ماتم کی شرعی حیثیت قرآن و حدیث کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی بھی خرد مند اس حقیقت سےانکار نہیں کرسکتا کہ دورِ حاضر میں مسلمان جس ذلت ورسوائی، زوال وپستی اور بے راہ روی کے شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ خالقِ کائنات اللہ رب العزت اور محسنِ انسانیت حضور ﷺ کی ان عظیم تعلیمات وفرمودات سے کنارہ کشی ہے جو ہمارے لیے فیروز مندی اورسربلندی کی ضمانت ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک ہم نے ان تعلیمات وارشادات کو اپنے گلے سے لگایا دنیا بھر میں ہم مرجعِ خلائق بنے رہے، لیکن جب سے ان سے روگردانی اختیار کی دنیا بھر کی ذلتیں اور رسوائیاں ہم پر مسلط کردی گئیں۔
نوحہ وماتم کی حرمت قرآنِ مجید سے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیۡءٍ مِّنَ الْخَوۡفِ وَالْجُوۡعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الۡاَمۡوٰلِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ۔الَّذِیۡنَ اِذَا اَصٰبَتْہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔(البقرہ:۱۵۵/ ۱۵۶)
ترجمہ : ہم تمھیں ضرور کچھ خوف، بھوک اور تمھارے جان ومال اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صبر کرنے والوں کےلیے بشارت ہے جنھیں جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
نیز فرماتا ہے : یٰاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوااصْبِرُوۡا وَصَابِرُوۡا ۔ (اٰلِ عمران:۲۰۰)
ترجمہ : اے ایمان والو! صبر کرو اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرو۔
پہلی آیت میں مصیبت کے وقت صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور غم واندوہ کے وقت خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ بالوں میں خاک ڈالنا، کپڑے پھاڑنا، ہائے وائے کرنا، منھ، سینہ اور زانو پر طمانچے مارنا یہ تمام کام صبر کے منافی ہیں اور اس کی ضد ہیں۔ جب کسی چیز کو فرض قرار دیا جائے تو اس کی ضد حرام ہوجاتی ہے۔ آیت میں صبر کو فرض قرار دیا گیا تو نوحہ اورماتم جو اس کی ضد ہیں دونوں حرام ہوگئے۔ اور دوسری آیت میں خود صبر کرنے اور اگر کوئی دوسرا بے صبری کا مظاہرہ کرتا نظر آئے تو اسے صبر کی تلقین کرنے کا حکم ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ماتم کی حرمت احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الخُدُودَ، وَشَقَّ الجُيُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الجَاهِلِيَّة۔(بخاری، باب لیس منا من شق الجیوب)
ترجمہ : جو شخص منھ پر طمانچے مارے، گریبان چاک کرے اور زمانۂ جاہلیت کی طرح چیخ وپکار کرے وہ ہمارے دین پر نہیں ہے۔
حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے : اِثْنَتَانِ فِیْ النَّاسِ ھُمَا بِھِمْ کُفْرٌ: اَلطَّعْنُ فِیْ النَّسَبِ وَالنِّیَاحَۃُ عَلیَ الْمَیِّتِ۔(مسلم،اطلاق اسم الکفر علی الطعن فی النسب)
ترجمہ : دوچیزیں لوگوں میں رائج ہیں حالاں کہ وہ کفر سے ہیں: نسب پر طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا۔
ان احادیث سے صاف طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ نوحہ و ماتم حرام ہے۔اور اس کی تعبیر کفر سے کی گئی ہے۔
امام یحییٰ بن شرف نووی قدس سرہٗ کفر کی توجیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ماتم کو کفر سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کافروں کا عمل ہے، یا یہ کفر کی طرف لے جانے والا ہے، یا اس لیے کہ یہ نعمت واحسان کا انکار ہے، یا اگر کوئی حلال سمجھ کر کرے تو کفر ہے۔ (المنہاج مشمولہ مسلم، تحت حدیث ابی ہریرۃ، ص:۵۸)
پاکیزگی اور طہارت ہی معاشرے کی ترقی اور بلندی کا کلیدی ذریعہ ہے۔ وہ جماعت یا گروہ بھلا کیوں کر ترقی کرسکتی ہے جس کے یہاں ایسی حرام بدعات ورسومات رائج ہوں۔ ہمارے معاشرے میں کچھ اس طرح کے رسوم وبدعات رائج ہیں جس کی اصل تو دور ان کے حکمِ جواز پر بھی سوالیہ نشان قائم ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان قبیح افعال کو بزرگانِ دین کی شان میں خراجِ عقیدت اور اظہارِ محبت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ماہِ محرم میں کیے جانے والے خلافِ شرع امور : ڈھول تاشہ بجانا، تعزیوں کو ماتم کرتے ہوئے گلی گلی پھرانا، سینے کو ہاتھوں یا زنجیروں سے پیٹ پیٹ کر، اچھلتے کودتے ہوئے ماتم کرنا، تعزیوں کی تعظیم کے لیے ان کےسامنے سجدہ ریز ہونا، تعزیوں کے پاس پڑے ہوئے گرد وغبار کو اٹھا کر بطورِ تبرک سروں، چہروں اور سینوں پر ملنا، اپنے بچوں کو محرم کا فقیر بناکر محرم کی نیاز کے لیے خاص قسم کے کالے کپڑے پہنا کر ننگے سر، ننگے پائوں، گریبان کھولے ہوئے گلی گلی دوڑانا، بھگانااور طرح طرح کی لغویاتی اور خرافاتی رسمیں جو مسلمانوں میں جراثیم کے مثل پھیلی ہوئی ہیں، یہ سب حرام وممنوع وناجائز ہیں۔ سب زمانۂ جاہلیت اور شیعوں کی نکالی ہوئی رسمیں ہیں جن سے توبہ کرکے خود بھی بچنا اور دوسروں کو بچانا لازم وضروری ہے۔
یوں ہی عورتوں کا جلوسِ تعزیہ دیکھنے کے لیے بے پردہ گھروں سے نکلنا، مردوں کے مجمع میں چلنا اور تعزیوں کو جھک جھک کر سلام کرنا بھی حرام وناجائز ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
بعض لوگ ماہِ محرم الحرام کے بارے میں عجیب وغریب توہمات کے شکار ہیں۔ ان کے خیال میں یہ مہینہ نحوست کا شکار ہے۔ ان کے اس غلط عقیدے کی بڑی وجہ واقعاتِ شہادت کا پیش آنا ہے۔ فساد وبطلان پر مبنی اپنے انھی خیالات وتصورات کی بنا پر لوگ اس مہینے میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس طرح کے خیالات وتصورات قرآن وحدیث کے ارشادات وتعلیمات کے یکسر خلاف ہیں۔ اگر کسی عظیم شخصیت کے انتقال یا کسی بڑے حادثے کے پیش آنے سے کوئی دن یا کوئی مہینہ دائمی طور پر منحوس قرار پائے تو شاید سال بھر کے تین سو ساٹھ دنوں میں کوئی دن بھی ایسا ہوتا جو اس غلط نظریے کی بنا پر منحوس نہ ہو، گویا اس طرح پورا سال منحوس ہوگیا؛ کیوں کہ پورے سال کے کلینڈر کی تاریخ میں کوئی نہ کوئی افسوس ناک واقعہ ضرور ملے گا۔ ظاہر ہے کہ پورے سال کو منحوس سمجھنا کتنا غلط اور اپنے آپ کو کتنی مشکل میں ڈالنا ہوگا۔ مسلمانوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ قرآن وسنت نے انھیں اس طرح کی توہم پرستی کی قید سے آزاد کرکے غلط نظریات کی بنا پر پیش آنے والی مشکلات سے انھیں بچا لیا ہے۔۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔