Pages

Wednesday, 14 June 2017

مِن دُونِ اللّهِ کا صحیح معنی و مفہوم (حصّہ چہارم )

مِن دُونِ اللّهِ کا صحیح معنی و مفہوم (حصّہ چہارم )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مؤمنین متقین ایک دوسرے کے دوست ہوں گے

(1)وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ،ترجمہ:اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔(التوبة، 9 : 71)(2)الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ۔ترجمہ:سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی) ۔(الزخرف، 43 : 67)

معبودانِ باطلہ بے بس و بے اختیار ہیں

(1)وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَآ أَنفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ۔ترجمہ:اور جن (بتوں) کو تم اس کے سوا پوجتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنے آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔(الاعراف، 7 : 197)(2)قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ۔ترجمہ:(ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا : پھر کیا تم اﷲ کو چھوڑ کر ان (مورتیوں) کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع دے سکتی ہیں اور نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔(الأنبياء، 21 : 66)(3)وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا۔ترجمہ:اور ان (مشرکین) نے اللہ کو چھوڑ کر اور معبود بنا لئے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے لئے کسی نقصان کے مالک ہیں اور نہ نفع کے اور نہ وہ موت کے مالک ہیں اور نہ حیات کے اور نہ (ہی مرنے کے بعد) اٹھا کر جمع کرنے کا (اختیار رکھتے ہیں) ۔(الفرقان، 25 : 3)(4)مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ۔ترجمہ:ایسے (کافر) لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اوروں (یعنی بتوں) کو کارساز بنالیا ہے مکڑی کی داستان جیسی ہے جس نے (اپنے لئے جالے کا) گھر بنایا اور بیشک سب گھروں سے زیادہ کمزور مکڑی کا گھر ہے۔ کاش! وہ لوگ (یہ بات) جانتے ہوتے۔(العنکبوت، 29 : 41)

من دون اﷲ کو شفاعت کا اِذن نہیں ہوگا

(1)وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللّهِ وَلِيٌّ وَلاَ شَفِيعٌ.ترجمہ:اور آپ ان لوگوں کو چھوڑے رکھئے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب دے رکھا ہے اور اس (قرآن) کے ذریعے (ان کی آگاہی کی خاطر) نصیحت فرماتے رہئے تاکہ کوئی جان اپنے کئے کے بدلے سپردِ ہلاکت نہ کردی جائے (پھر) اس کے لئے اﷲ کے سوانہ کوئی مدد گار ہوگا اور نہ کوئی سفارشی۔(الانعام، 6 : 70)(2)فَمَا لَنَا مِن شَافِعِينَO وَلَا صَدِيقٍ حَمِيمٍO فَلَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَO۔ ترجمہ:سو (آج) نہ کوئی ہماری سفارش کرنے والا ہےo اور نہ کوئی گرم جوش دوست ہےo سو کاش ہمیں ایک بار (دنیا میں) پلٹنا (نصیب) ہو جاتا تو ہم مومن ہوجاتے۔(الشعراء، 26 : 100 - 102)(3)وَلَمْ يَكُن لَّهُم مِّن شُرَكَائِهِمْ شُفَعَاءُ وَكَانُوا بِشُرَكَائِهِمْ كَافِرِينَO۔ترجمہ:اور ان کے (خود ساختہ) شریکوںمیں سے ان کے لئے سفارشی نہیں ہوں گے اور وہ (بالآخر) اپنے شریکوں کے (ہی) مُنکِر ہو جائیں گے۔(الروم، 30 : 13)(4)أَأَتَّخِذُ مِن دُونِهِ آلِهَةً إِن يُرِدْنِ الرَّحْمَن بِضُرٍّ لاَّ تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلاَ يُنقِذُونِO۔ترجمہ:کیا میں اس (اللہ) کو چھوڑ کر ایسے معبود بنا لوں کہ اگر خدائے رحمان مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو نہ مجھے اُن کی سفارش کچھ نفع پہنچا سکے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکیں۔(يس، 36 : 23)(5)وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُO۔ترجمہ:اور آپ ان کو قریب آنے والی آفت کے دن سے ڈرائیں جب ضبطِ غم سے کلیجے منہ کو آئیں گے۔ ظالموں کے لئے نہ کوئی مہربان دوست ہو گا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائے۔(المؤمن، 40 : 18)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مِنْ دُوْنِ اﷲِ جہنم کا ایندھن ہوں گے

مشرکین اور یہود و نصاريٰ قیامت کے دن بے یارومددگار ہوں گے اور ان کے جھوٹے معبود اور بت ان کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے ان میں سے ہر ایک کو روزِ قیامت ہر عمل کی بری جزا ملے گی۔(1)إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَO۔ترجمہ:بیشک تم اور وہ (بت) جن کی تم اﷲ کے سوا پرستش کرتے تھے (سب) دوزخ کا ایندھن ہیں، تم اس میں داخل ہونے والے ہو۔(الانبياء، 21 : 98)(2)وَمَن يَهْدِ اللّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِهِ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًاO۔ترجمہ:اور اﷲ جسے ہدایت فرما دے تو وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ ان کے لئے اس کے سوا مدد گار نہیں پائیں گے، اور ہم انہیں قیامت کے دن اوندھے منہ اٹھائیں گے اس حال میں کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے، ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، جب بھی وہ بجھنے لگے گی ہم انہیں (عذاب دینے کے لئے) اور زیادہ بھڑکا دیں گے۔(الاسراء، 17 : 97)(3)وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْدًاO۔ترجمہ:اور ہم مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسا ہانک کر لے جائیں گے۔(سورہ مريم، 19 : 86)(4)فَكُبْكِبُوا فِيهَا هُمْ وَالْغَاوُونَO وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَO۔ترجمہ:سو وہ (بت بھی) اس (دوزخ) میں اوندھے منہ گرا دیئے جائیں گے اور گمراہ لوگ (بھی) o اور ابلیس کی ساری فوجیں (بھی واصل جہنم ہونگی) o(الشعراء، 26 : 94 - 95)(5)اُحْشُرُوْا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَO مِن دُونِ اللَّهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَى صِرَاطِ الْجَحِيمِO۔ترجمہ:اُن (سب) لوگوں کو جمع کرو جنہوں نے ظلم کیا اور ان کے ساتھیوں اور پیروکاروں کو (بھی) اور اُن (معبودانِ باطلہ) کو (بھی) جنہیں وہ پوجا کرتے تھےo اللہ کو چھوڑ کر، پھر ان سب کو دوزخ کی راہ پر لے چلوo۔(الصافات، 37 : 22 - 23)(6)إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَO لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَO وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِن كَانُوا هُمُ الظَّالِمِينَO وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُم مَّاكِثُونَO۔ترجمہ:بیشک مُجرِم لوگ دوزخ کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیںo جو اُن سے ہلکا نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں نا امید ہو کر پڑے رہیں گےo اور ہم نے اُن پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی ظلم کرنے والے تھےo اور وہ (داروغۂِ جہنّم کو) پکاریں گے : اے مالک! آپ کا رب ہمیں موت دے دے (تو اچھا ہے) . وہ کہے گا کہ (تم اب اسی حال میں ہی) ہمیشہ رہنے والے ہوo۔(الزخرف، 43 : 74 - 77)(7)مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَنصَارًاO۔ترجمہ:(بالآخر) وہ اپنے گناہوں کے سبب غرق کر دئیے گئے، پھر آگ میں ڈال دئیے گئے، سو وہ اپنے لئے اﷲ کے مقابل کسی کو مددگار نہ پا سکے۔(نوح، 71 : 25)

مِنْ دُوْنِ اﷲِ سیاہ چہروں کے ساتھ ذلیل و خوار ہوں گے

(1)وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌO تَظُنُّ أَن يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌO۔ترجمہ:اور کتنے ہی چہرے اُس دن بگڑی ہوئی حالت میں (مایوس اور سیاہ) ہوں گےo یہ گمان کرتے ہوں گے کہ اُن کے ساتھ ایسی سختی کی جائے گی جو اُن کی کمر توڑ دے گیo۔(القيامة، 75 : 24، 25)
(2)وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌO تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌO أُوْلَئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُO۔ترجمہ:اور بہت سے چہرے ایسے ہوں گے جن پر اس دن گرد پڑی ہوگیo (مزید) ان (چہروں) پر سیاہی چھائی ہوگیo یہی لوگ کافر (اور) فاجر (بدکردار) ہوں گےo۔(عبس، 80 : 40 - 42)(3)وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌO عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌO تَصْلَى نَارًا حَامِيَةًO تُسْقَى مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍO لَّيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِن ضَرِيعٍO لاَّ يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِن جُوعٍO۔ترجمہ:اس دن کتنے ہی چہرے ذلیل و خوار ہوں گےo (اﷲ کو بھول کر دنیاوی ) محنت کرنے والے ( چند روزہ عیش و آرام کی خاطر سخت) مشقتیںجھیلنے والےo دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےo (انہیں) کھولتے ہوئے چشمہ سے (پانی) پلایا جائے گاo ان کے لئے خار دار خشک زہریلی جھاڑیوں کے سوا کچھ کھانا نہ ہو گاo (یہ کھانا) نہ فربہ کرے گا اور نہ بھوک ہی دور کرے گاo (الغاشية، 88 : 2 - 7)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مِنْ دُوْنِ اﷲِ اور ان کے پیروکاروں کے درمیان پھوٹ ہوگی

(1)وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَى كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ وَمَا نَرَى مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءَ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَO۔ترجمہ:اوربیشک تم (روزِ قیامت) ہمارے پاس اسی طرح تنہا آؤ گے جیسے ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ (تنہا) پیدا کیا تھا اور (اموال و اولاد میں سے) جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا تھا وہ سب اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ آؤ گے، اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھیں گے جن کی نسبت تم (یہ) گمان کرتے تھے کہ وہ تمہارے (معاملات) میں ہمارے شریک ہیں۔ بیشک (آج) تمہارا باہمی تعلق (و اعتماد) منقطع ہوگیا اور وہ (سب) دعوے جو تم کیا کرتے تھے تم سے جاتے رہے۔(الانعام، 6 : 94)(2)لَن تَنفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌO۔ ترجمہ:تمہیں قیامت کے دن ہر گز نہ تمہاری (کافر و مشرک) قرابتیں فائدہ دیں گی اور نہ تمہاری (کافر و مشرک) اولاد، (اُس دن اللہ) تمہارے درمیان مکمّل جدائی کردے گا (مؤمن جنت میں اور کافر دوزخ میں بھیج دیئے جائیں گے)، اور اللہ اُن کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے جو تم کر رہے ہو۔(الممتحنة، 60 : 3)

اس ساری بحث اور تقابلی جائزے کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’مِن دُونِ اللَّهِِ‘‘ کے بیان کا اطلاق بلا امتیاز اللہ کے نیک بندوں پر نہیں کیا جا سکتا صرف وہ اس زمرے میں آتے ہیں جن کے باب میں نفیء شرک اور ہر غیر اللہ سے نفیء استحقاقِ عبادت مذکور ہو کیونکہ عبادت و الوہیت فقط اللہ تبارک و تعاليٰ کا خاصہ ہے۔ اس کے سوا کوئی اور اس شان کا مالک نہیں ہو سکتا لیکن وہ مقاماتِ قرآن جہاں نفیء شرک اور نفیء استحقاقِ عبادت کی بات نہ ہو رہی ہو بلکہ کفار و مشرکین اور ان کے مزعومہ معبودانِ باطلہ کی مذمت مقصود ہو وہاں مِن دُونِ اللَّهِ میں انبیائے کرام علیہم السّلام اور اولیاء و صلحاء اور مقربین علیہم الرّحمہ شامل نہیں۔ فہمِ دین سے نابلد بعض لوگوں نے اپنے من گھڑت تصورِ توحید کے زعم میں ’’مِن دُونِ اللَّهِ‘‘ کو ایک مستقل اصطلاح بنا ڈالا اور جہاں بھی اس کا تذکرہ آیا سیاق و سباق سمجھے بغیر بعض کو اس میں داخل کیا اور بعض کو اس میں سے خارج کیا. اس نادانی کے نتیجہ کے باعث الزام لگانے والوں کی طرف سے بھی زیادتی ہوئی اور جواب دینے والوں کی طرف سے بھی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں ’’مِن دُونِ اللَّهِ‘‘ کا سیاق و سباق دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ اس کا مذکورہ چیزوں سے تعلق ہی نہیں، یہ تو صرف ردِ شرک اور نفی استحقاقِ عبادت کے لئے آتا ہے۔

الغرض یہ امر شک و شبہ سے بالا ہے کہ انبیاء علیہم السّلام و اولیاءاللہ علیہم الرّحمہ قربِ خداوندی کا اور اس کی بارگاہِ اقدس تک رسائی اور وصول کا واسطہ، وسیلہ اور ذریعہ ہیں ۔ ان کی تعظیم و تکریم اور ادب و احترام واجب و لازم ہے جو کہ قلبی تقويٰ و طہارت اور ایمانِ خالص کی دلیل و برہان ہے لہٰذا یہ تسلیم کرنا ضُروری ہے کہ من دون اللہ اور ہیں اور انبیاء و رسل علیہم السّلام اور اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ اور ہیں ۔ اللہ تعاليٰ کے تقرب اور توسط کے وسائل و ذرائع سے محرومی اور بُعد و دوری کا اوثان و اصنام کے سوا کسی اور پر اطلاق کرنا سراسر باطل ہے اور منصبِ نبوت و ولایت کی توہین و تحقیر ہے ۔ الحمد للہ مضمون مکمل ہوا ۔  (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔