اسلام کے خلاف یہودیہوں کی سازشیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل یہود آپ علیہ السلام کی آمد کا شدت سے انتظار کررہے تھے وہ آپ علیہ السلام پر ایمان لانے کیلئے بظاہر بالکل تیار بیٹھے تھے لیکن ان کے آباو اجداد کی ہوس پرستی‘ حسد‘ کینہ اور استکبار عن الحق کی بیماری ان کی رگ رگ میں رچ بس گئی تھی یہ ایک موروثی مرض تھا جس سے وہ خود کو پاک کرنے‘ دور رکھنے اور علاج کروانے کی کوشش نہیں کرتے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب نبوت کے عطا ہونے کا اعلان فرمایا اور یہود کو اس کی اطلاع ہوئی تو بجائے لبیک کہنے کے انہوں نے لیت و لعل سے کام لینا شروع کردیا اور رفتہ رفتہ مرض بڑھتا گیا یہاں تک کہ وہ صاف منکر بن گئے‘ یہ انکار محض عناد اور بے جا ضد پر مبنی تھا کیونکہ آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اوصاف جو توراۃ میں مذکور تھے ان کے مشاہدہ میں آچکے تھے‘ دوسری جانب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کا بہت خیال فرماتے تاکہ ان کے قلوب کی تالیف کی جاسکے انہوں نے ایسے امور میں ان کا ساتھ دینا عملی طور پر پسند فرمایا جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل نہ ہوئی تھی اور جو عربوں کی روایات کے خلاف تھے مگر ان لوگوں کا مذہبی مزاج اور شعور اتنا بگڑ چکا تھا کہ وہ نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف بن گئے بلکہ آپ کی دشمنی میں مشرکین عرب سے بھی سو قدم آگے نکل گئے‘ انہوں نے عربوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت پر اکسایا اور آپ ؐ کے کتب سابقہ میں بیان شدہ اوصاف میں تبدیلی کردی اور مکرو فریب کا ہر حربہ استعمال کیا حالانکہ یہ شرارت ان کیلئے سیاسی و اقتصادی اعتبار سے بھی نقصان دہ تھی اگر وہ عقلمندی اور ہوشیاری سے کام لیتے اور مکاری کو بالائے طاق رکھ کر آپ ؐ کی تصدیق کرتے تو وہ بجائے غلام کے آقا بن جاتے‘ لیکن غلامانہ زندگی بسر کرنے والی قوم ہمیشہ گھٹیا فیصلے کرتی ہے کیونکہ غلامی کا لازمی اثر ہے کہ مکاری آدمی کی طبیعتثانیہ بن جاتی ہے۔
یہود نے مخالفت کا کوئی ایسا راستہ نہ چھوڑا جس پر انہوں نے دشمنی کے گھوڑے نہ دوڑائے ہوں وہ ان تمام حربوں میں پس پردہ رہنے کی کوشش کرتے اللہ نے ان کے سب حیلوں اور تدبیروں کو ناکام بنادیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین متین مکمل ہوا اور جزیرۃ العرب سے ان لوگوں کا رسوا کن خاتمہ ہوا۔
چونکہ یہود میں مُتَنَوِّع صفات جمع ہوگئی تھیں ایک طرف تکبر‘ غرور اور حب جاہ و دولت جبکہ دوسری جانب ذلت‘ رسوائی اور دھوکہ و مکروفریب جیسی خسیس خامیاں انکی طبیعت ثانیہ بن چکی تھیں کہ وہ علم کے بہت بڑے سرمایہ کے مالک بھی تھے جس کے غلط استعمال سے ان میں پہلی قسم کے عیوب نے جگہ بنالی تھی اور وہ غلامی کے کئی ادوار سے بھی گزر کر جلاوطنی کے ایام کاٹ رہے تھے جس سے دوسری نوع کی مذموم خصلتوں نے جنم لیا تھا‘ ان متضاد عیوب کی بناء پر وہ کھل کر کوئی لائحہ عمل کا اعلان نہ کرسکے تاہم اپنی غلامانہ ذہنیت کی بنا پر انہوں نے مکاری کا راستہ اپنا لیا تھا چنانچہ اولاً انہوں نے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت سے لوگوں کو یہ کہہ کر بدظن کرنے کی کوشش کی کہ ہمارے پاس جس نبی کے احوال مکتوب ہیں محمد عربی میں وہ نہیں پائے جاتے ہیں‘ جب یہ حربہ ناکام ہوا تو عربوں کو ان کے خلاف جنگ و جدال پر اکسایا اور اس مخالفت میں یہاں تک گئے کہ ان کے شرک کو اسلام کے مقابلے میں بہتر قرار دیا جس کے نتیجہ میں غزوۂ احزاب و خندق کی نوبت آئی جب اس میں بھی نامراد ہوئے تو آپ پر سحر کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کو زہر کھلانے کی بزدلانہ حرکت کی لیکن اللہ کے فضل و کرم سے اسلام اپنی پوری رفتار سے ترقی کرتا ہوا اور ان کی تمام رکاوٹوں کو روندتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ بلاد عجب کی ناقابل تسخیر حکومتوں کو بھی مسخر کرنے میں کامیاب ہوا مگر یہود پھر بھی منقاد نہ ہوئے اور اپنے عناد پر بضد رہے ۔ ان سازشوں کے متعلق ہم جلد تفصیل سے لکھیں گے ان شاء اللہ العزیز ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
Saturday, 24 June 2017
اسلام کے خلاف یہودیہوں کی سازشیں
Posted by
Unknown
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔