Pages

Wednesday, 7 June 2017

حقیت توحید و شرک اور اقسام شرک ۔ مسلمانوں کو مشرک کہنے والوں کو جواب

حقیت توحید و شرک اور اقسام شرک ۔ مسلمانوں کو مشرک کہنے والوں کو جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یعنی “ کسی کو شریک ٹھرانے سے مراد یہ ہے کہ مجوسیوں کی طرح کسی کو الہ (خدا) اور واجب الوجود سمجھا جائے یا بت پرستوں کی طرح کسی کو عبادت کے لائق سمجھا جائے ۔“
نوٹ:۔ واضح رہے کہ یہ تعریف علامہ تفتازنی علیہ الرحمتہ کی اس معتمد علیہ مشہور زمانہ تصنیف “شرح عقائد نسفی“ سے لی گئی ہے جو درس نظامی (عالم کورس ) میں شامل ہے۔
اس عبادت کی شرح میں سیدی عبدالعزیز ہاروی شرح نبراس صفحہ 265 میں فرماتے ہیں۔
ترجمہ :۔ “ مجوسیوں کا اعتقاد تھا کہ دو خدا ہیں ایک یزدان جو خیر کا خالق ہے اور ایک ہر من جو شر کا خالق ہے۔“
ہم نے شرک کی تعریف کی مدد سے جان لیا کہ دو خداؤںکا ماننے والا مشرک ہوگا جیسے مجوسی (آگ پرست) اس طرح کسی کو خدا کے سوا عبادت کے لائق سمجھنے والا مشرک ہو گا جیسے بت پرست جو بتوں کو مستحق عبادت سمجھتے ہیں۔
واجب الوجود اور مستحق عبادت صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات ہے ۔ جب تک کسی کو رب کے برابر یا مستحق عبادت نہ مانا جائے ، تب تک شرک نہ ہو گا اسی لئے قیامت میں کفار اپنے بتوں سے کہیں گے۔
ترجمہ :۔ “ خدا کی قسم! بے شک ہم کھلی گمراہی میں تھے جب کہ تمہیں
*رب العالمین کے برابر ٹھراتے تھے۔“ ( سورۃ الشعراء آیت 97،98)

شرک کی اقسام : شرک کی تین قسمیں ہیں  (1)  شرک فی العبادۃ ۔ (2 ) شرک فی الذات ۔ (3)  شرک فی الصفات ۔

شرک فی العبادۃ : شرک فی العبادۃ یہ ہے کہ اللہ تعالٰٰی کے علاوہ کسی کو مستحق عبادت سمجھا جائے ۔ رب العالمین عزوجل نے ارشاد فرمایا ۔
ترجمہ :۔ “ اور آپ کے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو ۔“ ( پارہ 15 سورہ بنی اسرائیل آیت 28)

شرک فی الذات : شرک فی الذات یہ ہے کہ کسی ذات کو اللہ تعالٰی جیسا تسلیم کیا جائے جیسا کہ مجوسی خداؤں کا مانتے تھے ۔

شرک فی الصفات : کسی ذات وغیرہ میں اللہ تعالٰٰی جیسی صفات ماننا شرک فی الصفات کہلاتا ہے ۔ چناچہ اللہ تعالٰٰی جیسی صفات کسی نبی علیہ السلام یا کسی ولی علیہ الرحمتہ میں تسلیم کی جائیں ، کسی زندہ میں مانی جائے یا فوت شدہ میں ، کسی قریب والے میں تسلیم کی جائیں یا دور والے میں، شرک ہر صورت میں شرک ہی راہے گا نا قابل معافی جرم اور ظلم عظیم ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

شرک کی مذمت : اللہ تعالٰٰی ارشاد فرماتا ہے : ترجمہ :۔ “ بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک (و کفر) کیا جائے اور شرک و کفر کے علاوہ جو کچھ ہے معاف فرمادیتا ہے ۔“ (سورۃ النساء)
ترجمہ :۔ اور جو اللہ کا شریک ٹھرائے وہ دور کی گمراہی میں پڑا۔“
ترجمہ :۔ اور جس نے خدا کا شریک ٹھرایا اس نے بڑا گناہ کا طوفان باندھا۔“
بلا شک و شبہ ظلم عظیم کا مرتکب ، محروم المغفرت، صریح گمراہ ہمیشہ جھنم میں سڑنے والا، بد بخت، نامراد اور یقینا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ہم شرک فی الصفات کو دیں گے کیونکہ اکثر اوقات شیاظان لعین شرک فی الصفات سمجھنے سے روکتا ہے۔ چناچہ شیطان نے یہ اصول مرتب کیا کہ لفظوں کا ایک ہونا شرک کہلاتا ہے۔ شیطان کا مذکورہ اصول ہر قرآن پڑھنے والے کو دائرہ اسلام سے خارج کے متراف ہے کیونکہ قرآن میں کئی مثالیں ایسی ہیں جن میں اللہ عزوجل اور اس کے محبوبین کے درمیان لفظا برابری پائی جاتی ہے۔
آئیے ! اس مردود لعین سے اللہ تعالٰٰ کی پناہ طلب کرتے ہوئے نور قرآن پاک سے متمتع ہوے ہوئے قرآنی مثالوں کے ذریعے ہمیشہ کے لئے اپنے ایمان کو فضل الہٰی عزوجل سے محفوظ کر لیتے ہیں ۔

پہلی مثال :۔  قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
ترجمہ:۔ “ بے شک اللہ تعالٰٰی لوگوں پر رؤف الرحیم ہے۔“ ( سورۃ البقرۃ آیت 143 )
دوسری جگہ ارشاد فرمایا۔
ترجمہ :۔ “ بے شک تمھارے رب پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمھارا رات دن مشقت میں پڑنا گراں ( بھاری) ہے تمھاریہ بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مومنوں پر رؤف اور رحیم ہیں۔“ ( سورۃ التوبۃ آیت 128)

دوسری مثال :۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے :
ترجمہ :۔ “ تم فرماؤ اللہ کے سوا غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمان اور زمین میں ہیں ۔“
دوسرے مقام پر ارشاد ہے :
ترجمہ :۔ “ غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر صرف اپنے پسنیدہ رسولوں ہی کو آگاہ فرماتا ہے۔ ہر کسی کو ( یہ علم ) نہیں دیا ۔“ ( سورۃ جن آیت 26، 27 )
دوسری مثال پر نظر فر مائیں لہ “ علم غٰب اللہ تعالٰٰی کی صفت ہے۔ اگر کوئی قرآن پاک کی روشنی میں رسولوں کے لئے علم غیب کا مانے تو کیا یہ بھی شرک ہو گا ؟

تیسری مثال :۔ قرآن پاک میں ہے ۔
ترجمہ :۔“ اللہ وسعت علم والا ہے ۔“
دوسری جگہ حضرت آصف بن برخیا رضی اللہ عنہ ( جو کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی امت کے والی ہیں ان ) کے لئے علم کی صفت کککو ثابت کیا گیا ۔ ارشاد ربانی ہے ۔
ترجمہ:۔ ( حضرت آصف نے ) کہا جن کے پاس کتاب کا علم تھا۔“ ( سورۃ النمل آیت 40 )
تیسری مثال دیکیں کہ “علم“ اللہ کی صفت ہے ۔ اگر کوئی مذکورہ قرآنی آیت کے تحت ولی کامل حضرت آصف بن برخیا کو علم والا کہے تو کیا ایسا کہنے والا جرم عظیم یعنی شرک کے وبال میں مبتلا کہلائے گا ؟(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

چوتھی مثال :۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے ۔
ترجمہ :۔ “ بے شک ساری عزت اللہ کے لئے ہے ۔“ ( سورۃ یونس آیت 65 )
دوسرے مقام پر ارشاد ہے۔
ترجمہ :۔ “ اور عزت تو اللہ تعالٰٰی اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں ۔“
غور کیجیئے ! پہلے فرمایا گیا کہ ساری عزت اللہ تعالٰی کے لئے ہے پھر دوسرے مقام میں ارشاد ہوا کہ عشت اللہ تعالٰٰی کے لئے ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنوں کے لئے بھی ہت ۔ یہاں بھی الفاظ ایک یہ ہیں ۔ قرآن مجید کی روشنی میں اللہ تعالٰٰی کے پیاروں کو عزت والا کہیں تو کیا شرک لازم آئے گا ؟

پانچویں مثال :۔ ترجمہ :۔ “ یہ اس لیئے کہ مسلمانوں کا مددگار اللہ ہے ۔“
دوسر مقام پر ارشاد ہے ۔
ترجمہ:۔ بئ شک اللہ ان کا مدد گار ہے اور جبرئیل اور نیک مومنین مددگار ہیں ۔“

پانچویں مثال فرمایا یقینا ددگار، مشکل کشاء اور حاجت روا اللی تعالٰٰی ہے اور قرآن پاک کی روشنی میں صالح مومنین کو ددگار ثابت کریں تو کیا شرک ہوگا ؟

فیضان اصول القرآن : ذکورہ آیات کی روشنی میں ایک اصول و ضابطہ ہوا کہ “ محض الفاظ و تلفیظ کی یکسانیت ، شرک کو لازم نہیں کرتی۔“ یہ امر انتہائی واضح ہے کہ جو صفات اللہ تعالٰٰی کی ہیں ویسی ہی کسی کے لئے مان لی جائئیں تو شرک فی الصفات لازم آئے گا۔ حضور علیہ السلام رؤف اور رحیم ہیں لیکن اللہ تعالٰٰی کی عطا سے ۔ اس طرح انبیاء علیہ السلا م علم غیب جانتے ہیں لیکن باذن اللہ حضرت آصف بن برخیا علم والے ہیں لیکن اللہ تعالٰٰی کی قدرت و طاقت سے مومنین عزت والے ہیں لیکن باذن اللہ اور اسی طرح صالحین مومنین مدد گار ہیں لیکن باذن اللہ ۔
قران پاک کے نور سے معلوم ہوا کہ انبیاء و صالحین کی خوبیوں اور اوصاف جمیلہ میں*باذن اللہ اور عطائی کے معنی پائے جاتے ہیں اگر چہ بظاہر باذن اللہ اور عطائی مذکور نہ ہو ۔ مثلا قرآن پاک میں ارشاد ہے ۔
ترجمہ:۔ “ اللہ تعالٰٰی اور اس کا رسول اور ایمان والے تمھارے مددگار ہیں۔“ ( سورہ مائدہ آیت 55)
اس آٰیت مبارکہ میں اللہکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنوں کو مددگار قرار دیا گیا گو کہ باذن اللہ اور عطائی مذکور نہیں لیکن مراد یہی ہے کہ اللہ تعالٰٰی کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین مدد کرتے ہیں اللہ تعالٰٰی کے اذن اور عطا سے ۔
ان آیات کے تحت معلوم ہوا کہ صحابہ علیھم الرضوان کا براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدد کے لئے پکارنا اور مومنین کا حضور غوث پاک سے مدد طلب کرنا باذن اللہ کے تحت ہے یعنی المدد یا رسول اللہ کے معنی ہیں ۔
“ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے اذن سے مدد فرمائے ۔“
واضح رہے کہ یہ مدد طلب کرنا شرک نہیں کیوں کہ صالحین اللہ کی عطا سے مدد کرتے ہیں ۔
جو ذات باری تعالٰٰی عزوجل عطا فرمارہی ہے اس میں اور جس کو عطا کیا جا رہا ہے ان حضرات قدسیہ میں برابری کا تصور محآل ہے اور جب برابری نہیں تو شرک کہاں رہا؟ اس اصول کو سمجھنے کے لئے سیدی اعلٰی حضرت امام اہل سنت الشاہ احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ کی عطا کردہ مثال انتہائی مفید ہے۔ خوب یا رکھیں! جہاں باذن اللہ اور عطائی کا ذکر آجائے ، شرک کا تصور محال اور ناممکن ہوجاتا ہے مذکورہ مثالوں میں باذن اللہ یا عطائی کے معنی نہایت واضح ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

الوھیت عطائی نہیں ھو سکتی : اللہ تعالٰٰی سب کچھ دے سکتا ہے مگر الوہیت کا دنیا ممکن نہیں کیوں کہ یہ مستقل ہے اور عطائی چیز مستقل نہیں ہو سکتی۔ الوہیت استقلال ہی کت معنی میں ہے لیکن مشرکین کا تصور یہ تھا کہ انہوں نے کہا لات و منات وغیرہ ایسے زاھد و عابد لوگ تھے کہ اللہ نے کہا تمھاری عبادت کمال تک پہنچ گئی اب تم پر میں یہ عنایت کرتا ہوں کہ تم آزاد ہو میں تم پر کچھ فرض کرتا ہوں اور نہ کوئی پابندی لگاتا ہوں پس اس طرح انہوں نے کہا کہ اللہ تعالٰٰی نے ہمارے تمام معبودوں کو الوہیت دے دی جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالٰٰی نے کسی کو وصف الوہیت عطا فرمادیا ہے اہ مشرک و ملحد ہے۔ ( ملاحظہ کریں : مقالات استاذی المکرّم غزالی زماں رازی دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمۃ)

مسلمانوں کا عقیدہ : مشرکین غیر اللہ کے لئے عطائے الوہیت کے قائل تھے اور مومنین کسی مقرب سے مقرب ترین حتی کہ حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی الوہیت اور غنائے ذاتی کے قائل نہیں ہیں ۔ یعنی سردار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی خدا تصور نہیں کرتے۔
صفات باری عزوجل اور صفات حبیب باری تعالٰٰی میں فرق
اللہ تعالٰٰی کی صفات ذآتی ہیں ۔ جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات عطائی ہیں۔
اللہ تعالٰی کی صفات قدیم ( پہلے اور ہمہشہ سے ) ہیں۔ جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات حادث (بعد میں ) ہیں۔

اللہ تعالٰی کی صفات ابدی ہیں ۔ جبکہ حضور اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم کی صفات غیر ابدی ہیں۔

اللہ تعالٰٰی کی صفات غیر مقدور ( یعنی کسی کے تابع و زیر اثر نہیں ) ہیں ۔ جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات مقدور ( اللہ تعالٰٰی کے زیر اثر ) ہیں۔

امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ ولم کبھی شرک پر متفق نہیں ہوگی ۔ حدیث شریف : حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ سرکار اعظم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک میں تمھارا سہارا اور تم پر گواہ ہوں اللہ کی قسم ! میں اپنے حوض کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بے شک زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اور بے شک مجھے یہ خطرہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگوگے مجھے تو اس بات کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے جال میں پھنس جاؤ گے ۔( بحوالہ:۔ بحاری شریف )سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ایک طرف اور سارے مذہب مفتیوں کے فتوے ایک طرف ۔ جب میرے مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمادیا کہ میری امت کبھی شرک پر متفق نہیں ہوگی تو پھر امت محمدیہ کیسے مشرک ہو سکتی ہے البتہ مسلمانوں پر شرک کے فتوے لگانے والے خود مشرک ہوجائیں گے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔