Pages

Thursday, 1 June 2017

( حصّہ چہارم ) دیابنہ کی طرف سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کےلیئے امکان کذب(جھوٹ) ثابت کرنے کا رد

( حصّہ چہارم ) دیابنہ کی طرف سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کےلیئے امکان کذب(جھوٹ) ثابت کرنے کا رد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اور جس دلیل سے اس کا حدوث ثابت کیا جاتا ہے اس کا شافی جواب اس رسالہ میں مذکور ہے، جس کا خلاصہ سید سند علیہ الرحمہ نے شرح مواقف میں لکھا ہے اور علامہ تفتازانی نے بھی اس کے متعلق بالتفصیل نقل کیا ہے۔ ان تمام عبارتوں کی تو یہاں گنجائش نہیں لیکن اختصاراً اس کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے۔ مخالفین کا یہ اعتراض کہ حروف اور الفاظ کے مقدم مؤخر کرنے سے کلام لفظی کا حدوث لازم آتا ہے اس کے جواب میں علامہ موصوف یہ فرماتے ہیں

فجوابہ ان ذٰلک الترتب انما ہو فی التلفظ بسبب عدم مساعدۃ الالۃ فالتلفظ حادث والادلۃ الدالۃ علی الحدوث یجب حملہا علی حدوثہ دون حدوث الملفوظ جمعا بین الادلۃ وہٰذا الذی ذکرناہ وان کان مخالفا لما علیہ متاخروا اصحابنا الا انہ بعد التامل تعرف حقیقتہ تم کلامہ وہٰذا المحمل لکلام الشیخ محمد الشہرستانی فی کتابہ المسمی ’’بنہایۃ الاقدام‘‘ ولا شبہۃ فی انہ اقرب الی الاحکام الظاہر المنسوبۃ الی قواعد الملۃ۔ انتہٰی۔
(ترجمہ) پس اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ترتب تلفظ میں ہے (۱)۔ عدم مساعدت آلہ کے سبب سے (۲) یعنی تلفظ حادث ہے (۳) اور جو دلیلیں حدوث پر دلالت کرتی ہیں واجب ہے ان کا حمل کرنا حدوث تلفظ پر نہ حدوث ملفوظ پر دلیلوں (۴) کے درمیان جمع کرنے کے لئے وہ یہ ہے کہ جس کو ہم نے ذکر کیا ہے اگرچہ وہ ہمارے متاخرین اصحاب کے خلاف ہو لیکن تامل کے بعد اس کا حق ہونا معلوم ہو جائے گا اور یہ ہے محمل کلام شیخ محمد شہرستانی کا۔ اس کی کتاب ’’نہایت الاقدام‘‘ میں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اقرب ہے احکام ظاہریہ کی طرف جو کہ منسوب ہیں قواعد ملت کی طرف۔ انتہیٰ ؎

کس نمی داند دریں بحر عمیق
سنگ ریزہ قدر دارد یا عقیق!

یعنی جو ممکن ہے وہ بحکم آیت کریمہ ’’اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر‘‘ تحت قدرت داخل ہے۔
اقول: متکلمین کے مذہب کی رو سے یہ مقدمہ صحیح نہیں اس لئے کہ صفاتِ باری تعالیٰ بھی منجملہ ممکنات ہیں۔ شرح عقائد نسفی میں منصوص ہے
واما فی نفسہا فہی ممکنۃ
اور صفات باری تعالیٰ تحت قدرتِ باری تعالیٰ داخل نہیں ورنہ ان کا حدوث لازم آئے گا اور یہ نہ صرف بداہۃً بلکہ متعدد نصوص سے بھی مردود ہے باخبر حضرات سے مخفی نہیں۔ یہ ہے مستدلین مخالفین کے مقدمات کی حقیقت جن کا تارو پود بیت عنکبوت کی طرح بکھر گیا۔

امر دوم کا اثبات : یعنی اگر جمیع مقدمات تسلیم بھی کر لئے جائیں تب بھی مستدلین کی غرض حاصل نہیں ہوتی اس لئے ان کا مقصد یہ تھا کہ کذب باری تعالیٰ ممکن ہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ کلام لفظی مقدور و مخلوق ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو گا کہ کلام لفظی خود ممکن ہے اور یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ امکان شیٔ کو امکان صفت شیٔ لازم نہیں آتا بلکہ جائز ہے کہ شیٔ بنفسہٖ ممکن اور اس کی صفت ممتنع ہو جیسے کل کی انقصیت اور جزو کی اعظمیت ممتنع ہے اور جزو کل خود ممکن ہیں۔

امر سوم کا اثبات : یعنی اگر کلام لفظی میں کذب کا امکان تسلیم کر لیا جائے تو کلام نفسی میں بھی کذب ماننا پڑے گا۔ جیسا کہ بالتفصیل بیان ہوا ہے۔

مخالفین کے ایک اور اعتراض کا جواب : علماء وہابیہ اس مقام پر ایک اور مغالطہ بھی دیا کرتے ہیں اورجہلاء کے بہکانے کو کہا کرتے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ اس امر پر قادر نہیں کہ دوزخیوں کو جنت میں اور جنتیوں کو دوزخ میں ڈال دے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نیکوں کو دوزخ میں ڈالنا یا بالعکس اس میں ہمارا کلام نہیں ۔ ہمارا کلام تو اس میں ہے کہ آیا اس کے خلاف خبر دینے پر بھی قادر ہے یا نہیں۔ علماء وہابیہ میں اتنی بھی لیاقت نہیں کہ وہ حکایت اور محکی عنہ کے فرق کو سمجھ سکیں۔ جیسا کہ خلف وعد اور خلف وعید میں فرق نہ کیا اور دونوں کو ایک ہی سمجھ کر اپنے ایمان کو خراب کیا۔ اسی طرح یہاں بھی فرق کو سمجھنے سے قاصر رہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرات! ہمارا کلام ہے حکایت میں اور یہ محکی عنہ ہے نہ کہ حکایت۔

جب لفظ ممتنع یا محال مطلق ہو اس سے ذاتی مراد ہوتا ہے : اس کے علاوہ ایک اور بھی مغالطہ دیا کرتے ہیں کہ عبارات علماء مفسرین و متکلمین وغیرہم میں جہاں جہاں لفظ امتناع یا استحالہ آیا ہے وہاں امتناع سے مراد امتناع بالغیر اور محال سے محال بالغیر ہے جو کہ امکان بالذات کے منافی نہیں۔ اس کا جواب اولاً تو یہ ہے کہ جس وقت لفظ استحالہ اور امتناع مطلق واقع ہوتے ہیں تو ان سے فرد کامل ہی مراد ہوتا ہے یعنی محال بالذات اور متنع بالذات جیسا کہ کبھی امکان اور وجوب کو مطلق استعمال کیا جائے تو ان سے بھی امکان بالذات اور وجوب بالذات مراد ہو گا۔ کما لا یخفی علی الماہر۔

دوسرے یہ کہ عبارات مستشہدہ میں فقط لفظ امتناع اور استحالہ پر ہی بس نہیں کیا گیا کہ عذر مذکور کی گنجائش رہتی بلکہ لا یجوز ولا یحتمل ولا یتطرق وغیرہا الفاظ استعمال کئے گئے ہیں

تیسرے یہ کہ یہاں بلا ضرورت حقیقت سے مجاز کی طرف عدول ہوتا ہے اور یہ صریح البطلان  ہے۔

ایک شبہ اور اس کا حل : جو لوگ کلام لفظی میں کذب کے قائل ہیں حقیقتاً انہوں نے یہ سمجھا ہے کہ چونکہ کلام لفظی خدا کی ذات کے ساتھ قائم نہیں لہٰذا اس کا کذب بھی اس کی طرف منسوب نہ ہو گا اور اس کی تنزیہ میں فرق نہ آئے گا لیکن یہ محض خیال اور باطل خیال ہے۔ اول تو اس لئے کہ کلام نفسی کلام لفظی کا مدلول ہے۔ جب کذب کلام لفظی میں مان لیا تو کلام نفسی میں بھی ضرور ماننا پڑے گا۔ ورنہ ما بالعرض کا تحقق بدون ما بالذات کے لاز آئے گا۔ وہو ظاہر البطلان۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

امکان کذب کے رد میں عجیب مثال : اس کی مثال اس طرح سمجھئے کہ ایک جعلساز نے جھوٹی دستاویز بنائی، زبان سے کچھ نہ کہا بلکہ کاغذ پر حروف و نقوش ہی بنائے۔ یہ نقوش اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں بلکہ ان کا تعلق کاغذ ہی سے ہے لیکن پھر بھی اس دستاویز کے کذب کو اس جعلساز کی طرف منسوب کر کے اسی کو مجرم قرار دیا جائے گا۔ پس معلوم ہوا کہ کلام لفظی کا کذب بھی ضرور خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہو گا۔ وہٰذا محال اور اگر مان بھی لیا جائے کہ کلام لفظی کا کذب اس کی طرف منسوب نہ ہو گا تو لازم آئے گا کہ اس کا صدق بھی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہ ہو۔ اس لئے کہ علت مشترکہ ہے اور جب صدق بھی ذاتِ باری کی طرف منسوب نہ ہوا تو پھر آیاتِ مسطورۃ الذیل کے کیا معنی ہوں گے؟
وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلًاo
اور کون زیادہ اچھا ہے اللہ تعالیٰ سے ازروئے قول کے
وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًاo
اور کون زیادہ سچا ہے اللہ تعالیٰ سے ازروئے کلام کے
وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلاًo
اور تمام ہو گیا تیرے رب کا کلمہ ازروئے صدق اور عدل کے
ان آیات میں قول و حدیث سے مراد کلام لفظی ہے۔ چنانچہ مفسرین نے اس کی تفصیل کی ہے۔ تفسیر کبیر وغیرہ میں ملاحظہ ہو تو اسی تقریر پر لازم آئے گا کہ کلام لفظی حقیقتاً کلام ہی نہ ہو اور اس کا منکر کافر قرار نہ دیا جائے۔ غرض اس سبب سے مفاسد لا تحصیٰ لازم آتے ہیں۔ کما لا یخفی علی الذکی۔

ایک لچر اور پوچ دلیل کی تردید : یہاں ایک بات اور یاد آ گئی۔ مناظرین وہابیہ دیوبندیہ اس مسئلہ میں جب بالکل عاجز ہو جاتے ہیں تو یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ اگر کذب تحت قدرت باری تعالیٰ میں داخل نہیں ہے تو یہ اکثر مخلوق جو شب و روز ہزاروں جھوٹ بولتی ہے تو کیا یہ اور اس کا کذب قدرتِ الٰہی سے باہر ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس کذب کو تم نے تحت قدرتِ باری تعالیٰ ثابت کیا ہے، ہمارا نزاع اس میں نہیں۔ یہ تو مخلوق کا کذب اور مخلوقِ الٰہی ہے۔ اس پر صرف قدرت کے کیا معنی بلکہ وقوع ثابت و ظاہر ہے۔ ہمارا کلام تو کذب باری میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی کذب جیسے کریہہ اور ناپاک عیب سے متصف ہو سکتا ہے یا نہیں اور وہ یہاں لازم نہیں آتا۔ پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہٗ وعم نوالہٗ کا کذب کسی طریقہ سے ثابت نہیں ہو سکتا اور اس مسئلہ میں بقول مولوی عبد الشکور صاحب مدیر ’’النجم‘‘ مخالفین کے پاس ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کوئی دلیل نہیں۔( مضمون مکمل ہوا از افادات استاذی المکرّم غزالی زماں قبلہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ  ۔ دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔