Pages

Thursday, 15 June 2017

علم غیب مصطفیٰ ﷺ قرآن و حدیث کی روشنی میں

علم غیب مصطفیٰ ﷺ قرآن و حدیث کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ علمِ غیب کے سلسلے میں اہلسنت و الجماعت کا عقیدہ کیا ہے۔ اہلسنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ بےشک اللہ عزوجل کا غیب جاننے والا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ عزوجل نے اپنے برگزیدہ اور پسندیدہ بندوں جتنا چاہا علم عطا فرمایا۔ اسی طرح علمِ غیب کی بھی دو اشکال ہیں۔ ایک تو علمِ ذاتی ہے اور دوسرا علمِ عطائی۔ علمِ ذاتی صرف اللہ عزوجل کا ہی خاصہ ہے اللہ عزوجل کا علم ذاتی نہ کہ کسی کا عطا کیا ہوا۔ اور علمِ عطائی سے مراد وہ علم جو اللہ عزوجل نے اپنے فضل وکرم سے مخلوق کو عطا کیا۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجیئے کہ اللہ عزوجل بھی دیکھتا ہے، سنتا ہے۔ اور مخلوق بھی دیکھ سکتی ہے، سن سکتی ہے۔ لیکن اللہ عزوجل کی یہ صفات ذاتی ہیں نہ کہ عطائی۔ اور ہم مخلوق کی صفات سب اللہ عزوجل کی طرف سے عطا کردہ ہے، از خود ہم کسی قابل نہیں۔ اسی طرح اہلسنت والجماعت کا عقیدہ یہی ہے انبیا علیہ صلوۃ وسلام کا غیب کا علم اللہ عزوجل کی طرف سے عطا ہوا نہ کہ یہ ان صفتِ ذاتی ہے۔ از خود علمِ غیب کا حاصل ہونا محال ہے۔ جو کوئی اللہ عزوجل کے علاوہ کسی پر بھی ذاتی صفات کا اطلاق کرے اس کے خلاف اہلسنت والجماعت کے فتاوٰی موجود ہیں۔ جو آیات علمِ رسول اللہﷺ کی نفی کے طور پر پیش کی گئی ان کی توجیہات مفّسرین نے یہ بیان کی ہیں کہ؛

اول تو یہ کہ یہ علم غیب ذاتی کی نفی ہے

دوم یہ کلام تواضع وانکساری اور عاجزی کے طور پر بیان ہوا

سوم یہ کہ میں دعوےٰ نہیں کرتا کہ میں علمِ غیب جانتا ہوں یعنی دعوٰی علمِ غیب کی نفی ہے نہ کہ علم کی۔

اور ہمارا یہ موقف آپ کی پیشکردہ آیات کی تفاسیر پڑھنے سے بخوبی واضح ہوجائے گا۔ جیسے آپ ہی کی پیش کردہ سورۃ الانعام آیت 50 کی تفسیر دیکھیں۔

تفسیرِ نیشاپوری میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ : ويحتمل أن يكون عطفاً على { لا أقول } أي قل لا أعلم الغيب فيكون فيه دلالة على أن الغيب بالاستقلال لا يعلمه
اس آیت میں یہ احتمال بھی ہے کہ لااعلم کا عطف لا اقول پر ہو یعنی اے محبوب فرمادو کہ میں غیب نہیں جانتا تو اس میں دلالت اس پر ہو گی کہ غیب بالاستقلال یعنی ذاتی سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔

تفسیرِ خازن میں ہے کہ : وانما نفی عن نفسہ الشریفۃ ھذہ الاشیاء تواصنعا تعالٰی و اعترافا للعبودیۃ فلست اقوال شیئا من ذالک ولا ادعیہ
ان چیزون کی اپنی ذات کریمہ سے نفی فرمائی، رب کے لئے عاجزی کرتے ہوئے اور اپنی بندگی کا اقرار فرماتے ہوئے یعنی میں اسمیں سے کچھ نہیں جانتا اور کسی چیز کا دعوٰی نہیں کرتا۔

اسی طرح روح المعانی میں اس آیت کے ماتحت لکھا ہے کہ : عطف علی عندی خزائن اللہ ولا مذکرۃ للنفی ای ولا ادعی انی ولکن لا اقول لکم فمن قال ان نبی اللہ لا یعلم الغیب فقد اخطافیما اصاب ۔
اس کا عطف عندی خزائن اللہ پر ہے اور لا زائدۃ ہے نفی کا یاد دلانے والا یعنی میں یہ دعوٰی نہیں کرتا کہ خدا کے افعال میں غیب جانتا ہوں اس بناء پر کہ خزائن اللہ میرے پاس تو ہیں مگر میں یہ کہتا نہیں۔ تو جو شخص یہ کہے کہ نبی اللہ غیب نہیں جانتے تھے اس نے غلطی کی اس آیت میں جس میں یہ مصیب تھا۔

سورۃ الاعراف کی آیت 188 کے بارے میں بھی علما ومحققین کا یہی قول ہے جیسا کے نسیم الریاض شرح الشفا میں ہے کہ : قولہ ولوکنت اعلم فان المنقی علمہ من غیر واسطۃ واما اطلاعہ علیہ السلام باعلام اللہ تعالٰی ۔
علم غیب کا ماننا اس آیت کے منافی نہیں کہ "ولو کنت اعلم الغیب الخ" کیونکہ نفی علم بغیر واسطہ کی ہے لیکن حضور علیہ السلام کا غٰب پر مطلع ہونا اللہ کے بتانے سے واقع ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

تفسیر روح البیان میں اس آیت کے ماتحت ہے کہ : وقد ذهب بعض المشايخ الى ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يعرف وقت الساعة باعلام الله تعالى وهو لا ينافى الحصر فى الآية كما لا يخفى.

بعض مشائخ اس طرف گئے ہیں کہ نبی علیہ السلام قیامت کا وقت بھی جانتے ہیں اللہ کے بتانے سے اور ان کا یہ کلام اس آیت کے حق کے خلاف نہیں ۔ جیسا کہ مخفی نہیں

اب کچھ آیات علمِ نبویﷺ کے بارے میں :

وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء۔(سورۃ آل عمران آیت 179)۔
اور اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ اسے عام لوگو تم کو علم غیب کا علم دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے ۔

تفسیرِ کبیر میں امام رازی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں : فاما معرفۃ ذلک علی سبیل الاعلام من الغیب فھو من خواص الانبیاء (جمل) المعنی لکن اللہ یحتبی ان یصطفے من رسلہ من یشاء فیطلعہ علی الغیب (جلالین) وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب فتعرفوا المنافق قبل التمیز ولکن اللہ یحتبی و یختار من یشاء فیطلع علی غیبہ کما اطلع النبی علیہ السلام علی حال المنافقین۔
لیکن ان باتوں کا بطریق غیب پر مطلع ہونیکے جان لینا یہ انبیاء کرام کی خصوصیت ہے ۔ (مجمل) معنٰی یہ ہیں کہ اللہ اپنے رسولوں میں جسکو چاہتا ہے چن لیتا ہے پس ان کو غیب پر مطلع کرتا ہے۔ خداتعالٰی تم کو غیب پر مطلع نہیں کرنے کا تاکہ فرق کرنے سے پہلے منافقوں کو جان لو۔ لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے چھانٹ لیتا ہے تو اسکو اپنے غیب پر مطلع فرماتا ہے جیسا کہ نبی علیہ السلام کو منافقین کے حال پر مطلع فرمایا۔

تفسیر بیضاوی میں اسی آیت کے ما تحت ہے : وما کان اللہ لیوتی احدکم علم الغیب فیطلع علی ما فی القلوب من کفر و ایمان ولکن اللہ یجتبی لرسالتہ من یشاء فیوحی اللہ و یخبرہ ببعض المغیبات او ینصب لہ ما یدل علیہ۔
خدا تعالٰی تم میں سے کسی کو علم غیب دینے کا کہ مطلع کرے اس کفر و ایمان پر جو دلوں میں ہوتا ہے لیکن اللہ اپنی پیغمبری کیلئے جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے پس اسکی طرف وحی فرماتا ہے اور بعض غیوب کی ان کو خبر دیتا ہے یا ان کے لئے ایسے دلائل قائم فرماتا ہے جو غیب پر رہبری کریں ۔

فلا یظھر علی غیبہ احد من ارتضی من رسول۔(سورۃ الجنّ آیت 26)۔
تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔

تفسیرِ کبیر میں اس آیت کے تحت لکھا ہے : ای وقت وقوع القیمۃ من الغیب الذی لا یظھرہ اللہ لاحد فان قیل فاذا حملتم ذلک علی القیمۃ فکیف قال الا من ارتضی من رسول مع انہ لا یظھر ھذا لغیب لاحد قلنابل یظھرہ عند قریب القیمۃ۔
یعنی قیامت کے آنے کا وقت ان غیبوں میں سے ہے جس کو اللہ تعالٰی کسی ہر ظاہر نہیں فرماتا پس اگر کہا جاوے کہ جب تم اس غیب کو قیامت پر محمول کر لیاتو اب رب تعالٰی نے یہ کیسے فرمایا! مگر پسندیدہ رسولوں کو حالانکہ یہ غیب تو کسی پر ظاہر نہیں کیا جاتا تو ہم کہیں گے کہ رب تعالٰی قیامت کے قریب ظاہر فرمادے گا۔

تفسیرِ الخازن میں اس آیت کے تحت لکھا ہے: { إلا من ارتضى من رسول } يعني إلا من يصطفيه لرسالته ونبوته فيظهره على ما يشاء من الغيب حتى يستدل على نبوته بما يخبر به من المغيبات فيكون ذلك معجزة
جو چیز تمام مخلوق سے غائب ہو وہ غائب مطلقہے جیسے قیامت کے آنے کا وقت اور روزانہ اور ہر چیز کے پیدائشی اور شرعی احکام اور جیسے پروردگار کی ذات و صفات بر طریق تفصیل اس قسم کو رب کا خاص غیب کہتے ہیں۔پس اپنے خاص غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ اس کے سوا جسکو پسند فرمادے اور وہ رسول ہوتے ہیں خواہ فرشتے کی جنس سے ہوں یا انسان کی جنس سے جیسے حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بعض خاص غیب ظاہر فرماتا ہے۔ سوا اس کے جس کو اپنی نبوت اور رسالت کے لئے چن لیا پس ظاہر فرماتا ہے جس پر چاہتا ہے غیب تاکہ انکی نبوت پر دلیل پکڑی جاوے ان غیب چیزوں سے جس کی وہ خبر دیتے ہیں پس یہ ان کا معجزہ ہوتا ہے۔

ولا یحیطون بشئ من علمہ الا بماشاء (سورۃ البقرہ آیت 255)۔
اور نہیں پاتے اس کے علم میں مگر جتنا وہ چاہے

تفسیر خازن میں لکھا ہے کہ : { إلاّ بما شاء } يعني أن يطلعهم عليه وهم من الأنبياء والرسل ليكون ما يطلعهم عليه من علم غيبه دليلاً على نبوتهم كما قال تعالى: { فلا يظهر على غيبه أحداً إلاّ من ارتضى من رسول }
یعنی خدا تعالٰی ان کو اپنے علم پر اطلاع دیتا ہے اور وہ انبیاء اور رسل ہیں تاکہ ان کا علم غیب پر مطلع ہونا ان کی نبوت کی دلیل ہو جیسے رب نے فرمایا ہے کہ پس نہیں ظاہر فرماتا اپنے غیب خاص پر کسی کو سوائے اس کے رسول جس سے رب راضی ہے۔

تفسیرِ البغوی معالم التنزیل میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ : { وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ } أي من علم الله { إِلاَّ بِمَا شَآءَ } أن يطلعهم عليه يعني لا يحيطون بشيء من علم الغيب إلا بما شاء مما أخبر به الرسل
یعنی یہ لوگ علم غیب کو نہیں گھیر سکتے مگر جس قدر کہ خدا چاہے جس کی خبر رسولوں نے دی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

یہ تو صرف چند آیات پیش کیں ہیں ورنہ ربِ کائنات نے قرآنِ کریم نے کئی مقامات پر میرے آقاومولیٰ مالک ومختارِ دوجہاں ﷺ کے علم کا بیان فرمایا ہے۔ اب اسی ضمن میں کچھ احادیث بھی پڑھ لیں۔

بخاری کتاب بدءالحلق اور مشکوٰۃ جلد دوم باب بدءالخلق و ذکر الانیباء میں حضرت فاروق سے روایت ہے : قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقاما فاخبرنا عن بدءالخلق حتٰی دخل اھل الجنۃ منازلھم واھل النار منازلھم حفظ ذلک من حفظہ و نسیہ من نسیہ ۔
حضور علیہ السلام نے ایک جگہ قیام فرمایا پس ہم کو ابتداء پیدائش کی خبر دےد ی۔ یہاں تک کہ جنتی لوگ اپنی منزلوں میں پہنچ گئے اور جہنمی اپنی میں جس نے یاد رکھا۔ اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا۔

مشکوٰۃ باب المعجزات میں مسلم بروایت عمرو ابن اخطب اسی طرح منقول ہے مگر اس میں اتنا اور ہے : فاخبرنا بما ھو کائن الٰی یوم القٰمۃ فاعلمنا احفظنا
ہم کو تمام ان واقعات کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونیوالے ہیں ۔ پس ہم میں بڑا عالم وہ ہے جو ان باتوں کا زیادہ حافظ ہے۔

مشکوٰۃ باب الفتن میں بخاری و مسلم سے بروایت حضرت حذیفہ ہے : ما ترک شیئا یکون مقامہ الٰی یوم القیمۃ الا حدث بہ و نسیہ من نسیہ
حضور علیہ السلام نے اس جگہ قیامت تک کی کوئی چیز نہ چھوڑی مگر اس کی خبر دے دی جس نے یاد رکھا یاد رکھا جو بھول گیا وہ بھول گیا۔

مشکوٰۃ باب المساجد میں عبد الرحٰمن بن عائش سے روایت ہے : رء یت ربی عزوجل فی احسن صورۃ فو صنع کفہ بین کتفی فو جدت بردھا بین ثدیی فعلمت فافی السمٰوت و الارض
ہم نے اپنے رب کو اچھی صورت میں دیکھا رب تعالٰی نے اپنا دست قدرت ہمارے سینہ پر رکھا۔ جسکی ٹھنڈک ہم نے اپنے قلب میں پائی پس تمام آسمان و زمین کی چیزوں کو ہم نے جان لیا ۔

مسلم جلد دوم کتاب الجہاد باب غزوہ بدر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھذا مصرع فلان یصنع یدہ علی الارض ھھنا ھھنا قال فما ماط احدھم عن موضع ید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ فلاں شخص کے گرنے کی جگہ ہے اور اپنے دست مبارک کو ادھر ادھر زمین پر رکھتے تھے راوی نے فرمایا کہ کوئی بھی مقتولین میں سے حضور علیہ السلام کے ہاتھ کہ جگہ سے ذرا بھی نہ ہٹا۔

شرح مواہب لدنیہ میں زرقانی، حضرت عبد اللہ ابن عمر سے روایت ہے : ان اللہ رفع لی الدنیا فانا انظر الیھا و الی ما ھو کائن فیھا الی یوم القیمۃ کانما انظر الی کفی ھذا
اللہ تعالٰی نے ہمارے سامنے ساری دنیا کو پیش فرما دیا پس ہم اس دنیا کو اور جو اس میں قیامت تک ہونیوالا ہے اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے اپنے اس ہاتھ کو دیکھتے ہیں

مسند امام احمد بن حنبل میں بروایت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ ہے : ما ترک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قائد فتنہ الی ان تنقضی الدنیا یبلغ من ثلث مائۃ فصاعدا قد سماہ لنا باسمہ و اسم ابیہ و اسمقبیلتہ رواہ ابو داؤد۔
نہیں چھوڑا حضور علیہ السلام نے کسی فتنہ چلا نیوالے کو دنیا کے ختم ہونے تک جن کی تعداد تین سو سے زیادہ تک پہنچے گی مگر ہم کو اس کا نام اس کے باپ کا نام اس کے قبیلے کا نام بتا دیا۔

بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنتہ اور تفسیر خازن میں زیر آیت لا تسئلوا عن اشیاء ان تبدلکم ہے : قام علی المنبر فذکر الساعۃ و ذکر ان بین یدیھا امور اعظاما ثم قا ما من رجل احب ان یسئال عن شئی فلیسئل عنہ فواللہ لا تسئلونی عن شیئی الا اخبر کم ما دمت فی مقامی ھذا فقام رجل فقال این مدخلی قال النار فقام عبداللہ ابن حذافۃ فقال من ابی قال ابوک حذافۃ ثم کثر ان قول سلونی سلونی۔
حضور علیہ السلام منبر کھڑے ہوئے پس قیامت کا ذکر فرمایا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ہیں پھر فرمایا کہ جو شخص جو بات پوچھنا چاہے پوچھ لے قسم خدا کی جب تک ہم اس جگہ یعنی منبر پر ہیں تم کوئی بات ہم سے پوچھو گے مگر ہم تم کو اس کی خبر دیں گے ایک شخص نے کھڑےہو کر عرض کیا کہ میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ فرمایا جھنم میں عبد اللہ ابن حذافہ نے کھڑے ہو کر دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے فرمایا حذافہ۔ پھر بار بار فرماتے رہے کہ پوچھو پوچھو ۔“(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مشکوٰۃ باب ذکر الانبیاء میں بخاری سے بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہے : خفف علی داود القراٰن فکان یامر دوآبہ فتسرج فیقرء القراٰن قبل ان تسرج
حضرت داؤد علیہ السلام پر قرآن ( زبور) کو اس قدر ہلکا کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنے گھوڑوں کو زین لگانے کا حکم دیتے تھے تو آپ ان کی زین سے پہلے زبور پڑھ لیا کرتے تھے۔

نوٹ؛ یہ حدیث اس جگہ اس لئے بیان کی گئی کہ اگر حضور علیہ السلام نے ایک وعظ میں ازل تا آخر واقعات بیان فرمادئے تو یہ بھی آپ کا معجزہ تھا۔ جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام آن کی آن میں ساری زبور پڑھ لیتے تھے۔

اور حضرت شیخ محقق کے جنہں منکرینِ علمِ غیب بھی مستند مانتے ہیں، مدارج النبوۃ جلد اول وصل رویۃ الہی میں فرماتے ہیں کہ : فاوحی ۔۔۔۔۔۔۔ الآیۃ بتمام علوم علوم و معارف و حقائق و بشارات و اشارات، اخبار و آثار و کراماتو کمالات در احیطہء ایں ابہام داخلاست وہمہ راشامل و کثرت وعظمت اوست کہ مبہم آدردوبیان نہ کرداشارات بآنکہ جزعلم علام الغیوب ورسول محبوب بہ آں محیط نتواند شد مگر آں چہ آں حضرت بیان کردہ۔
معراج میں رب نے حضور علیہ السلام پر جو سارے علوم اور معرفت اور بشارتیں اور اشارے اور خبریں اور کرامتیں و کمالات وحی فرمائے وہ اس ابہام میں داخل ہیں اور سب کو شامل ہیں انکی زیادتی اور عظمت ہی کی وجہ سے ان چیزوں کو بطور ابہام ذکر کا بیان نہیں فرمایا۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان علوم غیبیہ کو سوئے رب تعالٰی اور محبوب علیہ السلام کے کوئی نہ احاطہ کر سکتا۔ ہاں جس قدر حضور نے بیان فرمایا وہ معلوم ہے۔

علمائے دیوبند کے عقائد پر مستند کتاب جس پر بیشتر اکابرینِ دیوبند کے دستخط ہیں جن میں اشرف تھانوی، محمود الحسن اور مفتی کفایت اللہ وغیرہ شامل ہیں، المہند میں خلیل احمد انبھیٹوی رقمطراز ہیں کہ:۔

ہم زبان سے کہتے ہیں اور دل سے عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ تمام مخلوق سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ خواہ ان علوم کا تعلق ذات وصفات سے ہو یا تشریعات سے، عملی احکام ہوں یا نظری احکام، واقعی حقیقتیں اور مخفی اسرار ہوں، وہ علوم جن کے پردوں تک کسی مخلوق کی رسائی نہیں ہوئی، نہ کسی مقرب فرشتے کی اور نہ کسی نبی رسول کی۔ آپﷺ کو اولین اور آخرین کا علم عطا کیا گیا اور آپ پر اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل تھا، لیکن اس سے ہر زمانے میں نوپیدا امور کی ہر جزئی کا علم لازم نہیں آتا۔

اس کے چند سطر آگے لکھتے ہیں کہ : لیکن توجہ نہ ہونے کی بنا پر بعض نوپیدا اور حقیر جزئیات کا نبیِ اکرمﷺ کی نگاہ سے اوجھل ہوجانا آپﷺ کے سب سے بڑے عالم ہونے میں موجبِ نقص نہیں ہے، جبکہ ثابت ہوچکا ہے کہ آپﷺ بلند مقام کے لائق علوم شریفہ کا تمام مخلوق سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔(المہند، 24-25-26)۔

اورکوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کڑوڑوں درود
(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔