیا جائے گا۔ اسی مقام سے آپؐ امت مسلمہ کی شفاعت فرمائیں گے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

تہجد کی نماز کے بارے میں احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے، اور اس کا پڑھنا باعث ثواب اور موجب رحمت ہے۔

اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ رات کو گیارہ رکعات پڑھتے تھے : ایک رکعت کے ساتھ تمام رکعات کو طاق بنا لیتے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد دائیں کروٹ لیٹ جاتے حتی کہ آپ کے پاس مؤذن آتا پھر آپ دو رکعت (سنت فجر) مختصرًا پڑھتے۔(مسلم، الصحيح، کتاب صلوة المسافرين، باب صلوة الليل و عدد رکعات النبی صلی الله عليه وآله وسلم فی الليل، 1 : 508، رقم : 736)

تنہائی میں پڑھی جانے والی یہ نماز اللہ تعالیٰ سے مناجات اور ملاقات کا دروازہ ہے۔ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کو تمام نفل نمازوں میں سب سے زیادہ محبوب نماز، صلاۃِ داؤد علیہ السلام ہے۔ وہ آدھی رات سوتے (پھر اٹھ کر) تہائی رات عبادت کرتے اور پھر چھٹے حصے میں سو جاتے۔(مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب النهی عن الصوم الدهر لمن تضرر به او فوت به حقاً لم يفطر العيدين، 2 : 816، رقم : 1159)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنا فرماتی ہیں کہ ایک رات حضور نبی کریم سو کر اٹھے اور ارشاد فرمایا ۔ پاک ہے اللہ تعالی کی ذات، یہ رات کس قدر فتنوں سے بھری ہوئی ہے جن سے بچنے کی فکر کرنا چاہئیے اور یہ رات اپنے اندر کتنے خزانے رکھتی ہے یعنی رحمت کے خزانے جن کو سمیٹنا چاہئیے، ان پردہ میں رہنے والیوں کو کون جگائے، بہت سے لوگ ہیں جن کا عیب اس دنیا سے چھپا ہوا ہے، آخرت میں ان کا پردہ اٹھ جائے گا۔ ( صحیح بخاری نماز کے بیان میں )
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے، کہ حضور نبی کریم اپنی ازدواجی مطہرات کو تہجد کی نماز پڑھنے کیلئے اٹھنے پر ابھارتے تھے۔
حضرت مسروق حمتہ اللہ تعالی علیہ تابعی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ حضور کو کس طرح کا عمل زیادہ پسند تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ کام جس کو پابندی سے کیا جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ پسند تھا، میں نے پوچھا حضور رات میں تہجد کیلئے کس وقت اٹھتے ہیں ؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نےجواب دیا کہ آپ اس وقت اٹھتے جس وقت مرغ آواز دیتا ہے، یعنی آخری شب میں۔ (بخاری و مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے مجھ سے فرمایا کہ۔اے عبداللہ تم فلاں کی طرح نہ ہوجانا جو تہجد کیلئے اٹھتا تھا، پھر اس نے اٹھنا چھوڑ دیا۔ (بخاری و مسلم)
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوتھ والسلام ایک رات میں تہجد کے وقت ہمارے گھر تشریف لائے اور مجھ سے اور فاطمہ سے فرمایا کہ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے ۔(بخاری و مسلم)
حضرت عید بن ابو قیس رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ ۔ قیام لیل یعنی نماز تہجد نہ چھوڑ اس لئے کے حضور نبی کریم علیہ صلواتھ والسلام اس کو نہیں چھوڑا کرتے تھے، جب آپ بیمارے ہوتے یا کچھ کمزوری محسوس کرتے تو بیٹھ کر نماز پڑھتے۔ (سنن ابودائو)
حضور نبی کریم کا ارشاد ہےکہ آدھی رات میں بندے کا دو رکعتیں پڑھنا دنیا اور اس کی تمام اشیا سے بہتر ہے، اگر میری امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں یہ دو رکعتیں ان پر فرض کردیتا۔حضور نبی کریم علیہ الصلواتھ ولسلام نے ارشاد فرمایا۔جنت میں ایک محل ہے اور یہ اس کیلئے جو تہجد پڑھے۔ (مستدرک حاکم)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی کریم سے سنا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ۔ نمازوں کے بعد افضل نمازوں میں سے نصف رات میں پڑھی جانے والئ نماز ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی کریم سے سنا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ۔ رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہےتو اللہ اس نظر آنے والے آسمان پر آتا ہے اور بندوں کو بلاتا ہے، کہتا ہے کون مجھے پکارتا ہے، کہ اس کی مدد کروں۔کون مجھ سے مانگتا ہے کہ اسے دوں، کون مجھ سے معافی مانگتا ہے کہ اسے معاف کروں۔ (بخاری و مسلم)
صحابہ کرام بھی نماز تہجد کی ادائیگی کا اہتمام نہایت ذوق و شوق سے کیا کرتے تھے، حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت سلمان کے پاس رات گزاری تاکہ دیکھیں کہ ان کی عبادت میں کیا کوشش ہے، طارق نے بیان کیا کہ اخیر رات میں نماز پڑھنے کیلے کھڑے ہوئےتو گویا ویسا نہ دیکھا، اس بات کا آپ سے تذکرہ کیا تو حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ان پانچوں وقت کی نماز کی پابندی کرو یہ ان گناہوں کا کفارہ ہے ہیں جب تک کہ قتل کا ارتکاب نہ کرو، جب لوگ عشا کی نماز پڑھ لیتے ہیں تو تین مرتبوں پر اترتے ہیں، بعض وہ لوگ ہیں جن پر گناہ اور نفع کچھ نہیں بعض وہ لوگ ہیں جن کیلئے نفع ہے اور گناہ نہیں اور بعض وہ لوگ ہیں جن کیلئے نفع ہے اور گناہ نہیں، اور بعض ایسے ہیں جن کیلئے نہ ثواب ہے نہ عذاب ہے۔
جس شخص نے رات کی تاریکی اور لوگوں کی غفلت کو غنیمت سمجھا تو وہ اپنے گھوڑے پر گناہوں پر سوار ہوگیا، یہ وہ شخص ہے کہ اس کیلئے ثواب ہے اور عذاب نہیں ایسا شخص ہے جس نے عشا کی نماز پڑھی پھر سوگیا نہ اس کیلئے نفع ہے اور نہ اس کیلئے نقصان، تو اپنے آپ کو تیز رفتاری سے بچائو اور میانہ روی کو لازم پکڑواور اس پر مداومت اختیار کرو۔ (سنن الکبریٰ طبرانی)
حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثان بن ابی العاص رضی اللہ تعالی نے حضرت عمر فاروق کی عورتوں میں سے ایک عورت سے شادی کرلی اور فرمایا، اللہ کی قسم میں نے اس سے جب نکاح کیا تھا مال و اولاد کی رغبت سے نہیں بلکہ میں نے پسند کیا کہ وہ عورت مجھے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رات کی عبادت کی خبر دے، چنانچہ انہوں نے اس سے دریافت کیا کہ رات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی نماز کیونکر ہوتی تھی تو اس نے کہا کہ وہ عشا کی نماز پڑھتے پھر حکم دیتے کہ ہم ان کے سرہانے پانی سے بھر کر پیتل یا پتھر کا گھڑا رکھ دیں اور اسکو ڈھانپ دیں، وہ رات کو بیدار ہوتے تو اپنا ہاتھ اس میں ڈال لیتے اپنے چہرے اور اپنے ہاتھ پر پھیر لیتے، اس کے بعد اللہ تعالی کا ذکر کرتے رہتے جب کہ ذکر کرنا چاہتے، پھر اس طرح کئی مرتبہ بیدار ہوتے یہاں تک کہ وہ ساعت آجاتی جس میں یہ نماز تہجد کیلے کھڑے ہوتے، یہ سن کر حضرت ابن بریدہ سے کہا کہ مجھ یہ حدیث تم سے کس نے کہی تو انہوں نے کہا کہ حضرت حسن نے کہا کہ مجھ سے حضرت عثمان بن ابی العاص کی بیٹی نے بیان کی تو حضرت بریدہ نے کہا کہ پھرتو قابل اعتاد ہے۔(سنن الکبریٰ طبرانی)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت ابو غالب رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ مکہ مکرمہ میں ہمارے پاس ٹھرتے اور رات کو تہجد پڑھتے، ایک رات صبح سے ذرا دیر پہلے مجھ سے کہا اے ابو غالب تم کیوں نہیں نماز پڑھنے کیلئے کھڑے ہوتے، اور اگر چہ تم تہائی تہائی قرآن پڑھ لو، میں نے عرض کیا صبح قریب آگئی ہے، میں تہائی قرآن کیسے پڑھ سکتا ہوں، تو فرمایا بے شک سورہ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے۔(الترغیب الترہیب و ابو نعیم)

جو کوئی چار رکعت نفل نماز تہجد کی دو دو رکعت کرکے اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد بارہ بارہ مرتب سورہ اخلاص پڑھے اور سلام کے بعد دو مرتبہ سورہ مزمل پڑھے پھر اللہ سے اپنی حابت کی دعا مانگے تو انشا اللہ اس کی دعا پوری ہوگی۔
جو کوئی نماز تہجد کی بارہ رکعتیں پڑھنا چاہے تو اسے چاہئیے کہ وہ دو دو رکعت کرکے اس طرح سے پڑھے کہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد بارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے دوسری رکعت میں گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص، تیسری رکعت میں دس مرتبہ سورہ اخلاص اور چوتھی رکعت میں نو مرتبہ سورہ اخلاص، پانچویں رکعت میں آٹھ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے، چھٹی میں سات مرتبہ، ساتویں میں چھ مرتبہ اور آٹھویں میں میں پانچ مرتبہ ، نویں میں چار مرتبہ، دسویں میں تین مرتبہ اور گیاریوں میں دو مرتبہ اور بارہیوں میں ایک مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے، پھر جب نماز سے فارغ ہو تو اپنی حاجات کیلئے نہایت خلوص و یکسوئی کے ساتھ اللہ تعالی سے دعا مانگے بفضل باری تعالی دعا قبولیت کا شرف حاصل کرے گی۔حضرت جابر سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔رات میں ایک ایسی ساعت ہے کہ جب اس میں بندہ اللہ تعالی سے بھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ اسے عطا کردیتا ہے۔
بخاری شریف۔
ایک روایت میں ہے کہ وہ دنیا اور آخرت کی جو بھلائی مانگا ہے اللہ اسے فرما دیتا ہے اور یہ ساعت ہر رات میں ہوتی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔