سرکاری ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹیلی ویژن پر روشن خیالی کے نام پر نعت کی توہین
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سرکاری ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹیلی ویژن روشن خیالی کے نام پر تاریکیاں پھیلانے اوراعتدال پسندی کی آڑ میںبے اعتدالی اوربے راہ روی کی ساری حدیں پھلانگنے کی ڈیوٹی بڑی جانفشانی کے ساتھ سرانجام دے رہاہے اسکی سکرین پر فلم ،ٹیلی ویژن اور اسٹیج کے گویوںکے علاوہ کچے پکے راگ گانے والوں اور پاپ سنگرز کی فوج ظفرموج اپنے مخصوص رنگ میں سازوں کے ساتھ میدان نعت میں جولانیاں دکھاتی نظرآتی ہے یہا ں دوگانہ اور کورس کے انداز میں مردوزن کی مخلوط نغمہ سرائی کو بہت پذیرائی ملتی ہے میڈیاکی دنیا سے باہر کے بعض نعت خواںحضرات بھی ایسی قباحتوں کو جائز ومباح جان کر اس رنگ میں رنگے دکھائی دیتے ہیں کہ ایک بے نام سی قنات عورتوں اورمرد سامعین کے درمیان حائل ہے جبکہ اسٹیج پر براجمان حضرات کو سبھی حاضر خواتین کا ”محرم ” گردان لیاگیاہے اوروہاں موجودعلماء و مشائخ کی پیشانیوں پر عرق انفعال کا قطرہ تک نمودارنہیں ہوتا(اناللہ واناالیہ راجعون)
بات ہو رہی ہے محفل نعت کے آداب اورتقدس کے حوالے سے !آج جب ان پاکیزہ جلوسوں اور محافل میںڈھول کے تاشوں اورچمٹوں باجو ںکی آلودگیاں دیکھتے ہیں توکانپ اٹھتے ہیں کہ یہ جسارتیں جناب رسول ۖ کی کس قدر آزردہ دلی اورمالک دو جہاں کی سخت ناراضی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ محافل کا حال بھی جلوسوں سے کسی طرح مختلف نہیں ہے چاہیے تو یہ تھا کہ تمام حاضرین باوضودسر ڈھانپے ،دوزانوںیا چارزانوں مئودب بیٹھ کر شریک محفل ہوں اور پوری توجہ اور دلجمعی کے ساتھ حضورنبی کریم ۖکی با گا ہ بیکس پناہ میں پیش کئے گئے گلہائے عقیدت سے اپنے قلوب واذہان کو منورکریں اور خودبھی درودوسلام کی ڈالیاں اپنے آقا مولی ۖ کے حضور پیش کرتے رہیںلیکن بے تو جہی ،فضول گفتگو یا لمبی تان کر سوجانے تک کو روارکھاجاتا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
معروف نعت خواں حضرات اور بعض اوقات نقباء محفل کی پذیرائی کیلئے انہی کی قائم کی گئی ”انجمن ہائے ستائش باہمی ”کے لوگ تاج پوشی کی رسوم اداکرتے ہیں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلّم سے لے کر امام احمد رضاخان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ تک ہمیں تو کوئی ایک مثا ل ایسی نظرنہیں آتی کہ کسی کی تاج پوشی کی گئی ہو،اسلامی تاریخ میں بھی صرف مطلق العنان حکمرانوں نے ہی بیت المال کو ”بیتِ مال” سمجھتے ہوئے خود پر حلال قرار دے کر اس طرح کی غیر شرعی رسوم کاارتکا ب کیا ورنہ خلافت راشدہ تو خا لصتادرویشی سے عبارت ہے علم وفضل کے حامل علمائے دین یا سلاسل طریقت کے خلفاء کو دستار فضیلت یا دستار خلافت سے تو نوازاجاتاہے لیکن تاج پوشی کی روایت ایجاد بندہ سے زیادہ کچھ نہیں حالانکہ سوناپہننامرد کیلئے اس ہستی نے حرام قرار دیا ہے جن کے نام پر ”محفل میلادالنبی ۖ سجاتے ہیں مگر ہمارے ہاں نعت خواں حضرات بڑے جوش اور دھوم دھڑلے سے”انجمن ہائے ستائش باہمی”کے پلیٹ فارم سے ایک دوسرے کی تاج پوشی کرتے ہوئے نظرآتے ہیںحضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ۖ نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی پس اس کو نکال کر پھینک دیا او رفرمایا کیا تم میں سے کوئی چاہتاہے کہ آگ کی انگاری کو اپنے ہاتھ میں ڈالے پس رسول اکرم ۖ کے تشریف لے جانے کے بعد اس شخص سے کہاگیاکہ اپنی انگوٹھی اٹھالے اور ( بیچ کر ) اس سے فائدہ اٹھا لے اس نے جواب دیا اللہ کی قسم میں اس کو کبھی نہ لوںگا حالانکہ رسول اللہ ۖ نے اس کو پھینک دیا ہے۔ محافل نعت میں اجتماعات کو عظیم تر بنانے کیلئے حاضرین میں عمرے کے ٹکٹوں کی تقسیم یا شادی کے لئے بچیو ں کو جہیز کے نا م پر انعامی رقوم دینے کیلئے قرعہ اندازی کی جاتی ہے لوگ شناختی کارڈ کی کاپیاں جمع کروانے اور صبح کی اذانوں تک قرعہ اندازی کے انتظار میں شریک محفل رہتے ہیں محافل نعت کا تسلسل صبح کی اذانوں تک جاری رہتاہے اور اکثریہ دیکھاگیاہے کہ سامعین ،واعظین ،ثناخواں سمیت صبح کی نماز کی سعادت سے محروم رہتے ہیں حالانکہ نعت سنناسنت اور مستحب عمل ہے مگر ہم فرائض کے تارک ہورہے ہیں یہ ہماری بدنصیبی ہے اس کے سوامیںکیا کہہ سکتاہوں دعا ہی کی جاسکتی ہے اللہ تعالی ہمیں فرائض کی ادائیگی اور سنت پر عمل کی توفیق فرمائے ۔ بابافرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کی دھرتی سے تعلق رکھنے والے معروف ثناء خواں کو جب دیار غیر میں منعقدہ ایک محفل نعت کے بعدصبح سویرے نمازکے لیے جگانے کی کوشش کی گئی تو باربار جگانے پر اس نے یہ دلخراش جملہ بولا” یا تو ہم سے نعتیں پڑھوا لیا کریں یا پھر نمازیں دودوکام ہم سے نہیں ہوتے ” یہ توصرف ایک جھلکی ہے سینکڑوں ثناء خواں ایسے ہیں جن کو میں ذاتی طور پر جانتاہوں محفل نعت میں جانے سے پہلے تازہ کلین شیوکرواکر سر پر سندھی ٹوپی ویسکوٹ اور کلف لگا سوٹ پہن کر ثناء خوانی کیلئے محفل میں پہنچ جاتے ہیں اور وہ نماز کے تو قریب سے بھی نہیں گزرتے شادی کیلئے بچیوں کو جہیزکے نا م پر انعامی روقوم دینے کیلئے صاحبان ثروت کو تو مستحقین کی خدمت یو ں کرنے کا حکم ہے کہ دوسرے ہاتھ کو خبر تک نہ ہو باقاعدہ اشتہاری مہم چلاکر نیکی کرنا کس طرح اجر وثواب کا پیش خیمہ بن سکتاہے ؟ یہ سوال خود اپنے اندر شافی جواب رکھتاہے حالانکہ شیخ ابوبکرکلابازی رحمتہ اللہ علیہ نے ”التعرف ” میں اخلاص عمل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھاہے۔خالص عمل وہ ہے جس کافر شتے تک کو علم نہ ہوکہ لکھ سکے ،شیطان کو بھی خبرنہ ہوکہ خراب کرسکے اورنہ ہی نفس کو پتہ چلے کہ اس پر فخر کر سکے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ان محافل نعت میں نقیب محفل حضرات بالعموم ایک طرح کے رٹو طوطے ہوتے ہیں جنہوں نے چند جملے اورمخصوص اشعار ازبر کئے ہوتے ہیں شیعہ ذاکروں کی طرح یہ عوامی جذبات سے کھیلتے اورمال بٹورتے ہیں بعض ”بڑے لوگوں ”کی بے جاخوشامدبھی ان کی آمدنیوں میں چار چاند لگانے کا سبب بنتی ہے یہ ثناء خوانوں کے عملی رقیب ہوتے ہیں جو انہیں تو وقت کی کمی سے ڈراتے رہتے ہیں لیکن خوددادطلبی اورزرجلبی کی غرض سے سب سے زیادہ وقت ہڑپ کر جاتے ہیں اور بعض اوقات بلکہ اکثردیکھاگیاہے کہ حضور نبی کریم ۖ کی تعریف وتوصیف کرنیکی بجائے میزبان محفل کی شان میں قصیدہ گوئی کرتے کرتے ان کی سانسیں بھی پھول جاتی ہیں انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہاہے کہ آج کل ” محافل نعت ” کے انعقاد میں وہ لوگ پیش پیش ہیں (الاماشاء اللہ ) جن کی آمدنی کا زیادہ تر حصہ حرام ذائع پرمشتمل ہوتا ہے جتنا بڑاحرام خور،سود خور،حق خور ،نماز خور، چندہ خور،مال یتیم خور ہوتاہے ہمارے نقباء محفل اس کے سینے پر اتنا ہی بڑا عاشق رسول ﷺ کا تمغہ سجانے کی ناکام کوشش کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ ہمارے لئے یہ سعادت ہی کافی ہے کہ ہمارا شمار امت محمدیہ میں ہے ہمارا ہمسایہ بھوک اور مفلسی کی وجہ سے سسک سسک کر جان دے رہا ہوتا ہے غریب اور یتیم بچہ ہمارے محلہ میں مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے حصول تعلیم سے محروم ہوتاہے مگراسی محلہ کی اس گلی میں لاکھوں روپے خرچ کرکے محفل نعت کا انعقاد کیا جارہا ہوتاہے اسی ہی محلہ میں ایک غریب اور مستحق بچی جہیزنہ ہونے کی وجہ سے بابل کی دہلیزپر دلہن بننے کی حسرتیں دل میںلیے بوڑھی ہورہی ہوتی ہے مگر ہم ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کے بل بوتے پر جہازی سائز کے رنگارنگ پوسڑز، اخباری اشہارات دعوتی کارڈوں ،معرف ثناء خوانوں کی ماڈلنگ کے روپ میں رنگین تصویریں اور انکی معقول خدمت اور عمرے کی ٹکٹوں پر زرکثیر خرچ کرکے رسول اللہ ۖ کے غلامو ں کو جمع کرکے عاشق رسول کہلوانے کے شوق میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔
حالانکہ ان محافل نعت کے انعقاد کا ایک مثبت ترین پہلو یہ بھی ہوناچاہیے کہ ان اجتماعات کو امر باالمعروف ونہی عن المنکرکا پیغام عام کا ذریعہ بنایاجائے قرآن وسنت پر مبنی مواعظ حسنہ لوگوں تک پہنچائے جائیں اولیاء وصلحائے امت بالخصوص اعلحضرت امام احمد رضابریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کی روشنی میں عوام الناس میںمحبت رسول ﷺ کی شمع کوفروزاں ترکیاجائے تاکہ ہم اپنی زندگیوں کو ان پاکیزہ اور قدسی نفاس ہستیوںکے نقوش پاکی راہنمائی میں سنوارسکیںجو ہماری نجات کا باعث ہوں بازاری اورسوقیانہ انداز سے قصے ،کہانیاں بیان کرنے والے واعظین اوردرباری علماء سے جان چھڑاکر مستندباعمل علماء سے استفادہ کیاجائے تاکہ محفل نعت کے انعقادکی اصل روح تک ہماری رسائی ہوسکے اور ہماری مردہ روحوں کو ذکررسول ﷺ اوراصلاح احوال پرمبنی دروس سے جلامل سکے نعت خوانی بلاشبہ نہایت ہی احسن عمل ہے اور اس کے بغیرزندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا نعت خوانی ہی سے کائنات کا حسن ہے اور یہ جو ہر طرف بہاروں کا نکھار ہے نعت خوانی کا ہی صدقہ ہے ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔